ہسٹری کو کیسے پڑھا جائے؟
اس آرٹیکل کا مقصد ہسڑی یا تاریخ کو جذباتیت یا انفرادیت کی بجائے سائنٹیفک انداز میں پڑھنے کی اہمیت اجاگر کرنا ہے
ہسٹری کو کیسے پڑھا جائے؟
تحریر: محمد اشفاق بن مشتاق، لاہور
مجھے میرے ایک دوست نے وٹس ایپ پیغام بھیجا جس میں حالیہ دنوں میں پی ٹی وی ہوم پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل "ارطغرل غازی " سے متعلق معلومات مہیا کی گئی تھیں ۔یہ ڈرامہ سیریل ترکی نے دسمبر 2014 میں اپنے سرکاری ٹی وی چینل TRT 1 پہ آن ائیر کیا۔ مہیا کی گئی معلومات کے مطابق یہ سیریل دنیا کے 146 ممالک میں لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں جن میں مختلف ممالک جیسا کہ آذربائیجان، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان، البانیہ، پولینڈ، سربیا، بوسنیا، ہزروگوینا، ہنگری اور یونان کے علاوہ مڈل ایسٹ، افریقہ شامل ہیں۔یہ سیریل ترکی کے زرمبادلہ میں بھی اضافےکا باعث بنا ہے۔ مذید یہ کہ کم و بیش 60 ممالک اس سیریل کی اپنی اپنی زبان میں ڈبنگ کر کے سینما گھروں کی زینت بناکر خوب پیسہ کما رہے ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سیریل کو دیکھنے کے بعد لوگ اسلام قبول کر رہےہیں اور غیر مسلموں کے دل میں اسلام سے محبت پیدا ہو رہی ہے۔ لوگ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ مخالفین اسلام کی اسلام دشمنی کا منصوبہ خاک میں مل رہا ہے۔اس سیریل کے سحر میں مبتلا نوجوانوں کابڑا واضح بیانیہ یہ ہے کہ اس ڈرامہ کے ذریعے مسلمانوں کو ان کی کی خلافت عثمانیہ کی شاندار تاریخ سے روشناس کرایا جا رہا ہے۔اور اس کی مدد سے نوجوان مسلمانوں کا ذہن بن رہا ہے کہ اسلامی طرز زندگی اپنائیں۔ڈاڑھی رکھیں اور خواتین پردہ کریں۔ وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں وغیرہ وغیرہ۔لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ غیر مسلم طبقات خاص کر اہل یورپ پراس ڈرامہ کی وجہ سےلرزہ طاری ہے۔ وہ جو اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھےان کو ناکامی ہو رہی ہے۔ مسلم نوجوان اس ڈرامہ سے اتنے متأثر ہیں کے انہوں نے ارطغرل، حلیمہ سلطان، نورگل، بابر، سلیمان شاہ اورحائمہ خاتون وغیرہ کی ڈی پیز لگائی ہوئی ہیں۔
اس کے برعکس سوشل میڈیا پر نوجوانوں کا ایک سنجیدہ طبقہ بھی پایا جاتا ہے جو اس ڈرامے کا تنقیدی جائزہ لے رہا ہے۔ان کا ماننا ہےکہ اس سیریل کی مدد سے ایک بار پھر نوجوانوں میں جہادی نظریات کی آبیاری کرکے ان کو پرتشدد بنایا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ یہ سامراج کی کسی گریٹ گیم کا حصہ ہو۔تنقید کرنے والوں کایہ بھی اندازہ ہے کہ اس سے خلافت کے قیام کی سوچ پیدا کرنامقصد بھی ہوسکتا ہے۔جسے جمہوریت اور قومی ریاستوں کے تصور کے بالمقابل لاکھڑا کیا جائے گا۔
اس تمام منظر نامے کے تناظر میں باشعور نوجوانوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس بات پرغور کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی قوم کی تاریخ یا ہسڑی جاننے کادرست اور سائنٹیفک طریقہ کار کیا ہے؟
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہسٹری کو پڑھنے میں ہیروازم اور آئیڈیلزم کا شکار ہیں۔اس معاملے میں ہمارا مزاج متوازن نہیں ہے۔ ہم عقل و شعور کی اساس پر معاشروں کا جائزہ نہیں لیتےاور نہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معاشروں میں سیاسی و معاشی تبدیلیاں کسی چھومنتر سے نہیں ہوتیں۔ہم صلاح الدین ایوبی ، محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، ارطغرل کےکارناموں کوتوپڑھتے ہیں اور صرف تاریخی شخصیات کی ذاتی زندگیوں کے واقعات کو ہی پوری پوری تاریخ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ہم نے شاید ہی کبھی سوچا ہو کہ یہ نمایاں شخصیات جس سسٹم اور نظام میں پروان چڑھیں وہ کیا تھا؟ کیا وہ سسٹم اور نظام عام عوام کی معاشی ضروریات پوری کر رہا تھا؟ معاشرے میں امن و امان کی کیا حالت تھی؟ اس معاشرے میں اس دور کی ترقیات کا کیا لیول تھا؟ علوم و فنون کی سرپرستی کون کر رہا تھا؟ ملکی آزادی و حریت کا کیا عالم تھا؟ معاشرے کے مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے آپس کے تعلقات کیسے تھے؟ معاشرے میں عدل و انصاف کی عام عوام تک رسائی کی کیا حالت تھی؟ ظالموں کے ہاتھ روکنے والا اور مظلوموں کی حمایت کرنے والا کوئی سسٹم بھی تھا کہ نہیں؟ معاشرہ جمود کا شکار تھا یا ارتقائی عمل کے نتیجے میں ترقیات کر رہا تھا؟ اخلاقی طور پر لوگ کس سطح پر کھڑے تھے؟یہ سب وہ سوالات ہیں کہ جن کے جوابات جاننے کے لیے لازمی طور پر ہمیں رائج الوقت نظام کو ہی ڈسکس کرنا ہوگا کیوں یہ سب سوالات سوسائٹی کے مختلف اداروں کی حالات سے متعلقہ ہیں اور نتائج دینےکے لیےایک مربوط سسٹم کے محتاج ہیں نہ کہ کسی فرد واحد کے۔
تاریخ انسانی میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ آج کوئی غیرمعمولی شخصیت منظرعام پر آئی اور کل کو اس نے پورے معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا ہو۔دنیا کے دوسرے تمام علوم کی طرح تاریخ کا علم بھی ایک فن ہے۔ یہ ایک باقاعدہ مضمون ہے۔ اس کو بھی پڑھنے اور سمجھنے کے کچھ اصول و ضوابط اورقاعدے ضابطے ہیں جن کو سب سے پہلے ابن خلدون جیسی معروف و معتبر شخصیت نے اپنی کتاب "مقدمہ ابن خلدون " میں ذکر کیا ہے۔اس نے اپنے اس مقدمہ میں تاریخ کا پورا فلسفہ متعین کیا ہے۔(اگرچہ اس کی اپنی لکھی ہوئی تاریخ بھی ان اصولوں اور معیارات پر پوری نہیں اترتی اور اس میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔)لیکن اس نے تاریخ کا جو فلسفہ متعین کیا ہےاور جو مقدمہ لکھا ہے وہ بہت ہی اہم چیز تسلیم کی گئی ہے جسے نہ صرف مسلم تاریخ دانوں نے بلکہ غیر مسلم مؤرخین نے بھی تسلیم کیا ہے۔اور خاص کر اہل یورپ نے اپنے احیاء علوم کے دور میں ابن خلدون کوایک ممتازحیثیت دی ہے۔ابن خلدون نے تاریخ کا تجزیہ کرنے کے لئے7 قوانین بیان کیے ہیں جن میں قانون وحدت، قانون ربط، قانون ارتقاء، قانون عصبیت، قانون جیل، قانون محاصل اور قانون محنت شامل ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ نے ایک آٹھواں قانون، قانون ارتفاق اور روح عصر کوبھی اس میں شامل کیا ہے۔ان قوانین کی روشنی میں تاریخ کو سمجھنا لازمی و ضروری ہے۔
تاریخ کو پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ طے کیا جائے کہ اس کو پڑھنے کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ ہم تاریخ کیوں پڑھنا چاہتے ہیں؟ فلسفہ تاریخ کیا ہے؟ آج مسلمان جس انداز میں اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے وہ انتہائی غیر سائنٹفک ہے۔تاریخ کوپڑھنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ انسان اپنے شاندار ماضی کی عظمت کے صرف گن ہی گاتا پھرے اور نہ ہی یہ مقصد ہوتا ہے کہ انسان اپنے زوال شدہ اور تاریک ماضی پر اپنےآباؤاجدادکو کوستا رہے۔ بلکہ تاریخ پڑھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے ماضی کا مجموعی جائزہ لے کر اپنے حال کا تجزیہ کرے، اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرے اوراس بنیاد پر اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کی جدوجہد کرے ۔
