آزادی کا حقیقی مفہوم اور پاکستانی سماج
تحریر: فرویدون خان۔ مردان
وطن عزیز کا 74 واں یوم آزادی جوش وخروش سے منایا گیا۔اسلام آباد میں31 توپوں کی سلامی، جب کہ صوبوں میں 21،21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ دن کا آغاز مسجدوں اور مدرسوں میں ملکی سلامتی،ترقی و خوش حالی کی دعاؤں سے ہوا۔ بازاروں،مارکیٹوں،گلی کوچوں، سڑکوں اور پارکوں میں ہلالی پرچموں کو لہرایاگیا، آتش بازی ،سیلنسرز نکلے موٹر سائیکل ، کارہارنز کی پاں پا ں ، باجوں کی بلند آوازوں سے ، غرض ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سےآزادی کے دن کو رونق بخشی ۔وطن سے پیار و محبت کرنا ایک فطری جذبہ ہے اور یوم آزادی اتنی شان و شوکت سے منانا اس جذبے کا مظہر ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ہم آزادی کے تقاضوں سے واقف ہیں۔کیا بہ حیثیت مجموعی ہم میں آزاداقوام کے رویے موجود ہیں۔ اس لیے ضروری ہے قومی آزادی کے معیارات اور اہداف کے تناظر میں شعوری جائزہ لیں۔
حقیقی آزادی کے معیارات اور اہداف:
کسی بھی سماج کی پرکھ کے تین بنیادی معیارات ہوتے ہیں
1۔ فکروفلسفہ
سماج کا جائزہ لینے کا بنیادی اور اہم دائرہ اس کے تصورات،دساتیر،آئین ، قوانین،اصول اور ضابطوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن کے مطابق سوسائٹی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی منظم کرتی ہے۔ افراد اور اداروں کے حقوق و فرائض کا تعین کرتی ہے ۔ سیاسی اور معاشی اداروں کا ڈھانچہ اسی فکر پر کھڑا ہوتا ہے۔ اخلاق، اقدار، رسم ورواج اسی کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ۔
2۔ سیاست
سماج کا دوسرا دائرہ سیاست کا ہوتا ہے جو مذکورہ بالا فکر کے مطابق معاشرے کی مختلف اکائیوں اور قوموں میں توازن پیدا کرتاہے۔ بالا دستی اور امتیازات کا خاتمہ کرتاہے۔ معاشرتی امن کو یقینی بناتاہے۔
3۔معیشت
سماج کا تیسرا دائرہ معیشت کا ہے، جس کے ذریعے بلاتفریق رنگ،نسل،قوم و مذہب کے معاشرے کے تمام افراد کی بنیادی ضروریات و احتیاجات کی تکمیل کااہتمام کیا جاتا ہے۔
آزاد معاشرہ وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا تینوں دائروں میں آزاد ہو۔ اور یہی آزادی کا حقیقی مفہوم ہے۔
اسلام میں حقیقی آزادی کا تصور۔
اسلام ایسے سماج کی تشکیل چاہتاہے، جس کی بنیاد عقیدہ توحید پر ہے ۔ یعنی سماج کے تمام اداروں میں صرف اور صرف اللہ کا قانون ہو اور قوم اسی کے مطابق ہی زندگی گزارے اوراسی کے مطابق فیصلے کرے،اس کو عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔
حضرت ربیع بن عامرؓ جنگ قادسیہ کے دوران جب کسری ایران کے دربار میں جاتے ہیں تو اپنے آنے کے یہ تین مقاصد بتلاتے ہیں کہ ہم لوگوں کو انسانوں کی (سیاسی) غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دیناچاہتے ہیں۔ ہم انسانیت کو دنیا کی( معاشی) تنگیوں سے نکال کر دنیا کی( معاشی )خوش حالی دینا چاہتے ہیں۔ ہم اللہ کے بندوں کو دنیا کے فرسودہ نظریات سے نکال کر دین اسلام کے عدل وانصاف کے نظریہ پر لاتے ہیں۔
یہی تین نکاتی پروگرام قرآن میں سورہ بلد میں اصولی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ گردنوں کو چھڑانا (یعنی سیاسی آزادی)۔ یا بھوکوں کو کھانا کھلانا (یعنی معاشی آزادی)ان پر عمل کرنے والے ایمان لانے والے ہیں (یعنی فکری آزادی )پورا قرآن ایمانیات سے احکامات تک اسی سماجی ، سیاسی، معاشی فکر کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
آزادی کا حقیقی مفہوم اور پاکستانی سماج کا جائزہ:
ان اصولوں کے تناظر میں پاکستانی سماج کا جائزہ لیتے ہیں ۔
پاکستان میں فکری آزادی ۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن بدقسمتی سے یہاں پر دینی فکر کی بجائے سرمایہ دارانہ طبقاتی فکر مسلط کیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی ۔ معاشرہ گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ گروہیت، عصبیت،لسانیت اور باہمی نفرتیں بغض حسد سماجی اقدار بن چکی ہیں۔ اسی طبقاتی فکر کا نتیجہ ہے کہ مذہبی فرقہ واریت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ مسلکی تقسیم کی بنیاد پر متعدد تعلیمی دائرے معروف ہیں، جن سے تعلیم حاصل کرنے والے معاشرتی خلیج کو گہراکرتے جارہے ہیں ۔عصری تعلیم اداروں کی حالت بھی اس سے کچھ کم نہیں ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں عصری تعلیم کی تیرہ اقسام پا ئی جاتی ہیں۔ ایک طرف ضروریات زندگی سے لیس امیر طبقہ جب کہ دوسری طرف ایک وقت روٹی کو ترسنے والا غریب طبقہ ہے۔ انصاف اور صحت کے معیارات مختلف طبقات کے لیے الگ الگ ہیں۔ معاشرتی وحدت تو موتیوں کے ہار کی مانند ہوتی ہے اس معاشرے کا تار ٹوٹ کر موتی زمین پر بکھرے رہے ہیں۔
