برعظیم ہند میں جاگیرداری نظام کی تاریخ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • برعظیم ہند میں جاگیرداری نظام کی تاریخ

    انسان نے اپنے معاشرتی مسائل کو حل کرنے اور سماجی ارتقائی سفر کو جاری رکھنے کے لیے ہر دور میں انتظامی ادارے تشکیل دیے ہیں، جن کی بدولت قوموں نے نظم و ض

    By Rana Rafaqat Ali Published on Dec 13, 2025 Views 150

    برعظیم ہند میں جاگیرداری نظام کی تاریخ

    تحریر: رانا رفاقت علی۔ بہاولپور

     

    انسان نے اپنے معاشرتی مسائل کو حل کرنے اور سماجی ارتقائی سفر کو جاری رکھنے کے لیے ہر دور میں انتظامی ادارے تشکیل دیے ہیں، جن کی بدولت قوموں نے نظم و ضبط کے دائرے میں عادلانہ قوانین بنا کر سماجی ترقی کا سفر طے کیا۔

    مغل دورِحکومت میں منصب دار اور جاگیردار

    برصغیر میں مختلف ادوار میں انتظامیہ کے کئی طریقہ کار جاری رہے۔ سولہویں صدی میں مغل دورِحکومت میں سول اور ملٹری انتظامیہ کے لیے منصب داری نظام قائم کیا گیا۔ یہ نظام جلال الدین محمد اکبر نے 1571ء میں قائم کیا۔ مغل انتظامیہ میں جن لوگوں کو شامل کیا جاتا، انھیں منصب دار کہا جاتا تھا۔ منصب عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے عہدہ یا پوزیشن۔ ایک منصب دار کے عہدے کا تعین اس منصب کو دیے گئے ایک نمبر سے ہوتا تھا جو کم از کم دس اور زیادہ سے زیادہ پانچ سے سات ہزار تھا۔ ہر منصب دار کو اتنے افراد پر مشتمل فوجی طاقت تیار کرنی ہوتی تھی۔ ان افراد کی بھرتی، تربیت اور مطلوبہ گھوڑوں کی مقدار کو یقینی بنانا ایک منصب دار کے فرائض میں شامل تھا۔

    ان منصب داروں کو تنخواہیں یا تو کرنسی کی صورت میں دی جاتی تھیں، جسے نقدی کہتے تھے یا ایک علاقہ تفویض کردیا جاتا جسے جاگیر کہا جاتا تھا۔ اس علاقے (جاگیر) سے محصول اکٹھا کرنا اس منصب دار کے ذمے ہوتا۔ لہٰذا اس منصب دار کو جاگیردار بھی کہا جاتا تھا، جس نے حکومتی پالیسی کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنا ہوتا تھا،لیکن یہ جاگیردار اس تفویض شدہ زمین کا مالک ہرگز نہیں ہوتا تھا، بلکہ صرف ایک ٹیکس کلکٹر سمجھا جاتا تھا۔ منصب دار کا عہدہ بھی تا حیات نہ تھا، بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر اس کی حیثیت تبدیل ہوتی رہتی تھی۔ یہ تمام جاگیردار (ٹیکس کلکٹر) ایک دیوان (وزیر) کے ماتحت ہوتے تھے۔

    برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور زرعی ٹیکس 

    1757ءکی جنگ پلاسی کے رابرٹ کلائیو فورٹ ولیم (کلکتہ) کا گورنر بنا تھا اور 1764ء کی بکسر کی جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغل بادشاہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے ( معاہدہ الہ آبا ۱۷۶۵) کہا جاتا ہے۔(Treaty of Allahabad 1765 ) 

    اس معاہدے کے تحت بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (ٹیکس کلیکشن) ایسٹ انڈیا کمپنی کے کنٹرول میں آئی۔ 1765 میں رابرٹ کلائیو نے Dual System of Government نافذ کیا، جس کے تحت انتظامیہ دیوانی (ٹیکس کلیکشن) اور نظامت (ایڈمنسٹریشن) دو علاحدہ ادارے تھے۔ اس تاجرانہ ذہنیت کی حامل انتظامیہ نے کسانوں پر ظالمانہ ٹیکس لگائے۔ ان تمام کسانوں کو ریشم کا کام کرنے سے روک دیا گیا جو کمپنی فیکٹریوں میں کام نہیں کرتے تھے۔ پیداوار کا ایک بڑا حصہ ٹیکس کی شکل میں اکٹھا کر لیا جاتا اور کسانوں کو بہت کم اجرت دی جاتی۔ 

