چین، عالمی بالادستی اور پاکستان
چین، عالمی بالادستی اور پاکستان
چین، عالمی بالادستی اور پاکستان
تحریر: محمد عرفان یونس بٹ۔ لاہور
چین نے پچھلی کئی دہائیوں سے، معاشی میدان میں، جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کی بدولت ہر عالمی کھلاڑی کی طرح اب چین کو بھی اپنے معاشی ایجنڈے کےتحت مزید معاشی ترقی و نمو کے لیے عالمی منڈیاں درکار ہیں۔ اسی وجہ سے صدیوں پرانے سلک روٹ پر کام شروع ہوا اور سلک روٹ پر پائے جانے والے ممالک سے معاہدے ہونا شروع ہوئے۔ لیکن یہ سب کچھ عالمی سیاست میں کردار ادا کیے بغیر ممکن نہیں۔ اسی تناظر میں چین اب امریکہ و یورپ کی طرح عالمی بالادستی میں اپنا حصہ چاہتا ہے۔ عالمی بالادستی کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا جب تک اس ملک کے اپنے خطے کے سیاسی حالات ٹھیک نہ ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کا اپنا خطہ تو کشیدگی کا شکار ہو لیکن آپ عالمی بالادستی کا خواب دیکھیں۔ امریکہ ہو یا یورپ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد طے کر لیا تھا کہ ہم نے اپنے خطوں کو اب جنگ کا میدان نہیں بنانا۔ اسی لیے اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور مخالف فریق کو نیچا دکھا کر اپنی بات منوانے کے لیے کبھی افغانستان، تو کبھی عراق، کبھی لیبیا تو کبھی شام کو میدان جنگ بنایا گیا۔ پاکستان، انڈیا و افغانستان کشیدگی، امریکہ و ایران کشیدگی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یعنی اب میدان جنگ وسطی ایشیاء ہوگا یا جنوبی ایشیاء۔ اور ایسا ہوا بھی ہے۔ آپ خود تجزیہ کر لیں کہ پچھلے 70 سالوں میں کتنی جنگیں امریکہ و یورپ کی سرزمین پر ہوئی ہیں اور کتنی وسطی، جنوبی ایشیائی و افریقی سرزمین پر۔
اب کسی بھی ملک کے ساتھ تجارتی معاہدے اس چیز پر منحصر ہیں کہ اس ملک کے ساتھ آپ کے سیاسی تعلقات کیسے ہیں؟ اس لیے چین اگر عالمی بالادستی میں اپنا حصہ چاہتا ہے تو وہ اس چیز کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کا اپنا خطہ امریکی و یورپی ایجنڈے کے تحت جنگوں کی آماجگاہ بنے۔ اس لیے وہ اس خطے میں بڑے پیمانے پر نہ صرف سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ خطے کے ممالک کا امریکہ پر معاشی انحصار کم ہو بلکہ وہ بیک ڈور چینلز استعمال کر کے اس خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا بھی نہیں دینے دیتا۔ چین و روس اپنے مفاد کے لیے یہ ضرور چاہتے ہیں کہ اس خطے کے ممالک خود انحصار ہوں اور وہ امریکہ کی معاشی غلامی سے نکلیں۔ اس لیے پاکستان کی پہلی اسٹیل مل ہو یا سی پیک۔ یہاں سرمایہ کاری اس ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کی گئی۔
اب کیا امریکہ اس عالمی بالادستی کے عمل میں مزاحمت نہیں کرے گا؟ کیا وہ چین کے لیے میدان خالی چھوڑ دے گا؟ امریکہ اس خطے پر پچھلے 70 سالوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہو رہا ہے اور اس کی جڑیں کافی گہری ہو چکی ہیں۔ اس لیے اس خطے میں ایسی حکومتوں کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے جو امریکی ایجنڈے کے تحت کام کرے۔ جس میں امریکہ ہر بار کافی حد تک کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ مودی کی انڈین عام انتخابات میں بھاری کامیابی کو اسی وجہ سے کئی حلقوں میں کافی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔ اور حالیہ انڈین چین کشیدگی بھی شاید چین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ہی ہے۔
