سات دہائیوں پر مشتمل آزادی یا غلامی
تحریر: عمران علی اوگی( عمان)
ہر قوم کی آزادی کا ایک دن ہوتا ہے اور دنیا کی ہر قوم اپنے اس دن کا جشن مناتی ہے ۔ہمارے پڑوس میں چین ہے اس کی آزادی کا دن ہے ماؤ اور اس کی جماعت کی جانب سےکی جانے والی جدوجہد کو یاد کیا جاتا ہے۔ ایرانی امام خمینی کی اجتماعی جدوجہد کے دن کا جشن مناتے ہیں۔ افغانستان میں امیر حبیب اللہ خان کی سربراہی میں کی جانے والی جدوجہد کو آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی طر ح پاکستان میں بھی ہر سال 14 اگست کو آزادی کا جشن منایا جاتا ہے۔ سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے ریلیاں نکالی جاتی ہیں- لیکن کچھ سوالات جو ہر باشعور انسان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کہ آزادی کا مفہوم کیا ہے؟ آزادی کس سے حاصل کی گئی؟ آزادی کے نتیجے میں ہم نے گزشتہ 7 دہائیوں میں کیا حاصل کیا ہے؟ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاید ہمیں آزادی کے نام پر دھوکہ دیا گیا ہے۔اور ہم آزادی کے مفہوم سے ناآشنا ہیں۔جن اقوام نے آزادی حاصل کی ہے انہوں نے نئے افکار پر اپنے معاشرے کی تشکیل نو کی ہے لیکن ہماری صورت حال ان سے محتلف ہے۔برطا نیہ کے نوآبادیاتی دور کی باقیات کا مجموعہ آج بھی ہمارا قانون اور آئین ہے۔اور اس کے تحت ادارہ جاتی نظام پروان چڑھایا گیا ہے۔ نعرہ لگایا گیاتھا کہ" پاکستان کا مطلب۔کیا لا الہ الااللہ" بظاہر یہ ایک خوشنما نعرہ تھا۔لیکن حقیقت میں یہ صرف عوامی جذبات کو اپنے حق میں کرنے اور اس کے نتیجے میں بننے والی ریاست کو نئے ابھرتے سامراج کے مفادات کے لیے بطور آلۂ کار کے طور پر پروان چڑھانا تھااب اگر دیکھیں تو گزشتہ 73 سال میں وہی کام ہوتا آ رہاہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس اپنے نعرےکو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں تھا۔ کچھ مسلم لیگی رہنماؤں کی آپ بیتیاں اور بیانات اس بات کی شاہد ہیں۔
مسلم لیگ کے ایک بڑے رہنما جناح صاحب کے دست راست جی علی الانہ کی سوانح عمری جنگ پبلشر نے شائع کی ہے جس میں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے پاکستان کی حمایت کیوں کی تھی تو فرماتے ہیں ہمیں ہندوستان میں چائے پتی کے کاروبار میں ہندو بنیے سے مسابقت کرنی پڑتی تھی اور یہ خطرہ بھی تھا کہ 1937 کے الیکشن کے نتیجے میں کانگریس نے سات ریاستوں میں حکومت قائم کرتے ہی جاگیرداری کو کالعدم کر دیا تھا۔تو اگر پورے ھندوستان میں کانگریس کی حکومت قائم ہوتی ہے تو یہاں جاگیریں بحق سرکار ضبط ہو جاتیں۔تو ہم نے تو اپنی جاگیروں اور اپنے چائے پتی کے کاروبار پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے جناح صاحب کا ساتھ دیا۔پھر اسی طرح ایک اور کیس جو مولوی تمیز الدین کیس کے نام سے مشہور ہے جب گورنر جنرل غلام محمد نے ملک میں پہلی ایمرجنسی لگائی اور اسمبلیاں تحلیل کیں توآئین کے ماہر نیک نام جسٹس(ر) فضل کریم نے اپنی معروف اور مستند کتاب "Judicial Review of Public Actions" میں نظریہ ضرورت کی تفصیل بیان کی ہے۔ پاکستان انڈین انڈی پینڈینس ایکٹ 1947ء کے تحت وجود میں آیا اس ایکٹ کی روشنی میں ہندوستان اور پاکستان کی ریاستوں کو چلانے کےلیے عبوری دور میں چند ترامیم کے ساتھ انڈیا ایکٹ 1935ء نافذ کیا گیا جس کےمطابق گورنر جنرل برطانوی ملکہ کا نمائندہ تھا جبکہ نئی ڈومین (ریاست) کو چلانے کےلیے دستور ساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیا جسے دستور سازی اور قانون سازی دونوں اختیارات حاصل تھے۔ ابھی اسمبلی نے آئین تشکیل نہیں دیا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی کو 24اکتوبر 1954ء کو توڑ دیا اور اپنے حکم میں یہ جواز پیش کیا کہ اسمبلی عوام کا اعتماد کھو چکی تھی۔
