1857ء کی جنگِ آزادی کے ایک گمنام ہیرو: مولانا عبد الجلیل شہیدؒ
برصغیر کی آزادی کے لیے سرگرمی سے حصہ لینے اور جاں نثار کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں.....

1857ء کی جنگِ آزادی کے ایک گمنام ہیرو: مولانا عبد الجلیل شہیدؒ
تحریر: محمد رضوان غنی۔ میرپور (آزاد کشمیر)
برصغیر کی آزادی کے لیے سرگرمی سے حصہ لینے اور جاں نثار کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں بہت سے میدانِ جنگ میں شہید ہوئے اور بہتوں نے پھانسی کے پھندے چومے،مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ تاریخ نے ان گمنام ہیروز کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ چناں چہ ان کے کارنامے تو کجا لوگ نام تک سے واقف نہیں ہیں، ایسے ہی ایک غیرمعروف عظیم مردِ مجاہد مولانا عبدالجلیلؒ بھی ہیں جو ایک جرأت مند، دلیر، متقی اور فرشتہ صفت ولی تھے۔ انھوں نے 24 اگست 1857ء کو چاہ حجام، مان سنگھ باغ موضع مڈراک کی انگریزوں کے ساتھ دوبدو لڑائی میں حصہ لے کر شہادت پائی تھی۔
سن1857ء کی جنگِ آزادی برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسا اہم موڑ ہے، جس نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور انگریز کے پنجہ استبداد سے اس خطے کو آزاد کرنے کے لیے بڑی کوشش کی۔ یہ جنگ ایک سال پانچ ماہ تک جاری رہی جو درحقیقت مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کا اپنے حقوق اور عزت کی بحالی کے لیے ایک مشترکہ جہاد تھا۔ لیکن انگریز مؤرخین نے اس عظیم جدوجہد کو "غدر" یعنی بغاوت کا نام دے کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک ایسی کم عقلی اور تعصب پر مبنی سوچ تھی جو ایک قوم کی آزادی کی خواہش کو محض فساد قرار دیتی ہے۔
1857ء کا یہ معرکہ ہندوستان کی تاریخ میں انگریزوں کی وحشیانہ بربریت کی ایک شرمناک مثال ہے۔168 سال گزرنے کے بعد بھی وہ زخم تازہ ہیں۔ اس جنگ میں آزادی کے متوالوں کو بے دردی سے کچلا گیا، گاؤں کے گاؤں جلائے گئےاور بے گناہ عوام کو عبرت کا نشان بنایا گیا۔ علمائے کرام کو سولی پر چڑھایا گیا۔ انھیں توپ کے آگے باندھ کر اُڑایا گیا۔ اس ظلم کا مقصد صرف حکومت قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ ہندوستان کو تقسیم کرنا تھا۔ فرقہ واریت کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی گئی اور یہاں کی تہذیب، ثقافت اور سب سے بڑھ کر مذہبی شناخت کو تار تار کیا گیا۔ اس لیے یہ جنگ ایک قومی اور مذہبی فرض بن کر سامنے آئی۔
اس عظیم تحریک میں علی گڑھ کی جامع مسجد نے ایک کلیدی اور تاریخی کردار ادا کیا۔ یہ مسجد محض ایک عبادت گاہ نہیں تھی، بلکہ یہ جذبہ حریت اور آزادی کا مرکز بن گئی۔ اسی مسجد کے منبر سے امام مسجد مولانا عبد الجلیل شہیدؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ یہ فتویٰ محض ایک رسمی اعلان نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مردِ مجاہد کی غیرت اور قوم کے درد کا اِظہار تھا۔ ان کا یہ فتویٰ علی گڑھ اور اس کے اطراف میں آزادی کی شمع روشن کرنے کا باعث بنا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولانا عبد الجلیل شہیدؒ کا تعلق روحانی اور فکری تحریک سے تھا۔ ان کے ہم عصروں میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ جیسی عظیم شخصیات شامل تھیں۔ یہ وہ شخصیات تھیں، جنھوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر مسلمانانِ ہند اپنی مذہبی اور علمی میراث کو بچانا چاہتے ہیں تو انھیں ایک مضبوط اور منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے1857ء کی ناکامی کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا مجمع جمع ہے اور وہ قرآن کا درس دے رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر بعد میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کی شکل میں سامنے آئی، جس نے نہ صرف مذہبی تعلیم کو زندہ کیا، بلکہ آزادی کی فکری بنیادیں بھی فراہم کیں۔
مولانا عبد الجلیلؒ کی زندگی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک روشن مثال ہے۔ 24 اگست 1857ء کو علی گڑھ کے قریب موضع مڈراک میں وہ اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ ان کی میتیں جامع مسجد علی گڑھ لائی گئیں اور وہیں دفن کی گئیں۔ اس مسجد میں ان شہدا کی 73 قبریں آج بھی موجود ہیں جو ہمیں یاد دِلاتی ہیں کہ آزادی کسی قیمت کے بغیر نہیں ملتی۔ یہ مزارات گواہ ہیں کہ کس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے خون سے آزادی کی بنیاد رکھی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو صحیح تناظر میں دیکھیں۔ تاریخ کو پڑھتے وقت ہمیں انگریزوں کے جھوٹے پروپیگنڈے اور نام نہاد "غدر" کے تصور کو رَد کرنا چاہیے۔ ہمیں ان گم نام ہیروز کو پہچاننا چاہیے، جنھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جیسے کہ مولانا عبد الجلیل شہیدؒ اور ان کے ساتھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی مشعل کو جلائے رکھا اور اگلی نسلوں کے لیے ایک روشن راستہ چھوڑا۔ ان کی قربانیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ آزادی ایک نعمت ہے، جس کی حفاظت ہر فرد کا فریضہ ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک آزاد اور خوش حال قوم کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