تحریکوں کے زندہ رہنے کا راز (برصغیر کی تحریک آزادی کےتناظر میں)
تحریکوں کے زندہ رہنے کا راز (برصغیر کی تحریک آزادی کےتناظر میں)
 
                                        
تحریکوں کے زندہ رہنے کا راز (برصغیر کی تحریک آزادی کےتناظر میں)
تحریر: انجینئر رابیل احمد میمن۔ کراچی
اٹھارویں صدی کے آغاز میں حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ کی وفات 1707ء کے بعد ہندستان کا سیاسی زوال شروع ہوا۔ہندستان کے نظام میں عدمِ استحکام و انارکی کو ختم کرنے کے لیےامام شاہ ولی اللہؒ نے کوشش کی اور جماعت کی بنیاد رکھی، جس کا دائرہ کار کل ہندستان تھا۔ اس جماعت نے وقت کے صالح امرا کی طاقت کے ذریعے نظام کے زوال و انتشار کو روکنے کی کوشش کی، اور آپ نےاس حوالے سے اپنے تحریری کام میں اعلیٰ طبقہ کو مخاطب کیا،لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ زوال کی سرعت بڑھی اور انتشاری اور بدیسی قوتیں مضبوط ہوتی گئیں اور حکمران طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔ امام شاہ ولی اللہؒ کی وفات کے بعد ان کی مرکزی جماعت کے لوگوں نے ان کے فرزند امام شاہ عبدالعزیزدہلویؒ کو اپنا سربراہ چنا۔ امام شاہ عبدالعزیز ؒنے اس صورتِ حال میں عوام کو اپنا مخاطب بنایا۔ شاہ عبدالعزیزؒ کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں 1831ء میں اس جماعت نے سیداحمدشہیدؒ کی سربراہی میں بالاکوٹ کے علاقے میں عارضی حکومت کی بنیاد رکھی، کیوں کہ لشکر کی تعلیم و تربیت اور نظم وضبط پیدا کرنا بھی لازمی مقصد تھا۔
ولی اللہی تحریک کا پہلا معرکہ لاہور کے حکمران راجہ رنجیت سنگھ سے ہوا جو کہ کمپنی کا حلیف تھا۔ ولی اللہی جماعت کے پاس مادی وسائل کم تھے، لیکن اپنے موجود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نے مقابلہ کیا اور بالاکوٹ میں اس کی عسکری شاخ نے آزادی وطن کے لیے اپنی جانیں قربان کردیں۔اس عسکری شکست میں مقامی لوگوں کی بغاوت کا اہم کردار تھا۔ لیکن معرکہ بالاکوٹ کے نتیجے میں ہند میں اس احساس کو جنم دیا کہ ہندستان کمپنی کا غلام ہے، اور اس احساس کو مضبوط کیا۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو ولی اللہی جماعت نے اپنی جانی قربانی کے ذریعے ہندستان کو بیدار کر کے دنیا میں یہ انہونی مثال قائم کی کہ ایک تحریک نے وسائل کی کمی کے باوجودایسی قوت سے مقابلہ کیا، جس کے پیچھے یورپ کی ایک بڑی سلطنت کھڑی تھی اور اس سے مقابلہ کرکے اپنی جانوں کی قربانی کے ذریعے عوام و خواص میں آزادی وطن کا جذبہ بیدار کیا۔ اس دور میں یورپ کو پریس کی طاقت حاصل تھی، جس سے ادھر کی تحریکات کو پنپنے کا موقع ملا، جب کہ ہندستان میں پریس نہ ہونے کے باوجود بھی ولی اللہی تحریک کل ہندستان میں پھیلی۔
یہ اس تحریک کی نظریاتی فتح و کامرانی کا نتیجہ تھا کہ 26 سال بعد 1857ء میں ہند کی تمام ملت و اقوام و ریاست کے والیوں نے کم وسائل کے ہوتے ہوئے کمپنی کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ چوں کہ قیادت و حکومت مسلمانوں کی تھی، اس لیے اس کا خمیازہ بھی ان کو زیادہ بھگتنا پڑا۔ کمپنی نے بڑے پیمانے پر وحشا نہ قتل عام کیا۔ اس قتلِ عام کی وَجہ سے دنیا کے آگے ہند کا مقدمہ پیش ہوا، برطانیہ کی مقننہ و ملکہ کے آگے ہندستان کا معاملہ پیش ہوا۔ اور اس کے نتیجے میں ہند میں کمپنی کی حکومت ختم ہوئی اور برطانیہ نے ہند کا چارج لیا اور ہندستانیوں کے ساتھ بہت سارے وعدے کیے۔