٢۔ پاکستان میں سیاسی آزادی
اسلام کے نام پر آزاد ہونے والے ملک میں پہلی قیادت برطانوی آئین پر ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھاتی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا عہدہ (گورنر جنرل) برطانوی آئین کا قائم کردہ ہے۔ ابتدائی دور میں امن کی حالت یہ ہے کہ نوزائیدہ مملکت کی صف اول کی قیادت کو زہر دے کر یا گولی مارکر مروا دیا جاتا ہے۔اپنے قیام کے نو سال تک مملکت پاک سرزمین بغیرآئین کے چلائی جاتی ہے۔ 23 مارچ 1956 ءکو پہلا آئین منظور ہوتا ہے توصرف دوسال بعد 1958ءمیں اس آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ملک میں مارشل لا لگ جاتا ہے۔ اور اسی طرح کبھی جاگیرداور اور سرمایہ داروں کی جمہوریت کے نام پر آمریت تو کبھی افسر شاہی کی آمریت 74 سالوں سے چلی آرہی ہے، جسے جمہوریت کہا جارہا ہے۔ درحقیقت وہ سرمایہ دارانہ فکر کے تحت مغربی جمہوریت سے درآمد شدہ ہے، جس میں الیکشن کے بجائے سلیکشن ہوتی ہے۔ وطن عزیز جاگیرداروں اور سرمایہ داروں اور بیوروکریسی کے سبب سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔
نوزائیدہ ملک کو علاقا ئی قوتوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے بجائے سات سمندر پار بین الاقوامی سامراجی قوتوں کے ساتھ دفاعی، سیاسی اور معاشی معاہدوں میں جکڑدیا گیا۔ نظریہ پاکستان کے مخالف چاروں صوبوں کے گورنرز انگریز، پہلا وزیر قانون ہندو اور وزیر خارجہ سر ظفراللہ قادیانی مقرر کیے گیے۔1971 ءمیں تقسیم بنگال نے دو قومی نظریہ ختم کردیا کہ ہمارا مسلم بھائی ہم سے جدا ہوگیا۔
٣۔پاکستان کی معاشی آزادی کا جائزہ۔
معاشیات کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہوتی ہے ۔آزادی کے بعد انگریز کے طبقاتی معاشی نظام کو جاری رکھا گیا۔ تعلیمی نظام کے ذریعے ایڈم سمتھ کے معاشی افکار کو رواج دیا گیا۔ سرمایہ داری نظام کو مسلط کردیا گیا۔انگریز کی جاری پالیسی کے تحت جاگیردار ی طبقے کو نوازا جاتا رہا۔ جاگیرداروں کی اقلیت کو زرعی زمین کے دوتہائی حصہ پر قبضہ دیا گیا ، اکثریتی طبقے کو غریب کاشت کار کو اپنے حقوق سے محروم رکھا گیا۔اسی جاگیردار طبقے نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار اور تجارت بڑھانے کے لیے صنعتوں کو لگانے کی مخالفت کی۔ چناں چہ ان بیرونی کمپنیوں کی آج تک ادویات، خوراک،تیل،گیس،توانائی اور معدنیات کے ذخائر پر اجارہ داری ہے۔یوں اربوں روپے ملک سے باہر جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کا پہلا بجٹ بارہ کروڑ روپے کے خسارے سے پیش ہوا تھا 74 سال گزرنے کے بعد بھی خسارے کا یہ عمل جاری ہے۔ جس طرح پہلا بجٹ IMFکی نگرانی میں بنایاگیا اسی طرح اب تک کاآخری بجٹ بھی اسی کی اصلاحات کی روشنی میں مرتب ہوتاہے ۔اب تو صورتِ حا ل یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگیوں کےلیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔جاگیرداری کے بطن سے جنم لینا والا پاکستان سرمایہ دار بھی قومی سوچ نہیں رکھتا ۔یوں عوام جاگیردار اور سرمایہ دار کے استحصال کے دوہرے عذاب سے دوچارہے ۔
دعوت فکر ۔
اس تمام صورتِ حال میں عوام کی حالت زار کا جائزہ لیں تو 62٪عوام خط ِغربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں، جس میں بتدریج اضافہ ہورہاہے۔غربت اگلے درجے میں محرومی اور جہالت کو بڑھاتی ہے۔ جہالت سے فکری انحطاط پیدا ہوتا ہے۔ یوں مذہبی فرقہ واریت معاشرتی انتشار کا سبب بنتی ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وطن عزیز کو حقیقی آزادی دلانے کے لیے اور غلامی کی اس تاریک رات کو صبح آزادی میں تبدیل کرنے کے لیےدینی فکر کی اساس پر شعوری اور اجتماعی جدوجہد کو زندگی کا مقصد بنایا جائے۔