معاشی خوشحالی کے دور میں انسان کی عقل پیٹ کے لیے کمانے کی فکر سے آزاد ہو کر سوچتی ہے۔ انسان اپنی فطرت کے عین مطابق قوتوں، یعنی مادہ ایجاد و تقلید، رائے کلی اور خوب سے خوب تر کی تلاش، کو استعمال کرتے ہوئے زندگی کے ہر مرحلے میں اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی ترقی کا سوچتا ہے۔ اور ایسے میں ہی اعلی اخلاقیات کا حامل وہ معاشرہ پروان چڑھتا ہے جس سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اسے نعمت عظیم یعنی دنیا کی حکومت دی جائے گی۔ لیکن معاشی بدحالی کے دور میں تو انسان اعلی اخلاقیات تو کجا، جانوروں سے بھی بدتر رویوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے معاشی طور پر خوشحال معاشروں میں شعوری بنیادوں پر سماجی تبدیلی کا عمل تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ لیکن یہی عمل معاشی بدحالی کے دور میں سست روی کا شکار ہوتا ہے۔
اب چونکہ یہ چین کے مفاد میں ہے کہ وہ اس خطے کو کشیدگیوں سے دور رکھے تو اسی تناظر میں چاہتا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو۔ امریکی قرضے و امداد کا تو مقصد ہی اس خطے کو معاشی بدحالی اور غلامی کی مزید گہرائیوں میں دھکیلنا ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس چین کی امداد و قرضوں کی نوعیت استحصالی نہیں ہوتی یا کم از کم فی الوقت تو ایسے ہی محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ قرضے کے صحیح استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے جیسے سی پیک میں اس چیز کو یقینی بنایا گیا۔
لیکن آپ بچے کو اسکول میں ماحول تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن اگر بچہ پڑھنا ہی نہ چاہے تو کسی صورت تعلیم نہیں دے سکتے، ایسے ہی آپ کسی ملک کو معاشی خوشحالی دینے کی لاکھ کوشش کریں، لیکن اگر اس ملک میں خود ہی معاشی آزادی کی فکر و نظریہ نہ ہو اور غلامی رگوں میں رچ بس گئی ہو، سخت محنت قومی شعار ہی نہ ہو، معیشت امداد و قرضوں کی محتاج ہوتو ایسے ملک کو آپ معاشی خوشحالی نہیں دے سکتے۔ بلکہ الٹا صحیح مقصد کے لیے دیے گئے قرضوں کا غلط استعمال بھی وبال جان بن جاتا ہے۔
چین کا اپنا مفاد ہے اور پاکستان کا اپنا۔ شہد سی میٹھی، ہمالیہ سی بلند دوستی کا ڈھونگ کب تک چلائیں گے؟ اس لیے ضروری ہے کہ اس ساری صورتحال میں پاکستان اپنا مفاد دیکھے۔ جس کے لیے ایک صحت مند سیاسی ماحول کی ضرورت ہے۔ صحت مند معاشی نظام اسی سیاسی ماحول کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان چین کی اس مجبوری کو اپنے مفاد میں تبھی استعمال کر سکتا ہے جب یہاں قومی ادارے بیرونی اثرات سے آزاد ہوں اور خطے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ چین ہو یا روس، ان کی ساری کوششیں تب تک کامیاب نہیں ہوں گی جب تک پاکستان خود نہ چاہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنے والی مخلص و صالح قوتیں اپنا کام تیز کردیں اور اپنی بہترین صلاحیتیں اس کام میں صرف کریں۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ اگر پاکستان نے اپنے آپ کو بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا تو پاکستان خطے کی دیگر قوموں سے بہت پیچھے رہ جائے گا۔