غلام حسین خالق دینا ہال( کراچی) تحریک آزادی کا ایک اہم باب
یہ موضوع رٸیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؒاور انکے رفقا کےخلاف برصغیر پاک و ہند کا عظیم تاریخی مقدمہ ہے جس کا مختصر خاکہ تحریر کی صورت بیان کیا گیا۔
غلام حسین خالق دینا ہال( کراچی) تحریک آزادی کا ایک اہم باب
تحریر: عبدالرحمن سندھی. لیاری کراچی.
تقریباً ایک صدی قبل میری ویدر ٹاور سے متصل کشادہ سڑک (جو ایم اے جناح روڈ کے نام سے مشہور ہے) پر واقع خالق دینا ہال سے وابستہ ماضی کے ایک تاریخی واقعہ کی یاد تازہ کرنا مقصود ہے جسے *کراچی کا تاریخی مقدمہ* کہا جاتا ہے ۔
*غلام حسین خالق دینا ہال لاٸبریری کراچی*
یہ تاریخی عمارت جو آج عوامی لاٸبریری کی شکل میں موجود ہے انیسویں صدی کے آخر میں کمشنر سندھ سر بارٹلے فریٸر نے Native Library کے نام سے شہر کے وسط میں ایک چھوٹی سی عمارت کی صورت میں تعمیر کرائی.
بعد میں 1906 میں کراچی کے مالدار اور مخیر شخصیت 'سیٹھ غلام حسین خالق دینا 'نے اپنے انتقال سے قبل وصیت نامے میں 18 ہزار روپے کی رقم اس شرط پر مختص کی تھی کہ اس رقم سے لاٸبریری کی پرانی عمارت کی جگہ ایک نٸی، وسیع اور شاندار عمارت تعمیر کی جاۓ اور لاٸبریری سے ملحق ایک پبلک ہال بھی تعمیر کیا جاۓ جو لاٸبریری کی ملکیت ہو۔ یہ ہال کراۓ پر دیا جائے اور اس کی آمدنی سے لاٸبریری کا انتظام مٶثر طریقے سے سنبھالا جاۓ نیز نٸے تعمیر شدہ ہال کو ان کے نام سے منسوب کیا جاۓ۔
ہال کی تعمیر کے بعد اس کا استعمال تا دم تحریر کراچی کے شہریوں کی مختلف سماجی اور سیاسی تقریبات کےلیے ہوتا رہا ہے. مگر 26ستمبر 1921 میں جب اس ہال میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقا پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تو اس عمارت کو لازوال تاریخی اہمیت حاصل ہو گٸ ۔
خالق دینا ہال کے باہر آج بھی خلافت تحریک کی مناسبت سے ایک کتبہ آویزاں ہے جس پر مندرجہ ذیل تاریخی عبارت کندہ ہے
" _9 جولائی 1921 کو تحریک خلافت کے جلسے میں مولانا محمد علی جوہرؒ نے ایک قرار داد منظور کرائی کہ افواج برطانیہ میں مسلمانوں کی بھرتی خلاف شرع ہے .
اس جرم میں مولانا اور ان کے رفقاء پر حکومت برطانیہ نے بغاوت کا مقدمہ اسی عمارت میں دائر کیا تھا مگر پوری کارروائی کے دوران مولانا کا موقف یہ رہا کہ :۔_
*ہم کو خود شوق شہادت ہے گواہی کیسی*
*فیصلہ کر بھی چکو مجرم اقراری کا* "
یہ اس عمارت سے وابستہ حریت و آزادی کے اس دور کی تاریخ ہےجب برطانوی راج ظلم و بربریت کے پورے سامان کےساتھ نہ صرف وطن عزیز بلکہ پوری دنیا کے وسائل پر قابض تھا ایسے میں حریت و آزادی کے متوالوں نے انتہائی جرأت و جواں مردی کے ساتھ پرامن پیش قدمی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے قابض و غاصب انگریزوں کے سامنے اپنی آواز بر عظیم پاک و ہند کے کونے کونے تک پہنچائی۔
یہ تاریخی مقدمہ 7، 8 اور 9 جولائی کو کراچی میں ہونے والی خلافت کانفرنس کی قرارداد نمبر-6 پر دائر کیا گیا تھا جس کے ساتھ درج ذیل محرکین تھے.
