"وہ" جو ایک شہر تھا عالم میں بے مثال ( اگھم کوٹ، سندھ)
قدیم زمانے میں یہ خطہ صوبہ لوہانہ میں شامل تھا جس کا دارالحکومت برہمن آباد تھا۔ اگھم، رائے خاندان کے دور میں لوہانہ کا حاکم تھا.
"وہ" جو ایک شہر تھا عالم میں بے مثال
( اگھم کوٹ، سندھ)
تحریر وسیم اعجاز ۔ کراچی
13 اکتوبر2018 بروز ہفتہ میرے ایک زمیل (Colleague) محمد اکمل سرہندی صاحب کی دعوت پر سندھ کے تاریخ مقامات مکلی، جھوک شریف، بلڑی اور اگھم کوٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم سفر احباب میں حافظ اظہر مسعود اور اصلاح الدین صاحبان بھی شامل تھے۔ صبح نماز فجر کے بعد کراچی سے روانگی ہوئی۔ مکلی،جھوک اور بلڑی سے ہوتے ہوئے ہم ٹنڈو محمد خان پہنچے ۔ اکمل سرہندی صاحب کی جانب سے ٹنڈو محمد خان کے قریب ٹنڈو سائیں داد میں ریفریشمنٹ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نماز ظہر کی ادائیگی جامع مسجد خانقاہ مجددیہ میں ادا کرنے کے بعد ہم اگھم کوٹ کی جانب روانہ ہوئے۔جو کہ ٹنڈو محمد خان سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ شیخ بھرکیو اور گلاب لغاری سے ہوتے ہوئے سندھ کے تاریخی مقام اگھم کوٹ پہنچے۔
اگھم کوٹ سندھ کا ایک تاریخی مقام ہے جو کبھی ہنستا بستا شہر ہوا کرتا تھا۔ اکمل سرہندی کے ایک عزیز فہد اللہ بھی گلاب لغاری سے ہمارے ساتھ سفر میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے اگلی منزل کی جانب ہماری راہنمائی کی۔ گلاب لغاری سے باہر نکلتے ہی دور سے کھنڈرات کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہماری سب سے پہلی نظر ایک مسجد کے کھنڈرات پر پڑی جو کبھی اس شہر کی رونق ہوا کرتی تھی۔ سفر میں تمام راستے میں اپنے ہم سفروں کو سندھ کی تاریخ کے بارے میں جو تھوڑا بہت پڑھا تھا وہ بتا چکا تھا۔ اس لئے ہم سب کو بہت اشتیاق تھا کہ اس تاریخی شہر کو دیکھیں جو کبھی سندھ میں علم و عرفان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جس شہر کو ہم لوگ اپنے تخیلات میں دیکھ چکے تھے اس کی عمارتیں زمیں بوس ہوکر خاک میں ملتی جارہی تھیں۔ یہ جان کرافسوس بھی ہوا کہ ایسا شہر جو کبھی علم و عرفان کا مرکز تھا، جسے مساجد اور مدارس کا شہر کہا جاتا تھا اب اس کے صرف کھنڈرات اور قبرستان ہی رہ گئے تھے۔
سندھ کی تاریخ کی بنیادی ماخذ کتاب چچ نامہ ہے جس کا 613ھ میں فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔اس کتاب میں اگھم نام کے ایک راجہ کا تذکرہ بار بار ملتا ہے جو چچ (راجہ داہر کا باپ) کے وقت برہمن آباد کا گورنر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر اسی نے آباد کیا۔ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے بقول،''قدیم زمانے میں یہ خطہ صوبہ لوہانہ میں شامل تھا جس کا دارالحکومت برہمن آباد تھا۔ اگھم، رائے خاندان کے دور میں لوہانہ کا حاکم تھا جس نے راجہ چچ کی مخالفت کی تھی۔'' (دیکھئے ترجمہ فتح نامہ سندھ 132-135) ۔
تاریخ سندھ پر دوسری مستند کتاب میر علی شیر قانع کی تحفتہ الکرام ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ '' اگھم کوٹ سے مراد وہ قدیم بستی ہے جسے مقامی لوگ اگھامانو کہتے ہیں۔ یہ قدیم ندی پر واقعہ ہے جو دریائے سندھ کی ایک شاخ تھی۔'' اب یہ شاخ سوکھ چکی ہے لیکن اس کے آثار دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اگھم کوٹ کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محمد بن قاسم کے سندھ پرحملے کے وقت یعنی آٹھویں صدی کی ابتدا میں اس شہر کے قلعے کی فوجی اہمیت کے متعلق چچ نامے میں تحریر ہے کہ ’’محمد بن قاسم نے سلیمان بن نبھان قریشی کو حکم دیا تھا کہ تمہیں راوڑ کے قلعے کی طرف جانا چاہیے۔ اس پر سلیمان نے عطیہ تغلبی کی کمان میں 500 سپاہیوں کو اگھم کوٹ قلعے میں مقرر کیا کہ راجا داہر کے بیٹے گوپی کا راستہ روکے جو راوڑ میں تھا۔‘‘
