جشن آزادی اور آزادی کے تقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جشن آزادی اور آزادی کے تقاضے

    وطن سے محبت انسان کا فطری تقاضا اور ایمان کی علامت ہے۔آزادی ہر انسان کا بنیادی حق اور مذہب کی روح ہے

    By محمد نواز خاں Published on Sep 07, 2020 Views 2025

    جشن آزادی اور آزادی کے تقاضے

    تحریر: انجینئرمحمد نواز خان۔ لاہور 


    وطن سے محبت انسان کا فطری تقاضا اور ایمان کی علامت ہے۔آزادی ہر انسان کا بنیادی حق اور مذہب کی روح ہے۔تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جب بھی انسانیت کی آزادی سلب کی گئی توایسے لوگ اور ایسی جماعتیں،  قومی ہیروز اور  قابل احترام ٹھہریں جنہوں نے غلامی کی  زنجیروں کو توڑنے میں کردار ادا کیا اور اپنی جانوں کو قربان کر دیا۔برصغیر پر جب برطانوی سامراج نے اپنے پنجے گاڑے تو اس نے اس خطے کے امن کو تہہ وبالا کر دیا۔ سونے کی چڑیا کے نام سے جانے، جانے والے خطے کی دولت کو لوٹ کر برطانیہ منتقل کیا اور خطے کو معاشی اعتبار سے کنگال بنا دیا۔ سیاسی و سماجی وحدت کو پارہ پارہ کیا اور نفرتوں کے بیج بو کر یہاں کے مختلف مذاہب اور قومیتوں کو باہم دست و گریباں کیا۔ لیکن یہاں کے  حریت پسند لوگوں اور جماعتوں نے اس غلامی کو ایک دن بھی قبول نہیں کیا اور انگریز سامراج کے خلاف تحریکات چلا کر نوے سال کے اندر  اندر صدیوں کی حکومت کرنے کا خواب لے کر آنے والے سامراج کوبوریا بستر گول کرنے پر مجبور کر دیا۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب کو اس خطے کو آزادی  دے دی گئی لیکن پاکستان میں انگریز اپنی باقیات چھوڑ گیا- تہترسال گزرنے کے باوجود  یہ قوم بہ حیثیت قوم  آزادی کے ثمرات سے مستفید نہ ہو سکی ۔ غربت، جہالت، بد امنی و دہشت گردی اور فرقہ واریت اس قوم کا مقدر ٹھہری جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور غور طلب ہے کہ ہم آزادی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیوں نہ ہو سکے؟ اور وہ کون سے عوامل اور محرکات ہیں جو آزادی کے ثمرات کو قوم تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں؟

    قیام پاکستان سے اب تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے  کہ عنان حکومت کی باگ ڈور کس طبقہ کے ہاتھ میں رہی؟ قومی اداروں کو مستحکم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ نو نہالان وطن کی ذہنی آبیاری کے لیے کس طرح کا نظام تعلیم ترتیب دیا گیا ؟ معیشت کو استحکام بخشنے کے لیے کیا پالیسیاں بنائی گئیں؟ کیا خارجہ پالیسی تشکیل دی گئی؟ پاکستان میں حکومت پرشروع سے آج تک ان نوابوں، سرداروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، مخدوموں اور نام نہاد علما کا قبضہ رہا جو انگریز کے مراعات یافتہ اور ان کی نمک حلالی کرتے ہوئے غلامی کے اس عرصے کو مزید طوالت دینے میں پیش پیش تھے۔ آزادی کے تقاضوں اور خطے کی صورت حال سے متصادم خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے سیٹو اور سینٹو معاہدوں پر دستخط کر کے وطن عزیز پاکستان کو امریکا کی منڈی بنا دیا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو  کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ ملکی وسائل اور افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے زراعت و صنعت کو فروغ دینے کے بجائے بیرونی قرضوں کا طوق اس قوم کے گلے میں ڈال دیا گیا۔ قومی صنعت کو فروغ دینے کے بجائےملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا اور ہرموقع پر بااختیار و برسر اقتدار طبقے نےاپنے سوئی جتنے ذاتی فائدہ کے لیے قوم کے پہاڑ جتنے مفادات کو اپنی ذاتی غرض اور ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جاگیر دارانہ ذہنیت کے پیش نظر تعلیم پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔فرقہ وارانہ اورو متعصبانہ نظریات و افکار کو پروان چڑھا کر مذہبی، لسانی،صوبائی اور جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم کو فروغ دیا گیا۔ تعلیمی اداروں کو کمرشلائز کر دیا گیا اور تعلیم کوایک منافع بخش انڈسٹری بنا دیا گیا ۔سیاسی جماعتیں خاندانی لمیٹیڈ کمپنیاں بن گئیں اور جمہوریت کے نام پر خاندانی ڈکٹیٹرشپ  قائم ہو گئی۔ سیاست کے بل بوتے پر اس سرمایہ دار و جاگیر دار طبقے نے ملکی دولت کو کرپشن کے ذریعے لوٹا اور  اپنے ذاتی کاروبارکو ملک اور بیرونی ملکوں میں ترقی دی اور اثاثے بنائے۔ میڈیا ایک سماجی ادارہ کے بجائے ایک انڈسٹری بن گیا جو  نظریات، افکار اور تبصروں کی دکان سجا کر زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول چاہتا ہے ۔آزادی کے وہ ثمرات و نتائج جس کے لیے لازوال قربانیاں دی گئی تھیں شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔

    ہرسال جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک لمحہ رک کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوگا کہ حقیقی آزادی کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ آزادی کی بنیادی روح کیا ہے؟ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ آزاد قوم کی حیثیت سے ہمارا کیا وقار ہونا چاہیے تھا؟ بین الاقوامی برادری میں کس طرح برابری کی بنیاد پر ہمیں معاہدات کرنے چاہییں؟ کس طرح ہم اس قوم کو فکری وحدت میں پرو سکتے ہیں؟ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں باوقار انداز سے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اپنے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی قرضوں سے کس طرح نجات ممکن ہے؟ کس طرح چھوٹی چھوٹی اکائیوں کو وحدت میں پرو کر ایک قوم کی شکل میں ابھارا جاسکتا ہے؟ یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہے کہ سامراجی ساخت کے اس ڈھانچے کو جس میں ایک مخصوص طبقہ اکثریتی عوام کے بنیادی حقوق اور حقیقی آزادی میں مزاحم ہے، کو توڑ کر حقیقی آزادی کی بنیاد پر سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کی از سر نو تشکیل کی جائے ۔اس خطے کے نوجوان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر اس کو حقیقی آزادی اور درست نظام میسر آ جائے تو دہائیوں میں یہ قوم یورپ و امریکا کی ترقیات کو مات دیتے ہوئے دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتی ہے اور دنیا کی رہنما بننےکی صلاحیت رکھتی ہے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

    Share via Whatsapp