1)مولانا محمد علی جوہرؒ
2)مولانا حسین احمد مدنیؒ
3)پیر غلام مجدد سرہندیؒ
4)مولانا نثار احمد کانپوریؒ
5)مولانا شوکت علی جوہرؒ
6)ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒ
7)جگت گروشری شنکر اچاریہ
*مقدمہ کا تاریخی پس منظر*
در اصل مذکورہ قرار داد کا متن حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رح کی تجویز تھی کہ:
_"دشمنان فوج کی ملازمت نہ کرنا اور کسی قسم کی فوجی امداد نہ پہنچانا"_
جسے آپ نے مالٹا سے رہاٸی کے بعد جمعیت علما ہند کے اجلاس دوم، منعقدہ دہلی، بتاریخ 19 تا 21 نومبر 1920 متفقہ فتوے کے طور پر پیش کیا تھا۔
30 نومبر 1920 کو حضرت شیخ الہند اس جہاں فانی سے رحلت فرما گٸے. اب ضرورت تھی کہ اس کی وضاحت اور متفقہ فتوے (جو اس دور کی اہم ضرورت تھی) کو عملی جامہ پہنایا جاٸے۔لہذا کراچی کی آل انڈیا خلافت کانفرنس میں اکابرین کی اس امانت کو وضاحت کے ساتھ قرارداد کی صورت میں پیش کیا گیا۔
یہ قرار داد تحریک ریشمی رومال اور تحریک خلافت کا تسلسل تھی .
جب جنگ عظیم اوّل میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے ہونے پر مسلمانوں نے ضرورت محسوس کی کہ وہ دور کے حساب سے عوامی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کریں تو اس کی پاداش میں انگریز حکومت نے ھندوستان کے کونے کونے سے آزادی کے متوالوں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کیا۔
*تاریخی آل انڈیا خلافت کانفرنس کراچی*
غالباً یہ برصغیر پاک وہند میں ہونے والی ساتویں آل انڈیا خلافت کانفرنس تھی جس کا آغاز 7 جولائی 1921 کو شام 4 بجے کراچی کے عید گاہ گراؤنڈ واقع بندر روڈ پر ہوا.
کانفرنس کی صدارت رٸیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؒ نےکی جس میں پورے برعظیم کے سرکردہ خلافت تحریک کے رہنما شریک ہوئے تھے جن میں مولانا حسین احمد مدنی، پیر غلام مجدد سرہندی، مولانا شوکت علی, مولانا نثار احمد کانپوری, ڈاکٹر سیف الدین کچلو رحمہم اللہ اورسوامی جگت گرو شنکر اچاریہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
کراچی کے اس عظیم الشان اجلاس میں پورے سندھ سے نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ ہندؤوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 3 ہزار 500 کے قریب نفوس اس اجلاس میں شریک ہوئے. افتتاحی اجلاس میں کراچی سندھ مرکز کے رہنما مولانا محمد صادق میمنؒ(کھڈہ والے) صدر استقبالیہ کمیٹی نے خطبہ استقبالیہ دیا تھا یہ پراثر خطبہ نہ صرف اس وقت کے بین الاقوامی حالات کا مکمل احاطہ کیے ہوئے تھا بلکہ برعظیم کی اس وقت کی سیاست کا مکمل عکس تھا .