دستور ساز اسمبلی کے صدر (سپیکر) مولوی تمیز الدین نے 7نومبر 1954ء کو گورنر جنرل کے حکم کو چیف کورٹ سندھ میں چیلنج کردیا اور اس حکم کو غیر آئینی غیر قانونی قراردینے کےلیے رٹ جاری کرنے کی استدعا کی۔ دستور ساز اسمبلی نے 1935ء کے ایکٹ میں سیکشن233/Aشامل کرکے ہائی کورٹس کو ’’رٹ کی سماعت‘‘ کا اختیار دیا تھا۔ البتہ گورنر جنرل نے اس ترمیم کی توثیق نہیں کی تھی۔
وفاقی حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ چیف کورٹ سندھ کو اختیار سماعت نہیں ہے کیونکہ گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی کے منظور کردہ سیکشن 233/Aکی توثیق نہیں کی تھی لہذا آئین کی رو سے یہ شق قانون ہی نہیں ہے جس کی روشنی میں چیف کورٹ سندھ کو رِٹ (Write) جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ چیف کورٹ سندھ نے فیصلہ دیا کہ دستور ساز اسمبلی جب دستور میں ترمیم کررہی ہو تو اس کےلیے گورنر جنرل کی توثیق ضروری نہیں ہوتی لہذا دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کا حکم غیر قانونی ہے چناں چہ دستور ساز اسمبلی کو بحال کیا جاتا ہے۔
وفاقی حکومت نے چیف کورٹ سندھ کے فیصلے کےخلاف فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کردی اور وہی مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ گورنر جنرل نے سیکشن 233/Aکی توثیق نہیں کی تھی لہذا چیف کورٹ سندھ کو رِٹ (Writ) جاری کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ جسٹس منیر کی سربراہی میں فیڈرل کورٹ کے ججوں نے تکنیکی بنیادوں پر سیکشن 233/A کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں شامل کرنے کےلیے گورنر جنرل کی توثیق لازمی تھی لہذا سیکشن 233/Aچونکہ آئین کی رو سے قانون ہی نہیں ہے اس لیے چیف کورٹ سندھ کو رِٹ (Writ) جاری کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
اس کیس میں جسٹس اے آر کارنیلس نے اختلافی نوٹ لکھا کہ دستور ساز اسمبلی کو آئین سازی کرنے یا آئین میں ترمیم کےلیے گورنر جنرل کی توثیق لازمی نہیں۔
مولوی تمیز الدین کیس میں فیڈرل کورٹ کے فیصلے کے بعد دستورساز اسمبلی کے منظور کردہ 35ایکٹ غیر مؤثر ہوگئے جن کی توثیق گورنر جنرل نے نہیں کی تھی اس طرح ریاست میں آئینی بحران پیدا ہوگیا جس پر قابو پانے کے لیےگورنر جنرل غلام محمد نے ایمرجنسی اختیارات کا آرڈی نینس جاری کیا جس کےمطابق دستور ساز اسمبلی کے منظور کردہ 35قوانین اور ترامیم کو مؤثر قراردے دیے اور آئین میں ترمیم کے خصوصی اختیارات بھی حاصل کرلیے۔
