دنیامیں رائج نظاموں کامعروضی مطالعہ
وقارخان۔ دبئی
کسی بھی نظام کی کی معقولیت، جامعیت یا انسان دوستی کو اس کے اصول و ضوابط ،حدود و قیود کو مد نظر رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے، جس کا اظہار اس کے سماجی نظام اور ظاہری اخلاق سے ہوتا ہے۔کسی بھی نظام کی یہ تین بنیادیں ہیں:
(1) فکر و فلسفہ
(2) سیاسی نظام
(3)معاشی نظام
اس وقت دنیا میں رائج عملی نظام دو ہیں ، ایک نظام سرمایہ داری یا کیپیٹل ازم اور دوسرا سوشل اِزم یا اشتراکیت کا نظام ہے۔ یہ دونوں اپنے فکر و فلسفہ اور سماجی نظام میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔نظام سرمایہ داری اور اس کے محافظ انسانیت پر ظلم و جبر کی ایک لمبی بھیانک تاریخ رکھتے ہیں - اشتراکیت دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل کے طور پر سامنے آنے والا نظام ہے-ان دو نظاموں کے علاوہ ایک تیسرا اسلام کا نظام ہے جو ساتویں صدی سے لے کر سترھویں صدی کے اختتام تک قریبا ایک ہزار سال دنیائے انسانیت پر اپنے انسانیت دوست اور جامع فکر و فلسفہ کی بنیاد پر سماجی امن و سلامتی اورمعاشی خوش حالی کے ان مٹ نقوش اور اثرات ثبت کر چکا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج اس کا بہ طور نظام تعارف مفقود ہے اور نام نہاد اسلامی ممالک بھی اسلام کے سابقوں ولاحقوں کے ساتھ عملا نظام سرمایہ داری ہی کو اپنائے ہوئے ہیں۔
انسانی سماج کو ہر نظام اپنے فکر و فلسفہ کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور مسائل کے حل کا نظریہ پیش کرتا ہے۔نظام سرمایہ داری میں سرمایہ کو انسان و انسانی معاشرے کی مجموعی فلاح پر فوقیت و اولیت حاصل ہے، یعنی انسانی سماج میں سرمایہ نظام کوجب بھی ترجیحات کے تعین کا فیصلہ کرنا ہو تو وہاں پر سرمایہ کو انسان و انسانی معاشرے پر فوقیت حاصل رہتی ہے،قطع نظر اس سے کہ سماج میں دولت کی اس پیمانہ پر تقسیم کا کتنا ہی بھیانک بگاڑ پیدا کیوں نہ ہو جائے۔اس نظام کا دنیا کے تقریبا 60% حصے پر تسلط قائم ہے، جہاں سرمایہ کی بالادستی کی بنیاد پر سیاسی سطح پر طاقت کو دوام بخشا گیا ہے ، باقی تقریبا 40% حصے پر ملکوں و قوموں نے سوشل اِزم یا اشتراکیت کو اپنایا ہوا ہے۔
برعظیم پاک و ہند کا یہ خطہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط سے پہلے دنیا کی کل دولت کا 24% حصہ پیدا کر رہا تھا اور ہزارہ دوم کی تاریخ کا سب سے پر امن و خوش حال خطہ تھا۔ کمپنی نے اس کو بے دردی سے لوٹا اور جب(نام نہاد آزادی)دے کر گئے تو یہ خطہ 3% دولت پیدا کر رہا تھا، جس خطے کے باسی قحط سے نا آشنا تھے۔ برطانوی دور میں انھوں نے کم و بیش 73 بڑے قحط دیکھے اور ان کے تباہ کن نتائج سے دوچار ہوئے، جس میں تقریبا دو کروڑ انسان جان سے گئے۔ موجودہ وقت کے حساب سے تقریبا 43 ٹریلین ڈالر کے برابر دولت لوٹی گئی،(الجزیرہ نیوز رپورٹ 2017ء) قافلہ حریت کے عظیم رہنماؤں کو قتل کیا گیا اور جیلوں اور تنوروں میں ڈالا گیا۔ غرض ہر تشدد اور جبر کو روا رکھا گیا اور 50 ہزار سے زائد علمائے حق کو جنگ آزادی 1857ء میں شہید کیا گیا اور سامراجی طاقتوں نے انسانیت پر دو بڑی جنگیں(جنگ عظیم اول اور دوم) مسلط کیں، جن میں مجموعی طور پر تقریبا 6 کروڑ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ مسلسل مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے برطانیہ کی وہ عالمی طاقت بالآخر دوسری جنگ عظیم میں ختم ہوئی، لیکن انسانیت پر سے وہ سیاہ رات کے دھبے ختم نہ ہوئے بلکہ اس کی تخت نشینی امریکا کے ہاتھ آئی اور تب سے آج تک سامراج نئے نوآبادیاتی نظام کے تسلسل کے ساتھ قوموں کے قومی نظام تباہ و برباد براہ راست اور بالواسطہ کرچکا ہے۔ اور اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومتی سیٹ اپ قائم کر کے بنیادی جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق ، آزادی اور آزاد تجارت کے خوش نما نعروں کے پیچھے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ممالک کی دولت لوٹتا ہے۔
اسلامی ممالک کی حالت
اسلامی ممالک کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اس سامراجی نظام کے دست و بازو ہیں اور عالمی سطح پر کوئی انسانیت دوست کردار ادا کرنے سے یکسر قاصر ہیں۔ قرآنی تعلیمات میں ایسی انسانیت دشمن طاقتوں سے دوستی اور تعلقات پیدا کرنے سے روکا گیا ہے جو انسانیت کا قتل عام کرتے ہیں -تیسری دنیا کے باسی مشرق وسطی
اور یورپین ممالک میں حصول روزگار کے سلسلے میں مجبورا ہجرت کرتے ہیں اور وہاں بد ترین استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستانی نظام کاجائزہ اور نوجونوں کی ذمہ داریاں
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں اپنے قومی نظام کا جائزہ لینا چاہیے کہ آج ہم کن کے حلیف ہیں اور کیا کرداد ادا کر رہے ہیں۔ بالخصوص وطن عزیز جس کی سیاست بیرونی ڈکٹیشن سے آزاد نہ ہو ، معیشت بھیک، قرضوں اور آئی ایم ایف کی انسانیت دشمن پالیسیوں اور نمائندوں کے تحت چل رہی ہو، بجٹ سازی کر کے وہ عوام کا خون چوس رہے ہوں،فکری بنیادیں مضمحل اور سوسائٹی تقسیم در تقسیم ہو کر کنفیوژ ہو تو ایسے میں محض نعروں اور شخصیات کے پیچھے بھاگنے سے گریز کرنا چاہیے اور نظاموں کا شعور حاصل کرنا چاہیے۔ تاکہ ان کا کردار واضح ہو سکے ، قومی نظام جو عالمی طاغوتی نظام کےلیے ایک گماشتہ کا کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے اس کا قومی تقاضوں کے پیمانہ پر بھی جائزہ لیناضروری ہے ،جس فکر و نظریہ پر اس ملک خدادا کی نظریاتی بنیادیں استوار کرنے کے نعرے لگا کے بنایا گیا تھا آج کیوں ستر سال گزرنے کے بعد ریاست مدینہ اور آزادی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے؟ اس کا مطلب گذشتہ ستر سال اس قوم کے ساتھ دھوکہ ہوا اور ہر بار صرف نعرے لگائے گۓ، اس فریب اور دجل سے نوجوان جس میں قوت عمل اور جذبہ موجود ہے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور نظام اس کی صلاحیتیں سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے بے جا تبصروں اور لغویات میں زائل کر دیتا ہے،اس نظام ظلم کی حلیف جماعتوں کو بھی پرکھنا چاہیے تا کہ ان کی منافقانہ ، دھوکہ دہی اور موقع پرستی کی مفاداتی سیاست کا پردہ چاک ہو سکے اور نوجوان سچے لوگوں کے ساتھ مل کر شعور حاصل کر سکیں اور نظام کی بنیادوں کو قرآنی تعلیمات کے روشنی میں سمجھ کر اجتماعی جدوجہد کر سکیں تاکہ اس نظام ظلم کی تاریکیاں ختم ہوں اور انسانیت دنیاوی و اخروی کامیابی حاصل کر سکے۔