اجلاس میں کل 14 قراردادیں پیش کی گئیں جس کی قرار داد نمبر 6 پر مقدمہ درج کیا گیا یہ قراردار مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کی مولانا محمد علی جوہرؒ نے اس کو پڑھ کر سنایا اور فرمایا کہ اجلاس کی تمام کاروائی کا یہ ہی لب لباب ہے
پیر غلام مجدد سرہندی نے اس کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد کانپوری اور مولانا شوکت علی جوہر نے اس کی تائید میں تقریریں فرمائیں. پھر جگت گرو شنکر اچاریہ نے انگریزی میں تقریر کی۔
قرار داد کو فتوے کی صورت دے دی گئی جس پر حضرت مولانا حسین احمد مدنی, پیر غلام مجدد سرہندی اور مولانا نثار احمد کانپوری رحمہم اللہ نے دستخط کیے جمعیۃ علماء ہند کا متفقہ فتویٰ بھی اسی میں موجود تھا۔
*رٸیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقا کی گرفتاریاں*
14 ستمبر 1921 کو مولانا محمد علی جوہر رحمۃاللّٰہ علیہ کو آسام سے مدراس سفر کے دوران واقع والٹیز کے اسٹیشن پر گرفتار کیا گیا۔
15 ستمبر رات دوبجے مولانا شوکت علی کو ان کی رہائش گاہ بمبئی سے گرفتار کرکے کراچی جیل منتقل کیا گیا۔
19 ستمبر کی شب مولانا حسین احمد مدنی رحمۃاللّٰہ علیہ کو دیوبند سے گرفتار کیا گیا یہ گرفتاری بہت دقت کے بعد ممکن ہو پائی۔
پیر غلام مجدد سرہندی کو 15 ستمبر ٹنڈو الہ یار کے اسٹیشن پر گاڑی میں گرفتار کیا گیا۔ ان کا تعلق مٹیاری سے تھا انہوں نے تحریک خلافت میں بھرپور حصہ لیا اور خاص طور پر سندھ میں منعقدہ خلافت کانفرنسز میں کئی مقامات پر تقاریر کیں انہوں نے ہی مٹیاری میں بھی ایک دو مرتبہ خلافت کانفرنس منعقد کرائی۔ ان کے علاوہ سندھ کے مشائخ میں سے پیر صاحب جھنڈے والے, کٸی راشدی خاندان کے پیر صاحبان, حضرت مولانا تاج محمود امروٹی، مولوی غلام احمد ملکانی اور پیر صاحب کامارو شریف نے بھی تحریک خلافت میں بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔
تحریک خلا فت کے سلسلے میں سب سے پہلے جن لوگوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ کیا گیا ، ان میں پیر صاحب جھنڈے والے کے چھوٹے بھاٸی پیر محبوب شاہ اور پیر تراب علی شاہ قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو شملہ سے گرفتار کیا گیا۔
اس مقدمے کے ساتویں ملزم جگت گرو شنکر اچاریہ کو 16 ستمبر میں جو اس وقت گجرات کاٹھیاواڑ کے ایک شہر میں چلّہ کشی میں مصروف تھے دوران چلّہ شام 5 بجے گرفتارکیاگیا۔
*کراچی کے تاریخی مقدمے کی کاروائی*
26 ستمبر 1921 کو خالق دینا ہال میں ان سات محرکین کے خلاف زیر دفعہ 122(ب) 131, 505 اور 117 خالق دینا ہال کراچی میں مقدمہ دائر کیا گیا۔
یہ مقدمہ 9 جولائی 1921 کو عید گاہ میدان، واقع بندر روڈ کراچی میں منعقدہ عظیم الشان خلافت کانفرنس میں اس قرار داد کے منظور کیے جانے کی پاداش میں قائم کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کے لیے برطانوی افواج میں ملازمت کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا تھا۔
قرارداد کے الفاظ اس طرح تھے:
_"یہ اجلاس صاف طور پر واضح کرتا ہے کہ کسی طرح بھی یہ مذہبی طور پر جائز نہیں کہ کوئی مسلمان اس وقت برطانوی فوج میں ملازم رہے یا بھرتی ہو یا دوسروں کو اس کی ترغیب دے اور یہ مسلمانوں کا عام طور پر اور علماء کا خاص طور پر فرض ہے کہ وہ اس مذہبی فریضے کو لوگوں تک پہنچائیں خواہ وہ فوج میں ہوں یا باہر۔"_
اس قرارداد کی پاداش میں ماتحت عدالت نے مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں پر حسب ذیل فرد جرم عائد کیے .
