انسانی تاریخ میں قیادت كی اہمیت اور ذمہ داری
معاشرے كے حالات كے اعتبار سے قیادت اپنے آپ كو كبھی بھی بری الذمہ نہیں كہہ سكتی۔

انسانی تاریخ میں قیادت كی اہمیت اور ذمہ داری
تحریر: فہدمحمدعدیل۔گوجرانوالہ
انسانی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ سماج اور تمدن کی تعمیر و تشکیل میں قیادت ہمیشہ سنگِ میل کی حیثیت رکھتی رہی ہے۔ جب کسی معاشرے کی قیادت اپنے کردار و عمل میں دیانت، بصیرت اور قربانی کا مظاہرہ کرتی ہے تو وہ قوم کو اوجِ کمال تک پہنچا دیتی ہے اور فکر و شعور کی ایسی گہرائی عطا کرتی ہے کہ انسانیت قعرِمذلت سے نکل کر رفعت و سرفرازی کی منازل طے کرنے لگتی ہے۔ لیکن جب یہی قیادت غیرذمہ داری، مفادپرستی اور طوائف الملوکی کا شکار ہوجائے تو ترقی کی شاہراہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور قوم تنزلی و گمراہی، پستی و انحطاط اور پس ماندگی و ابتری کے گرداب میں دھکیل دی جاتی ہے۔
دینِ اسلام کے جاویداں نقوش انسانیت کی تاریخ پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہیں۔ اللہ رب العزت جو خالقِ کائنات اور خالقِ انسانیت ہیں، اپنی تخلیق کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہیں۔ قرآن مجید کی آیات اس حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ پہلے انسان ، حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیادت کی عظیم ذمہ داری، یعنی تاجِ نبوت سے سرفراز فرما کر اس دنیا و کائنات میں بھیجا۔ پھر انسانیت کی ہدایت اور ہر دور کی ضروریات کے مطابق رہنمائی کے لیے ہزاروں نہیں، بلکہ ایک لاکھ سے زائد انبیاو مرسلین مبعوث فرمائے، جنھوں نے اپنے اپنے عہد میں ایسے رجال کار پیدا کیے، جنھیں معاشرے میں قیادت کی امانت سونپی گئی۔
اگر انسانی تاریخ کی بڑی تبدیلیوں اور انقلابات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت نمایاں ہوجاتی ہے کہ معاشروں کی تشکیلِ نو میں وہی جماعتیں کامیاب ہوئیں، جن کی قیادت تیار، باشعور اور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے والی تھی۔ یہ قیادتیں ہی تھیں، جنھوں نے معاشروں کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کیا۔
سماجی تناظر میں اگر قیادت کی اقسام کا جائزہ لیا جائے تو معاشرے میں پہلا مقام سیاسی قیادت کو حاصل ہے، جب کہ دوسرا درجہ معاشرتی و سماجی قیادت کا ہے۔ سیاسی قیادت کو جتنی عزت و وقار میسر ہوتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر اس کی ذمہ داری سماج کی فکری و عملی تشکیل میں اہمیت رکھتی ہے۔ انسانی تاریخ اور جدید انقلابات کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہر عہد میں انقلابی قیادت نے قوم کو جماعت سازی کے مرحلے سے گزار کر، شب و روز کی انتھک جدوجہد سے نئے افکار و نظریات کی روح پھونکی۔
سیرتِ نبوی ﷺ اور قرآنی احکامات میں قیادت کا لازمی جوہر عدل و انصاف قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ النساء آیت 58 میں ارشاد ہے: "یقیناً اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو"، جب کہ سورۃ الحدید آیت 25 میں اللہ تعالیٰ نے انبیاعلیہم السلام کی بعثت کا مقصد یوں واضح فرمایا: "یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں"۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بنی اسرائیل کی سیاست (و قیادت) ان کے انبیا کرتے تھے۔ جب بھی ایک نبی وفات پاتا، دوسرا نبی آتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور میرے بعد خلفا ہوں گے اور وہ کثرت میں ہوں گے"۔ بخاری،3455
یہ نصوص اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہیں کہ قیادت محض منصب نہیں، بلکہ ایک بھاری امانت ہے۔ رسول اکرمﷺ نے نہ صرف سیاسی نظام کی تشکیلِ نو فرمائی، بلکہ سماجی و فکری قیادت کا وہ معیار قائم کیا کہ خلفائےراشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صورت میں دنیا کو بہترین اور دائمی نمونہ فراہم کیا۔ اگر یورپ کے مادی انقلابات، جنھوں نے نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی اور تاریخِ اسلام کی مثالی قیادت والی جماعتوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو قیادت کے جوہر یکساں ملتے ہیں—امانت و دیانت، عدل و انصاف کا قیام، شجاعت و حوصلہ، علم و بصیرت، خدمتِ خلق کا جذبہ اور مشاورتی نظام کی تشکیل۔ یہی اوصاف آج کی جدید مینجمنٹ کی اساس بھی ہیں۔
مخصوص عرصے سے ایک خام تصور بارہا پروان چڑھتا رہا ہے کہ کسی معاشرے کے زوال کا بنیادی سبب صرف اس کے عوام ہوتے ہیں۔ اس مفروضے کو خصوصاً سرمایہ دارانہ نظام کے فکری غلبے کے دور میں تقویت دی گئی، حتیٰ کہ زوال پذیر معاشروں کی سیاسی و مذہبی قیادتیں اپنے آپ کو ہر قسم کی اخلاقی و سماجی ذمہ داری سے بری الذمہ سمجھنے لگیں اور معاشرتی انحطاط کا تمام بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالنے لگیں۔ حال آں کہ تاریخ اور ارتقائی مطالعہ اس نظریے کی صریح نفی کرتے ہیں۔
یہ طرزِفکر دراصل رجعت پسندانہ ذہنیت کی آبیاری کرتا ہے۔اختیارات کو مخصوص اشرافیہ کے حلقے تک محدود کردیتا ہے اور معاشرتی حالات کی ساری ذمہ داری عام افراد پر عائد کر کے خود احتسابی سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں طبقاتیت، گروہ بندی اور فرقہ واریت فروغ پاتی ہے، وسائلِ رزق پر چند افراد قابض ہو جاتے ہیں اور اکثریت غربت، افلاس، بے کسی اور بے بسی کے شکنجے میں جکڑ دی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں عوام کی زندگی محض حیوانی بقا تک محدود رہ جاتی ہے اور معاشرہ پستی و انحطاط کی گہرائیوں میں جا اُترتا ہے۔
اس کے بالمقابل حقیقی اور بامقصد قیادت ہمیشہ عوام کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ اس کی جڑیں عوامی شعور اور اجتماعی احساس میں پیوست ہوتی ہیں۔ وہ اپنی طرزِزندگی کو اشرافیہ کی پُرتعیش روایات سے الگ رکھتی ہے اور وہی معیارِ حیات اختیار کرتی ہے جو عام آدمی کے حصے میں آتا ہے۔ یہی مساوات پر مبنی طرزِقیادت وہ نقطۂ آغاز ہے، جہاں سے حقیقی سماجی تبدیلی جنم لیتی ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر تعمیر شدہ معاشرہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو کر انسانیت کی حقیقی معراج تک پہنچتا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قیادت کی تیاری کا حقیقی شعور پیدا کیا جائے، تاکہ انسانیت ظلم کی چکی سے نکل کر عدل و انصاف سے بہرہ مند ہوسکے ۔