    اسی دوران 1770ء میں بنگال میں ایک بڑا قحط پیش آیا، جس میں بنگال کی آبادی کا تیسرا حصہ اس قحط کی لپیٹ میں آگیا، ایک کروڑ کے قریب لوگ اس دارفانی سے کوچ کرجاتے ہیں، جب کہ اس قحط سے بچنے کے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس انتظامیہ کی انسانیت سے عاری سوچ کا اندازہ Haileybury College کے پروفیسر Thomas Robert Malthus( ایسٹ انڈیا کمپنی کے سول سروس کے افسران کی تربیت پر مامور تھے) کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ اگر قحط کی وَجہ سے ہونے والی اموات کو روکا گیا تو زندہ رہ جانے والی آبادی کے لیے وسائل کم رہ جائیں گے، (Cadlwell, Malthus and the Less Developed World683۔ جب کہ Mike Devas جیسے مصنفین ان قحط کو Colonial Genocide کہتے ہیں۔ (Davis, Late Victorian Holocaust)۔

    1772ء میں بنگال کے دوسرے گورنر وارن ہیسٹنگز بنے،جنھوں نے رابرٹ کلائیو کے Dual System of Government کو ختم کیا۔ اَب دیوانی کے ساتھ صوبے کی ایڈمنسٹریشن بھی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ وارن ہیسٹنگز نے ٹیکس اکٹھا کرنے کےلیے کلکٹر بھرتی کیے ۔ زمین Quinquennial Settlement(اجارہ داری سسٹم) کے تحت، نیلامی کے ذریعے زیادہ بولی لگانے والے کو پانچ سال کے لیے دی جانے لگی جو کاشت کے لیے کسانوں کو پٹہ پر دیتے۔ مغل دور حکومت میں ٹیکس کی شرح پیداوار کے حساب سے ہوتی تھی (عموماً پیداوار کا تیسرا حصہ)۔ اس پانچ سالہ لیز ایگریمنٹ میں کسانوں سے ٹیکس کی شرح بیان نہ کی گئی،جس سے کسانوں کا استحصال کیا گیا۔ 

    برصغیر میں جاگیرداری نظام کا نقطہ آغاز

    1786ء میں لارڈ کارنوالس بنگال کے گورنرجنرل بنے۔ بنگال کے لینڈ ریونیو کے حوالے سے لندن اور کلکتہ میں مباحث ہورہے تھے، جس میں دو بڑی آرا تھیں۔ ایک یہ کہ لینڈ ریونیو لمبے عرصے کے لیے مختص کردیا جائے اور دوسری رائے تھی کہ اسے سالانہ بنیادوں پر رکھا جائے۔ ابھی کمپنی کے پاس بنگال کا زمینی ریکارڈ مکمل طور پر موجود نہ تھا۔ لارڈ کارنوالس نے ٹیکس کلیکشن کو بہتر کرنے  کےلیے 1793ء میںPermanent Settlement Act نافذ کیا،جسے زمین داری ایکٹ بھی کہا گیا۔ اس ایکٹ میں زمین داروں کو نہ صرف ٹیکس اکٹھا کرنے کی ذمہ داری دی گئی، بلکہ برصغیر میں پہلی دفعہ ان زمین داروں کو ان زمینوں کا مالک بھی بنایا گیا۔ برصغیر میں اس ایکٹ سے پہلے اِنفرادی ملکیت کا تصور نہ تھا۔ اس ایکٹ کو موجودہ جاگیرداری نظام کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ 

    جاگیرداری نظام کے تسلط کے قوانین

    ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے بعد برصغیر کے مختلف علاقوں پر تسلط کرنے کے بعدزمین کے حوالے سے مختلف قوانین نافذ کیے، جن میں سے ایک Waste Land Settlement تھا۔ Waste Land Grant Rules 1838 کے تحت اجتماعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمینوں کو ویسٹ لینڈ قرار دے کر ترجیحاً یورپین تاجروں (چائے کی کاشت کے لیے) اور کمپنیوں کو دی گئی۔ 1843ء میں سندھ چارلس نئپیر کی کمانڈ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرتسلط آیا۔ سندھ میں بھی Waste Land Grant Rules (1843-1880) کے تحت وفادار خاندانوں کو زمینیں عطا کی گئیں۔