جبکہ معاملہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کو انفرادی نقطہ نظر سے پڑھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تاریخ کے اتار چڑھاؤ اور واقعات کے تغیر و تبدل کو اجتماعی نقطۂ نظر کے بجائے چند شخصیات کے کرداروں پر فٹ کرتے ہیں۔ جس میں یا توجماعت کے کردار کا انکار کیا جاتا ہے یا وہ سر ے سے ہمارے پیش نظر نہیں ہی نہیں رہتی۔قوموں کی اجتماعی زندگی ،ان کے ارتقاء اور ان کے عروج و زوال کی وجوہات پر بحث کرنے کے بجائے ہم اپنے بادشاہوں، حکمرانوں اوربعض ممتاز شخصیات کےحالات ڈسکس کرتے ہیں۔یہ اسی انفرادیت پسندی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کی اجتماعی قوت نظر انداز ہو گئی ہے اور سارا زور شخصیات کی ذاتی زندگیوں پر تبصرے کرنے پر لگ جاتا ہے۔کسی بھی قوم کی تاریخ کو جاننے کا درست اور سائنٹیفک انداز یہ ہے کہ اس قوم کے مجموعی نظام کو ڈسکس کیا جائے جس میں ان کا فکر و فلسفہ،ان کی سیاست، ان کی معیشت اور اخلاقی حالت کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ یہ تمام شعبے آپس میں جڑے ہوتے ہیں اور عوام کی زندگیوں پراثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی قانون ربط کا تقاضا ہے۔ اگرفکر و فلسفہ میں انتشار اور بے یقینی ہوگی تو سیاست بھی انتشار اور بدامنی کا شکار ہو گی۔ جس کا اثر معیشت پر پڑے گا اور وہ برباد ہوجائےگی۔ معیشت کے تباہ ہونے سے لوگوں کی اخلاقیات بگڑیں گی ۔معاشروں کے نظام کی تعمیر و تشکیل میں ہمیشہ جماعت اپنا کردار ادا کرتی ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے۔مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مکہ کی اجتماعی زندگی ، قریش کا نظم و نسق اور قصی کے زمانہ سے جو قریش کی تنظیم و توسیع چلی آرہی تھی اس کوبھی سامنے رکھاجائے کیوں کہ ان حالات و واقعات کا آپ ﷺ کی بعثت اور مشن سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
خلافت عثمانیہ کی وہ تاریخ جو ارطغرل سے شروع ہوتی ہے اس کوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ "قانون ربط" کے تناظر میں اس کا ماضی بھی جانا جائے۔ اس وقت ترکی کے معاشرے کی کیا حالت تھی؟ اس کا سیاسی اور معاشی نظام کس طرز پر تھا ؟اس کو بھی سمجھا جائے۔ "قانون عصبیت" کے تحت یہ بھی دیکھا جائے کہ اس معاشرے کی کونسی طاقت تھی جس کو عصبیت حاصل تھی؟ وہاں پر" قانون ارتقاء" کے تناظر میں معاشرتی ارتقاء کیسے جاری تھا؟ قوانین" محاصل و محنت" کی روشنی میں معاشرے کا ریونیوکلیکشن کا سسٹم کس ڈھنگ پر استوار تھا؟ اور لوگوں کی محنت کی کیا قدر وقیمت تھی اور ان کی معیشت کہاں کھڑی تھی؟ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد عصبیت بنو امیہ میں ٹرانسفر ہوتی ہے تو وہ حکمران بنتے ہیں۔ ان کے *90 سالہ* دور حکمرانی میں فتوحات کے نتیجے میں سلطنت کا دائرہ وسیع ہوتا ہےجس کی وجہ سے تقریبا پوری دنیا پر اسلام کا سیاسی اور معاشی غلبہ قائم ہوجاتا ہے۔ ان میں کمزوریاں پیدا ہوئیں تو قانون ارتقاء کے تحت اگلے درجے میں بنو عباس خود کواس قابل بناکر عصبیت حاصل کر لیتے ہیں۔وہ ایرانیوں کے ساتھ مل کر کہ بنو امیہ کو نظام سے الگ کر کے زمام اقتدار خود سمبھال لیتے ہیں۔اس طرح تقریبا 500 سال تک اسلام کی مرکزی قوت عربوں کے ہاتھ میں رہی اور اقوام کی امامت قریش نے کی۔ ارتقاء کا یہ عمل جاری رہا اور اگلے دور میں بنو عباس کی کمزوریوں کی وجہ سے بین الاقوامی قیادت بنو عثمان میں منتقل ہوگئی۔ تو اگر ہم اپنی تاریخ کا اسکے پورے پس منظر کے ساتھ جائزہ لیں گے اور اسےکسی خاص شخصیت یا حکمران کے ساتھ منسلک کر کے دیکھنے کی بجائے مجموعی تناظر میں سمجھیں گے تو ہم میں نظام کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ ہمارا ذہن سیاسی بنے گا۔جذباتیت مغلوب ہو گی جس سے عقل اور شعور بلند ہوگا جس کو بروئے کار لاکر ہم وطن عزیزکی حالت زار کو تبدیل کرنے کی کوئی سبیل سوچ پائیں گے۔تب ہی ہم اپنا کوئی کردار متعین کر پائیں گے۔ اور اگر ہم نے تاریخ کومروجہ جذباتی اور انفرادی نقطۂ نظرسے پڑھنےکی روش ترک نہ کی تو پھر ہم کبھی صلاح الدین ایوبی تو کبھی محمد بن قاسم،یا خمینی جیسی شخصیات کا انتظار کرتے رہیں گے اور زوال سےکبھی بھی نہ نکل پائیں گے۔تاریخ سے کبھی بھی سیکھ نہ پائیں گے اورسامراجی و طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں بار بار ذلیل ہوتے رہیں گے۔