خبط عظمت
خبط عظمت کی نفسیات اور اس کا پس منظر
خبط عظمت
تحریر: ڈاکٹر سید فضل اللہ شاہ ترمذی ۔سوات
سیروسیاحت کا مقصد محض گھومنا پھرنا اور مزے لوٹنا نہیں ہے ۔ قدرتی نظاروں اور کرشموں سے لطف اندوز ہونا، تہذیبوں کی سیاسی سماجی و معاشی تاریخ کا مطالعہ اور سب سے بڑھ کر خود انسانوں کو ان کے مزاجوں اور عادات و اطوار کے پس منظر میں جاننا بھی مقاصد سیاحت کا حصہ ہوتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کی پرکھ اس کے ساتھ سفر کرنے سے ہوتی اور سیر و سفر کو ایک استاد کی حیثیت حاصل ہے جو انسان کو زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کا طریقہ سمجھاتا اور سکھاتا ہے۔ اور بجا طور پر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں کبھی مسافر نہیں ہوئے ہیں وہ ذہنی ارتقا سے محروم ، حقائق سے دور اور نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
دوران سفر انسان اپنا گھر بار، خاندان ، وطن اور عزیزواقارب سب کچھ چھوڑ کر مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے گہواروں کی رنگا رنگ صورتیں تاریخ کے جھروکوں کی اوٹ سے جاگتی آنکھوں دیکھتا ہے اور یہ تجربات و مشاہدات اس کے ارتقائے ذہنی کے سنگ ہائے میل کو عبور کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا کے حقائق کے مشاہدے کے نتیجے میں تصنیف کی جانے والی کتب ہی معیارقرار پاتی ہیں ۔ اسی لیے تو کتاب مقدس نے بھی 'قل سیرو فی الارض کیف بدیٔ الخلق' کا حکم دیا ہے۔
سیرو سیاحت کے عمل سے دیگر قوموں کے اجتماعی و انفرادی مزاجوں اور رویوں کا تعین کیا جا سکتا ہے ان کی خوبیوں اور امراض کی شناخت سے اپنی قومی و انفرادی زندگی کی اصلاح کی راہیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ انفرادی و اجتماعی رویے ہی درحقیقت فرد یا قوم کے عروج و زوال کا تعین کرتے ہیں۔ چناں چہ حکما کے نزدیک انسان اپنے مزاج میں جواب دہ نہیں ہے، لیکن اس کے اظہار یعنی رویوں کے بارے میں ضرور جواب دہ ہے۔ کیوں کہ یہ قابل تغیر ہیں۔
آج عالم انسانیت کا مشاہدہ یہ واضح کرتا ہے کہ اس عہد کی انسانیت فرد و اجتماع کی سطح پر بہت سے مسائل کا شکار ہے۔
جدید دور میں سرمایہ داری نظام نے انسانیت کو جہاں سیاسی اور معاشی چیلنجز میں مبتلا کیا ہے وہیں انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانی نفسیات بھی شدید اُلجھنوں کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
یہ امر واقعہ ہے کہ سرمایہ داری نظام ، حیوانیت کے فروغ اور روحانیت کی نفی کا علمبردار ہے۔ جب کہ اس کے علی الرغم مجموعی انسانی ساخت بیک وقت مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کا تقاضا کرتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی اجتماعی انسانی مزاج کو پیش نظر رکھ کر ہی یہ احسنتقویم اپنے مقاصد تخلیق سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے ۔ ورنہ اسفل سافلین کے زمرے میں شمار ہونا ، اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔
اسی اجتماعی انسانی مزاج کو برہم کرتے ہوئے سرمایہ داری نظام قوموں کے اجتماعی سیاسی و معاشی نظام کے ساتھ انفرادی و اجتماعی نفسیات کو بھی بری طرح سے متأثر کرتا ہے۔اور اسی نظام کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی مادہ پرستی انسان کی حیوانیت کو مہمیز دے کر انفرادیت اور خود پسندی جیسی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہیں۔
خود پسندی کا یہ مرض جس کا کائنات میں سب سے پہلا شکار ابلیس مردود تھا اور جس نے "خلقتنی من نار" سے اس "میں" کا اظہار کیا ۔ وگرنہ نظام کائنات کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی اس منفیت کا ادراک کرسکتا ہے۔
مادہ پرست سماج درحقیقت انسانی صلاحیتوں کے بجائے محض مادی پہلوؤں سے ایک غیرحقیقی مقابلے پر یقین رکھتا ہے۔اسی سطحی تقابل پسندی کے نتیحے میں بنیادی انسانی اقدار متأثر ہوتی ہیں اور نسلی و طبقاتی تعصبات،تفاخر و حقارت کے انتہائی منفی رویوں کو جنم دیتے ہیں۔
