پیغامِ آزادی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پیغامِ آزادی

    14 اگست پر ہمیں کیا کرنا چاہیے

    By سید عالمگیر Published on Sep 01, 2020 Views 1814
    پیغامِ آزادی
    تحریر: سید عالمگیر٫سوات

    جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  پر کفار مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قتل کرنے پر اتر آئے (نعوذ بااللہ) تو اللہ تعالٰی نے اس وقت ہجرت کرنے کا حکم فرمایا. جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا آبائی وطن مکہ چھوڑ کر مدینہ جا رہے تھے تو پیچھے مڑ کر مکہ کے شہر کو دیکھتے رہے اور روتے رہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا بچپن اور جوانی یہاں گزاری تھی۔ اپنے وطن سے محبت فطری چیز ہے. اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نفرت تھی تو وہ ابوجہل کے نظام سے تھی جس نے  لوگوں کو غلام بنایا تھا۔ اور مزدوروں اور لاچاروں پر ظلم کرتا تھا۔ اسی نظام کے تحت ظالمانہ سیاسی نظام تھا جس نے سرداروں کو مطلق العنان حیثیت دی تھی اور اس سوسائٹی کا قبائلی قانون صرف ان کے مفادات کا محافظ تھا۔ اور دوسری طرف سود پر مبنی معاشی نظام تھا جو کہ مسلسل  غربت، غلامی اور طبقات کو جنم دے رہا تھا۔ 
    آج 14 سو سال بعد اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ اس وقت کے عرب معاشرے سے کوئی مختلف تصویر پیش نہیں کر رہا۔ ہمارا قانون ملک پر قابض اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے۔ ہماری عدالتیں بروقت انصاف دینے سے قاصر ہیں ملک کا سیاسی نظام امن کی جگہ خوف بانٹ رہا ہے۔ معاشی نظام سود پر مبنی ہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ جب کہ  معاشرے پر بھوک و افلاس کی چادر عمومی طور پر تنی ہوئی ہے۔ مکہ کی سوسائٹی میں اگر چند سرداروں کی اجارہ داری قائم تھی تو ہمارے ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی اور مارکیٹ پر چند ملٹی نیشنل کمپنیاں قابض ہیں۔ اور ہم انفرادی و اجتماعی غلامی کا شکار ہیں. ایسے حالات میں 14 اگست کو جشن آزادی منانا بظاہر ایک رسم معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس دن کو ہمیں انگریزوں سے آزادی تو مل گئی لیکن ان کا غلامانہ نظام آج تک موجود ہے. آج اگر ہمیں بھی نفرت ہے تو اس ملک کی زمیں سے نہیں بلکہ ان تمام برائیوں سے جو ہمارے ملک میں موجود ہیں. مختصراً ہمیں اس نظام سے نفرت ہے. کیونکہ ہم آج تک آزاد نہیں بلکہ بد ترین غلام ہیں

    آزاد قومیں اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی خود بناتی ہیں وہ اپنے فیصلوں میں آزاد اور خود مختار ہوتی ہیں. وہ اپنے ملک و قوم کو چند پیسوں کی خاطر سامراج کے ہاتھوں گروی نہیں رکھتیں ان کے سامنے اپنا قومی مفاد سب سے پہلے ہوتا ہے۔ اور تمام فیصلے اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کرتی ہیں۔ کسی کے لیے استعمال نہیں ہوتیں۔ 
    آج ہمارا ملک, ہمارا ایمان, ہمارا مذہب اور سب سے بڑھ کر انسانیت ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے. کہ بجائے رسمی آزادی کے ہم حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد کریں اس ملک کوجاگیرداری اور سرمایہ داری نظام سے نجات دلائیں۔ اور ایسے نظام کی کوشش کریں کہ جس کی وجہ سے معاشرے میں موجود فکری انتشار کا خاتمہ ہو۔ سیاسی امن قائم ہو، معاشی مساوات کا بول بالا ہو اور سماجی انصاف کا قیام ممکن ہوسکے۔ تاکہ تمام لوگوں کو بغیر رنگ، نسل اور مذہب پھلنے پھولنے کے مواقع میسر ہوں اور معاشرہ بحیثیتِ مجموعی ترقی کرے۔
     تب ہم حقیقی آزادی منائیں گے۔جس طرح فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آزادی اور خوشی کا دن منایا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ملک و قوم کوغلامی سے نکالنے اور حقیقی آزادی اور خوشحالی کی طرف لےجانے کی توفیق عطا فرمائے.  آمین...
    Share via Whatsapp