اَب حالات وہ نہیں رہے۔ ولی اللہی تحریک کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں ہند میں عوامی بیداری آچکی تھی، وائسرائے سے مطالبوں کی وَجہ سے راہ کھلی اور اس کے نتیجے میں قومی جماعت کانگریس کا وجود ہوا۔ بنگال، بہار، پنجاب، سندھ ، یوپی، خیبر وغیرہ میں عوامی بیداری بڑھی۔ اَب ولی اللہی جماعت اکیلی نہیں، پوری قوم اس کے ساتھ ہے، لیکن اس تمام عرصہ میں ولی اللہی جماعت کا کردار ایک قائدانہ اور صف اول والا رہا۔ ہند کی تحریک آزادی میں باقی اقوام و ملتوں کا کردار صفِ دوم والا رہا۔ مجموعی طور پر ان کو ہوش 1857ء اور اس کے بعد آیا۔ جب کہ ولی اللہی جماعت کا کردار تو اس سے بہت پہلے کا ہے۔
یہ مرحلہ وار کامیابیوں کی ذمہ دار والی اللہی جماعت تھی اور اس کے ہتھیار: اللہ پر اعلیٰ درجہ کا بھروسہ، موجود وسائل کے اندر بھرپور تیاری، موت سے بے خوفی اور نظم و ضبط تھے۔ دنیا میں ایسی تحریکیں نایاب ہیں جو اپنا خون دے کر زندگی رکھتی ہیں اور اپنے مقصد کی تشہیر کرتی ہیں۔
1867ء میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کے نتائج
اسی جماعت کی جدوجہد 1915ء میں بدلتے ہوئے حالات میں تحریک ریشمی رومال کی صورتِ میں رونما ہوئی، اور اسی تحریک کے نتیجے میں افغانستان برطانوی تسلط سے آزاد ہوا۔ اور ہندستان کے اندر قومی بیداری نے جنم لیا۔ ولی اللہی تحریک کی 1731ء سے شروع کردہ تحریک اور پھر 1831ء کی جنگ، 1857ء کی تحریک، اسی طرح تحریک ریشمی رومال کے اَثرات 1947ء میں رونما ہوئے۔ برطانیہ کمزور ہوگیا اور ہندوستان کے ساتھ دنیا کے دیگرممالک کوبھی اس کو آزادی دینی پڑی۔ ہندستان کے ہاتھ سے نکلنے سے اس کے ہاتھ سے بڑی افرادی اور مالی قوت نکل گئی۔
دنیا میں جن قوموں نے استعماریت کو مزاحمت دی ان کا وجود باقی ہے، جیساکہ ہندستان، جنوبی افریقا وغیرہ اور جہاں مزاحمت پنپ نہ سکی، وہ فنا ہو گئے جیسا کہ آسٹریلیا ، امریکا جہاں اَب مقامی آبادیوں کی حیثیت ثانوی ہے۔ یہ فتح کا واضح نتیجہ ہے کہ ہمارا وجود ابھی ہے۔
جدوجہد آزادی اور استعماری قبضہ ؛مراحل، مقاصد
استعماری قوتیں اپنے قبضے کو طویل کرنے کے لیے ہر ممکنہ منفی حربے استعمال کرتے ہیں، جیساکہ انھوں نے ہندستان میں "تقسیم کرو اور لڑاؤ" کا حربہ اپنایا۔ یہ تو ہر غاصب قوت کی حکمت عملی اور اس کے اَثرات ہوتے ہیں، لیکن آزادی کے بعد یہ حکمران طبقوں کا کام ہوتا ہے کہ کالونیل دور کے قبضے کے اَثرات کو ختم کریں۔
ظاہر بات ہے کہ فرقہ واریت استعماری اَثر تھا۔ آزادی پسند جماعت فرقہ واریت کو ایک حد تک تو قابو کرسکتی ہے، لیکن اس کو مکمل قابو کرنا تو آزادی کے بعد کا مرحلہ ہے۔ آزادی پسند جماعتوں کا اولین مقصد آزادی کا حصول ہوتا ہے، جس میں وہ کامیاب رہیں۔ برطانوی استعمار کا ہندستان سے قبضہ ختم ہونے سے اس کے اَثرات باقی کالونیوں پر بھی مثبت پڑے اور ان پر اپنا قبضہ ختم کرکے ان کو آزادی دینی پڑی، یہ آزادی پسند جماعتوں کی کامیابی ہے۔
ایک دور جس میں ہم پر براہِ راست کالونی کاغلبہ ہونا اور اَب آج کا دور جس میں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے ملک پر حکمرانی کرنا، اس میں فرق ہے۔ غلامی کے دور حکومت کے اَثرات سنگین ہوتے ہیں۔ اَب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایک جامع سماجی تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور قوم کو متحد کریں۔