اس وقت اگھم کوٹ ٹھٹھہ کے بعد مدرسے اور تعلیمی اداروں کا دوسرا سب سے بڑا مرکز تصور کیاجاتا تھا. یہی وجہ تھی کہ ملک کے دور دور علاقوں سے لوگ تحصیل علم کے لئے یہاں آتے تھے۔ اولیا اللہ کے بے شمار مزارات، مسجدوں کے کھنڈرات، مدارس کی خستہ حال دیواریں اس بات کا ثبوت تھیں کہ ایک دور میں یہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اگھم کوٹ کے مدارس اپنی تعلیم کی وجہ سے گرد و پیش میں بہت شہرت رکھتے تھے۔ ان مشہور درسگاہوں میں سے ایک کے مہتمم مخدوم اسماعیل سومرو(م998ھ) تھے جو بنیادی طور پر ’کاٹھیاواڑ گجرات‘ کے رہنے والے تھے مگر یہاں کا علمی ماحول دیکھا تو یہیں کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ان کی شبانہ روز محنتوں سے اگھم کوٹ کے پہلے سے موجود علمی و ادبی ماحول کو چار چاند لگ گئے۔ آپؒ کے ہاتھ پر بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ تاریخی شواہد کے مطابق سندھ کے مشہور لوک کردار، وتایو فقیر کا بچپن بھی اگھم کوٹ کی گلیوں میں گزرا تھا اور اس کے خاندان نے بھی مولانا موصوف کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا تھا. ہمیں مولانا موصوف کے مزار پر بھی جانا ہواجو کہ دور سے ہی نظر آتا ہے جس کی دیواروں پر کاشی کاری کا عمدہ کام اس دور کے کاری گروں کی مہارت کا مظہر ہے۔
تحفۃ الکرام کے مصنف میر علی شیر قانع کے مطابق اگھم کوٹ کے ان مدارس کی بنیاد سمہ دورِ حکومت (1335ء سے 1520ء) میں پڑی اور یہاں کے مدارس کی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں دور دور سے طالب علم اور علم کے پیاسے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ان طالب علموں کے کھانے کے لیے زمینوں پر اناج اُگایا جاتا تھا۔ مرزا باقی بیگ (993ھ) کے متعلق مشہور ہے کہ وہ انتہائی کنجوس تھا؛ دو ٹکوں کے لیے لوگوں کی چمڑی اُتروا لیا کرتا تھا مگر اس نے اگھم کوٹ میں مدارس کے لیے اگائی جانے والی فصل پر لگان معاف کر دیا تھا۔ شاہ لُطف اللہ قادری ؒ (م 1090ھ)جو سندھی زبان کے بڑے شاعر تھے،ان کا کلام ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مرتب کر کے شایع بھی کروایا ہے انہوں نے بھی ان مدرسوں سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔
اگھم کوٹ بندرگاہ ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں کا ایک مرکز بھی تھا جہاں کے بازار کبھی آباد ہوا کرتے تھے۔ جس مسجد کا پہلے ذکر کیا گیا ہے اسے "پتن والی مسجد" یعنی بندرگاہ والی مسجد اسی لئے کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں دریائے سندھ کی ایک شاخ بہتی تھی اور لوگ کشتیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے سفر اور تجارت کیا کرتے تھے۔