_”ساتوں ملزموں نے کراچی اور دوسرے مقامات پر دیگر اشخاص کے ساتھ مل کر ایک سازش پھیلانے میں حصہ لیا ہے۔جس کا منشاء یہ تھا کہ ملکہ معظمہ کی فوج کے مسلمان افسروں اور سپاہیوں کو ترک فرائض پر ابھارا جائے۔۔۔۔۔۔اور نیز محمد علی نے 9 جولائی1921 یا اس کے لگ بھگ کی تاریخوں میں بمقام کراچی اپنی تقریروں میں کہا کہ بحالت موجودہ ایک مسلمان کے لیے یہ مذہبی طور پر ناجائز ہے کہ وہ سرکاری فوج میں ملازم رہے یا بھرتی ہو یا دوسروں کو فوج میں ملازمت کرنے کی ترغیب دے۔۔۔۔۔۔۔۔اورنیز محمد علی نے آل انڈیا خلافت کانفرنس کراچی میں یہ بیان بھی دیا تھا کہ مسلمانوں کا بالعموم اور علماء کا بالخصوص یہ فرض ہے کہ ان مذہبی احکام کو جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے فوج کے ہر مسلمان تک پہنچا دیں۔“_
اس مقدمے میں مسٹر ٹی جی ایلفنسٹن سرکاری وکیل اور مسٹر راس السٹن ایڈوکیٹ جنرل صوبہ متحدہ، استغاثہ کی جانب سے پیروکار تھے۔ اس مقدمے میں مولانا محمد علی جوہر اور رفقاء کی جانب سے کوئی سند یافتہ وکیل نہ تھا البتہ حضرت مولانا تاج محمود امروٹی, مولانا عنایت اللہ صاحب لکھنوی اور مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقاء سے شرعی مشاورت اور رہنمائی کے لیے عدالت میں موجود رہتے تھے۔
ابتدائی عدالت کے منصف کراچی کے سٹی مجسٹریٹ مسٹر ایس ایم ٹلٹائی اور سیشن کورٹ میں جوڈیشل کمشنر سندھ جے سی کینڈی تھے۔ اس مقدمہ کے گواہان استغاثہ 26 تھےجن میں دو حکومت کے حامی اخباروں کے مدیران تھے۔ باقی سب کے سب سرکاری ملازم تھے۔ جیوری کے ارکان کی تعداد 5 تھی جن میں تین عیسائی اور دو ہندو تھے۔ مسٹر تلسی داس رام چند جیوری کے سر پنچ تھے۔ مقدمے کا نمبر 33 تھا۔
ساتوں زعما نے عدالت کے سامنے اپنے بیان قلمبند کروائے۔
*تاریخی مقدمہ کا فیصلہ*
2 نومبر 1921 کو فیصلہ سنایا گیا جیوری کے سرپنچ مسٹر رام چند تلسی داس کی فیصلے کے مطابق جملہ ملزم دفعہ 131 اور 120 میں بے قصور پائے گئے لیکن دفع 109، 117 اور 505 کے تحت سوائے سوامی شنکراچاریہ کے باقی 6 ملزموں کو دو سال قید با مشقت کی سزا سنائی _
مولانا محمد علی جوہر نے آخر میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں آپ کی اطلاع کے لیے اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنی حیثیت میں اسلام اور قوانین اسلام کے بارے میں جو کچھ کہا وہ سب کا سب غلط تھا اور اس معاملے میں آپ کا نقطہ نظر سراسر نا انصافی پر مبنی تھا.
اس کے بعد عدالت برخاست ہو گئی اور ان مسلم رہنماٶں کو واپس کراچی جیل بھیج دیا گیا۔
مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقا نے کراچی کی تاریخی سینٹرل جیل کے بیرک نمبر-19 میں قید کے دو سال گزارے۔
ان علماء آزادی کی جد وجہد کے تسلسل کو جاری رکھنے والے فکر شاہ ولی اللہ کے
امین،داعی انقلاب حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائےپوری بانی تنظیم فکر ولی اللہی۔وجمعیۃ طلباء اسلام۔پاکستان،ومسند نشین ( خانقاہ رائے پور)
اور ان کے رفقاء نے مناسب جانا کہ" خالق دینا ہال" کے تاریخی مقام پر نئی نسل کو امام شاہ ولی اللہ کے افکار کا تعارف کروایا جائے۔چناں چہ
25 اپریل 2004 کو
"امام شاہ ولی اللہ سیمینار"
منعقد کیا گیا۔جس میں مولانا شاہ سعید احمد رائپوری کےعلاوہ مولانا شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری( مسند نشیں خانقاہ رائے پور)مولانا مفتی ڈاکٹر سعید الرحمن اعوان نے خطاب کیاجب کہ جان محمد گدارو نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے۔
یہ قومی سیمینار تنظیم فکر ولی اللہی پاکستان نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور اور شاہ ولی اللہ میڈیا فاؤنڈیشن کے تعاون سے کیا۔اس میں ہال کےعلاوہ گیلریز اورباہر کےاوپن حصوں میں بھاری تعداد شریک تھی،ان کے لیے سکرین کاانتظام کیا گیا تھا۔