اگر گہرائی میں جائزہ لیا جائے تو سرمایہ پرستانہ طرز فکر و عمل ایک احساس کمتری کو جنم دیتا ہے ، جس کے تدارک کے لیے منفی اور غیر حقیقی مقابلہ بازی کا رجحان فروغ پاتا ہے ۔ اور انفرادی ا ور اجتماعی "میں " ہر دو کی تباہی و بربادی کا باعث بنتی ہے ۔ اسی مقابلے اور احساس کمتری کے ردِعمل میں ایک خودساختہ احساس عظمت متکبرانہ رویوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اپنی ذات ہی کو محور بنائے رکھنا ، محض شخصی اعتبار کو قائم کرنے کے لیے محنت کرنا ، سماجی حیثیت منوانے کے لیے جھوٹ اور مکاری سے بھی گریز نہ کرنا ، دوسروں کے جذبات و احساسات کو یکسر نظر انداز کردینا، ایسے رویے ہیں جو ایک فرد میں انتہائی خود پسندی و خود غرضی کے عکاس ہوتے ہیں۔
چناں چہ خود کو عقل کل سمجھنا، محض اپنی رائے اور اپنی ذات کو ہی اہم تصور کرنا اور اپنی برتری کے تأثر کو برقرار رکھنے میں کسی کی پروا نہ کرنا ایسے افراد کا وطیرہ ہوتا ہے۔ اور منافقانہ طرز عمل ، احسانات جتلانے کی عادت اور انسانی جذبات و احساسات سے لاپرواہی برتنے کا عمل ان کا شعار بن جاتا ہے ۔
مادی وسائل اور مکارانہ طرز ِعمل کے ذریعے سے حاصل کیا گیا ظاہری وقار درجہ بدرجہ خبط عظمت کی کیفیات تک پہنچا دیتا ہے، جس کے پس پردہ درحقیقت احساس کمتری اور خوف کے جذبات کارفرما ہوتے ہیں۔
بعض افراد میں تو اپنے غیر معمولی اور برتر ہونے کی یہ کیفیات ناقابل تردید یقین (Delusion) کی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔
اگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو درحقیقت یہی رویے سماج میں طبقاتیت اور ظلم و استحصال کے فکر کی بنیاد بنتے ہیں۔
جب کہ قومی و بین الاقوامی دائرے میں یہی طرز فکر و عمل قوموں کے درمیان مناقشت اور تصادم کا باعث بنتا ہے۔
نسلی و لسانی برتری کے تصورات کی جڑیں اسی احساس کمتری اور خوف کے پانی سے پروان چڑھتی ہیں ۔ ان ہی جذبات و افکار سے مغلوب ہوکر نسلوں اور قوموں پر تسلط کے خواب دیکھے جاتے ہیں اور مظلوموں کی تباہی کے سامان کیے جاتے ہیں۔
خود پسندی اور خبط عظمت کے ان رویوں کو پروان چڑھانے کا ایک بڑا ذریعہ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہے جو نہ صرف یہ کہ انسان کو باشعور اور عالی ظرف بنانے سے قاصر ہے بلکہ وہ خود غرضی ، خود نمائی جیسے امراض میں مبتلا کرتا ہے ، جس کی وَجہ سے اس نظام کے بہت سے فاضلین ذہنی انتشار اور نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ خود کو
ہم چو ما دیگرے نیست
کے مرتبے پر فائز سمجھتے ۔ یہ افراد باطنی طور پر انتہائی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان ہی کیفیات کے شدت پکڑنے کو نفسیاتی طب کی اصطلاح میں میگالو مینیا کہا جاتا ہے۔
غرض یہ کہ سرمایہ پرستانہ فکر کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے انفرادیت ، خود پسندی اور خودغرضی پر مبنی رویے فرد کی سطح سے لے کر بین الاقوامی سماج کی سطح تک اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس ایک صالح فکر مادی کے ساتھ روحانی ضرویات کی تسکین کو بھی پیش نظر رکھتا ہے نیز ایک فرد اور اجتماع کو رد عمل اور غیر فطری احساس برتری کی غیر متوازن کیفیات سے محفوظ رکھتے ہوئے ایثار و محبت اور مساوات پر مبنی ایک متوازن طرز عمل کو جنم دیتا ہے جو سماجی ارتقا کے لیے بنیاد کا کردار ادا کرتا ہے۔
آج کے حالات میں صالح تعلیمی و تربیتی نظام جو فرد کی اخلاقی و پیشہ ورانہ ہر دو پہلؤوں سے ترقی کو یقینی بنائے اور مذکورہ بالا منفی رویوں کا تدارک کرے وقت کا اہم تقاضا ہے ۔
سیرو سیاحت، غورو فکر اور عملی تجربات ایسے کسی بھی تربیتی نظام کے لیے لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں، جس سے قوموں کے حالات و واقعات اور تجربات سے استفادہ ممکن ہوسکتا ہے اور مثبت و منفی رویوں کی پہچان پیدا کرکے صالح سماج کی تشکیل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