مختصر یہ کہ اس وقت کے اٹارنی جنرل کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ" پاکستان ایک آزاد ریاست نہیں ہے اور گورنر جنرل ملکہ برطانیہ کا تنحواہ دار ملازم ہے لہذا اس نے ملکہ کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں درست طور پر تحلیل کی ہیں۔ اب یہ بات 1954 میں کی جا رہی ہے کہ پاکستان آزاد ریاست نہیں ہے۔ اور ہم ہر 14 اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں۔۔سوال یہ ہے کہ آزادی کیا ہے؟ اب اگر بحیثیت مسلمان دین اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو سورت قصص کی آیت ہے:
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
ترجمہ: "پھر ہم نے ارادہ کیا کہ احسان کریں ان لوگوں پر جن کو کمزور بنا دیا گیا ہے اور پھر ان کو دنیا کا وارث اور امام بنا دیں"۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانیت پر اللّٰہ کا سب سے بڑا احسان آزادی ہے آزادی کی تاریخ 3 ہزار سال پرانی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں فرعون نے لوگوں کو غلام بنا کر رکھا تو موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون کے نظام سے آزادی دلائی ۔اگر ماضی میں اپنے ہی خطے کے پڑوسی ممالک کا جائزہ لیا جائے جنہوں نے آزادی حاصل کی۔اس کی آزادی کےبعد کون سے بنیادی اقدامات تھے جو عمل میں اب جو پارٹی آزادی کی دعویدار ہوتی ہے تو ان کا پہلا کام اپنے فکر و فلسفے کی اساس پر تعلیمی نظام مرتب کرکے اس کے بعد آزاد سیاسی نظام اور پھر آزاد معاشی نظام اپنے فکر کی اساس پر مرتب کرے۔ لیکن اگر دیکھا جاے تو آج ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا سیاسی نظام میکاولی کا اور معاشی نظام ایڈم اسمتھ کی فلاسفی پر مشتمل ہے۔تو کون سی اور کیسی آزادی۔؟ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں تاریخ پاکستان پڑھنا اور اس پر بات کرنا جرم ہے مطالعہ پاکستان کے نام سے تاریخی مغالطہ ہم گزشتہ سات دہائیوں سے پڑھتے آ رہے جس کا نقصان یہ ہے جو انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے اور " سر" کے خطابات لینے والے ہمارے ہیرو ہیں جنہوں نے 1940 میں قراداد پیش کی اور 1947 میں آزادی ملی اور دنیا کی تاریخ میں شاید ہی ایسی کوئی مثال ہو۔ پھر کہا یہ جاتا ہے10 لاکھ لوگوں نے قربانیاں دیں۔ کہاں ہیں ان لوگوں کے نام وہ تو دو طرفہ فسادات کے نتیجے میں مرنے والے بے گناہ انسان تھے جو اس نام نہاد آزادی کی نظر ہوئے۔۔کہاں 1857 کی جنگ آزادی کے شھداء کے نام کہاں شاملی کے شھداء کی تاریخ کہاں معرکہ بالاکوٹ کے عظیم وطن پرست کی جدوجہد پھر کہاں ہیں تحریک ریشمی رومال اور خدائی خدمت گار تحریک کی قربانیاں؟ کہاں شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ، امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک ہمارے گمنام ہیرو ہیں جن کو شاید ہی پاکستانی قوم جانتی ہو۔ لیکن سر سید کو ضرور جانتی ہے جس نے کتاب "اسباب بغاوت ہند" لکھ کر برعظیم پاک وہند کی آزادی کی جنگ کو غدر قرار دےکر انگریز سرکار سے سر کا خطاب حاصل کیا۔قوم ان تمام نوابوں اور جاگیرداروں کو جانتی ہے جنہوں نے انگریزوں کی دلالی کر کے وطن کا سودا کیا اور پاکستان میں جاگیریں حاصل کی۔ لیکن جب تک ہم اپنی تاریخ کا درست مطالعہ اور اپنے سچے اور وطن پرست اکابرین کو جاننے کی سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے ہم لفظ آزادی کے مفہوم سے ناآشنا ہی رہیں گے اور مزید کتنی ہی دہائیاں بیت جائیں گی لیکن آزادی کا حقیقی خواب جو ایک کسان ایک مزدور ایک طالب علم کے ذہن میں ہے شاید ہی شرمندہ تعبیر ہو سکے۔