    Punjab Tenancy Act 1887، کے تحت زمین دار کو بالا دست رکھتے ہوئے اسے اپنی مرضی کا ٹیکس/کرایہ فکس کرنے اور مزارع/کاشت کار کو زمین سے بے دخل کرنے کے اختیار بھی فردِ واحد کے ہاتھ میں دے کر زمین داری نظام کو مضبوط کیا۔Punjab Land Alienation Act 1900 کے تحت زمین کچھ خاندانوں کی ملکیت میں رکھنے کے لیے Agricultural Tribes کو قانونی شکل دی۔ اسی طرح Colonization of Government Lands Act, 1912 کے تحت، بالخصوص پنجاب اور سندھ میں زیادہ تر سرکاری زمینوں کو کالونی لینڈ مختص کر کے مخصوص لوگوں کو بڑی بڑی زمینوں کا مالک بنایا گیا۔ 

    برطانوی دورِحکومت کا وفادار گدی نشین طبقہ

    انگریزی راج کو دوام بخشنے میں وفادار، جاگیردار اور گدی نشین طبقے کا ایک اہم کردار ہے اور اس طبقے نے اپنے اس کردار کی خوب وصولی کی۔ پنجاب میں 1905ء میں کورٹ آف وارڈز سسٹم کے تحت کئی خاندانوں کو زمینیں عطا کی گئیں۔ اسی سسٹم کے تحت 1930ء میں گدی نشینوں کو کئی کئی ہزار ایکڑ زمینیں دی گئیں، جیساکہ اٹک کے سردار شیر محمد خان کو 25185 ایکڑ، جھنگ کے شاہ جیونہ خاندان کو 9564 ایکڑ، ملتان کے سید عامر شاہ، سید غلام اکبر شاہ، مخدوم پیر شاہ کو 11917 ایکڑ، ملتان کے گردیزی خاندان کو 7165 ایکڑ، دولتانہ خاندان کے اللہ یار خان آف لڈھن کو 21680 ایکڑ نوازے گئے۔ (برطانوی استعماریت، از اکمل سومرو)

    انگریزوں کی طرف سے نوازے گئے اس جاگیردار اور گدی نشیں طبقے نے برطانوی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ اس طبقے کی قومی تحریکات سے غداری، برطانوی عہدےداروں کے لیے سپاسنامے (Addresses of Loyalty)جنرل ڈائر جیسے سفاک منتظم کے ظلم و ستم پر خاموشی اور ذاتی مفاد کو قومی و ملی مفادات پر ترجیح دینا، تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ مخصوص طبقہ انگریزی حکومت کے حوالے سے رطب اللسان رہتا اور اس غیرملکی تسلط سے آزادی کی ہر چنگاری کو بجھانے کی کوشش کرتا۔

    تقسیم ہند کے بعد جاگیردار طبقہ کا کردار

    اگلے دور میں انگریز کا یہی وفادار، جاگیردار طبقہ، مسلم لیگ میں شامل ہوکر قانون ساز اسمبلی تک پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی اسمبلی جو 69 افراد پر مشتمل تھی، اس میں سے 27 بڑے جاگیردار تھے۔ (سیاست کے فرعون، وکیل انجم)۔ 

    مشرقی بنگال (موجودہ بنگلادیش) میں East Bengal State Acquisition and Tenancy Act 1950, کے تحت جاگیرداری نظام پر ایک کاری ضرب لگائی گئی۔ زمین کی ملکیت اور قبضہ کی ایک حد رکھی گئی، جو شروع میں 33 ایکڑ فی خاندان تھی اور بعد میں 125 ایکڑ فی خاندان تک کردی گئی،لیکن مغربی پاکستان میں زرعی اصلاحات کے نام پر قانون سازی کا آغاز ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں Martial Law Regulation (MLR) 64, Land Reforms, 1959 ہوا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں Land Reform Regulation 1972, اور پھر Land Reforms 1977ء کے ذریعے اصلاحات کی کوشش کی گئی، لیکن انگریز کے جدی پشتی وفادار طبقے کے سیاست اور اداروں پر تسلط کی وَجہ سے جاگیرداری نظام کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا،جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپلیٹ کورٹ کے 1990ء کے ایک کیس کے فیصلہ نے بھی جاگیرداری نظام کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا۔ 

    آج کی سماجی ضرورت

    وطنِ عزیز پاکستان میں یہ جاگیردار طبقہ اگلے دور میں صنعت کار اور سرمایہ دار بن کر آج بھی قانون سازی کا حصہ ہے، جس میں قوانین، اجتماعیت کو پس پشت ڈال کر ایک خاص طبقے کے مفادات کے لیے بن رہے ہیں۔ آج ہمارا نوجوان اس جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کی پارٹیوں کا تختہ مشق بننے کے بجائے، شعوری بنیادوں پر تاریخ کا تجزیہ کرے، نظام اور اس کے اداروں کی ساخت اور سماجی تبدیلی کا ادراک حاصل کر کے اجتماعیت کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

    Share via Whatsapp