دیگر عمارتوں کے ساتھ ساتھ ایک اور خستہ حال عمارت ہماری نظر سے گزری جو اس شہر کی جامعہ مسجد کے کھنڈرات تھے۔ اس کی حالت بھی بہت خستہ ہو چکی ہے بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ زمین بوس ہوچکی تھی۔ سندھ کے آثار قدیمہ کے ایک ماہر نے ابوبکر شیخ نے اس مسجد کے بارے میں لکھا ہے کہ " محراب کے اوپر قرآنی آیتوں کو تراشا گیا تھا ساتھ ہی کاریگروں کے نام بھی کنندہ تھے۔ ساری عبارت عربی اور فارسی میں ہے اور مسجد کی تعمیر کی تاریخ بھی تحریر ہے جو اس طرح درج ہے۔ ’’خرد گفت تاریخ بی وقتی۔ کہ جامع جہایاں جنتی۔’’قطعہ تاریخ ’’جامع جہایاں جنتی‘‘ سے مسجد کی تعمیر کا برس 797 ہجری نکلتا ہے۔ اس مسجد کے جنوب اور شمال میں درویش داؤد اور میاں ھموں کے مشہور مدارس تھے جن میں پانچ پانچ سو لوگ علم حاصل کرنے میں مشغول رہتے تھے۔ ‘‘ افسوس کہ اب یہاں ہمیں کوئی محراب نظر نہیں آئی۔
ایک مقامی باشندےغلام رسول قریشی صاحب نے ہمیں بتایا کہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حکومت وقت کی جانب سے ایک قدیم ورثے کو محفوظ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ یہاں کی اینٹیں تک چوری کرلی گئی ہیں۔سندھ کی روایات کے مطابق وہ ہمیں قریب ہی واقع اپنی اوطاق میں لے گئے جہاں ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ انہین نے مزید بتایا کہ جہاں قدیم حکمرانوں کی باہمی جنگ و جدل نے اس شہر کو برباد کیا ہے وہیں یہاں آنے والے لوگوں اور موجودہ حکومت کے عدم توجہ کی وجہ سے بھی اس قدیم شہر کو کافی نقصان ہوا ہے۔ 2010 اور 2011 کے سیلاب کی وجہ سے قبرستان میں مردوں کی ہڈیاں تک باہر آگئی ہیں۔ جن کا آج تک کوئی پرسان حال نہیں۔
ہمارا اگھم کوٹ جانے کا محرک دراصل مخدوم محمد شریف ؒ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔ لیکن افسوس کہ تقریباً300 سال قبل کی ان شخصیت کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات تو نہ مل سکیں لیکن اگھم کوٹ کےبارے میں جو سنا اور پڑھا تھا کہ یہ ٹھٹھہ کے بعد دوسرا بڑا تعلیمی و تجارتی مرکز تھا اس کی زبوں حالی کو دیکھ لیا۔
مختصر ذکر مخدوم محمد شریف ؒ کا کرنا ضروری ہے ۔ آپؒ کی پیدائش اور تعلیم کے بارے میں تو کوئی خاطر خواہ معلومات نہیں مل سکیں۔ لیکن آپؒ کا ایک حوالہ ہی کافی ہے کہ آپؒ مولانا محمد فاضل سندھیؒ اور مخدوم محمد معین ٹھٹھوی ؒ کے بعد تیسری شخصیت ہیں جن کا تعلق حضرت الامام شاہ ولی اللہ ؒ سے ثابت ہوتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ ؒ نے اس وقت آپؒ کو خلافت سے سرفراز فرمایا جب آپؒ سفر حج کے سلسلے میں ٹھٹھہ میں مقیم تھے۔ امام شاہ ولی اللہ ؒ سے آپؒ کو حد درجہ محبت اور عقیدت تھی۔ ہر سال شاہ صاحب کی زیارت اور فیوضات کے حصول کے لئے دہلی کا سفر فرماتے تھے۔
پورا دن اگھم کوٹ میں گزارنے کے بعد ہم نے غلام رسول قریشی صاحب اور فہد اللہ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ٹنڈو الہ یار اور حیدرآباد سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے۔ تمام راستے اسی بات پر ہمسفروں سے تبادلہ خیال ہوتا رہا کہ ہم کس مقام پر تھے اور آج کس مقام پر کھڑے ہیں اور کس بے دردی سے ہم اپنے ثقافتی ورثے اور آثار قدیمہ کو برباد کرتے جارہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگھم کوٹ جیسے آثار سے سبق حاصل کرکے ان نظریات اور رویوں کو ترک کیا جائے جو معاشرتی زوال کی وجہ بنتے ہیں ۔ اور ایسے سماجی ڈھانچے کی تعمیر و تشکیل کے لئے اپنا کردار ادا کیا جائے جہاں انسانی اقدار کو فروغ حاصل ہو۔
(اس مضمون کو مرتب کرنے میں مطالعاتی سفر کے مشاہدات کے علاوہ تحفتہ الکرام، چچ نامہ، تاریخ سندھ، الرحیم مجلہ، اور تذکرہ مشاہیر سندھ سے بھی مدد لی گئی ہے۔ )