ایمپریس مارکیٹ کراچی اور1857کی جنگ آزادی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ایمپریس مارکیٹ کراچی اور1857کی جنگ آزادی

    جدوجہد آزادی کی ایک کڑی جنگ آزادی 1857ء میں قومی بنیادوں پر انگریزوں کے مظالم کے خلاف ایک بھرپور مزاحمتی جدوجہد کا آغاز ہوا۔

    By وسیم اعجاز Published on Oct 03, 2018 Views 2964
    ایمپریس مارکیٹ کراچی اور1857کی جنگ آزادی

    تحریر : وسیم اعجاز ۔ کراچی

    آج صبح(16 ستمبر) صدر بازار کراچی کے ریگل چوک پر ہر اتوار کو لگنے والے پرانی کتابوں کے بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر ریگل چوک سے چند قدموں کے فاصلے پر قائم ایمپریس مارکیٹ سے گزر رہا تھا۔ ایک نظر مارکیٹ پر پڑی تواس سے جڑے تاریخی واقعات یاد آنا شروع ہوگئے۔
    کراچی کے صدر بازار کے پاس ایمپریس مارکیٹ تجارتی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز ہے۔ دراصل یہ مرکز یادگار ہے ان شہدا کی جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی کی خاطر 1857 کی جنگ آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اور اس جدوجہد کی پاداش میں جہاں ایمپریس مارکیٹ واقع ہےاسی جگہ ایک میدان میں توپوں سے اڑا دیا گیا۔ یہ الم ناک واقعات 08 ستمبر سے  23 ستمبر 1857 تک ہوتے رہے۔ یہ ایمپریس مارکیٹ اس منصوبے کی یاد دلاتی ہے جو 8 ستمبر 1857 کو حکومت کے خلاف حریت پسند سپاہیوں نے بنایا تھا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ حیدرآباد کے قلعہ کو فتح کر کے دہلی کے لال قلعہ کی طرف کوچ کیا جائے۔کراچی چھاؤنی کا نقشہ اُن کے پاس موجود تھا۔منصوبے کے مطابق تمام حریت پسندوں کے امور طے کئے گئے۔حریت پسندوں کے رہنما حوالدار رام دین پانڈے اور حوالدار سورج بالی تیوری  نے تمام حریت پسندوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان سب سے  کہا کہ کب تک اس بات کے منتظر رہیں گے کہ انگریز آپ کو توپوں سے اڑائیں اور آپ کی دھرتی پر قابض ہوکر رہیں،جیسے پورے ہندوستان میں ہو رہا ہے۔
     یوں تو پورے ہندوستان میں تحریک آزادی اپنے زوروں پر تھی اور ان کی خبریں کراچی آنا شروع ہو چکی تھیں  لیکن بے چینی اس وقت بڑھی جب سند ھ کے کمشنر بارٹل فریئر نے 29 جون 1857 کو ایک میٹنگ بلائی تاکہ حالات کا جائزہ لیا جاسکے اور اُسے میٹنگ میں تمام افراد افسردہ دیکھائی دئیے۔ کراچی اگرچہ دیگر علاقوں کی بہ نسبت جنگی صورتحال سے دور تھا ۔ لیکن اندر ہی اندر تحریک کی ابتداء ہوچکی تھی۔ 
    حریت پسندوں کے بنائے گئے منصوبے کے تحت 12 ستمبر 1857 کو حریت پسندوں کی جانب سے بغاوت کی تاریخ طے پاگئی مگر  باقی ہندوستان کی طرح یہاں بھی غداروں کی جانب سےحکام کو بروقت اطلاع ہونے کی وجہ سے تمام فوجیوں سے ہتھیار لے لیے گئے۔اس واقعے کی تفصیلات کچھ یوں ہے کہ 13 ستمبر1857 کی رات تمام فوجیوں کو کراچی چھاونی میں جمع کیا گیا اور21 ممبئی نیٹو انفنٹری رجمنٹ کے فوجیوں سے ہتھیار لے لیے گئے۔حریت پسندوں کا منصوبہ یہ تھا کہ یہاں سے ہتھیار لےکر روانہ ہوں اور حیدرآباد کے اسلحہ ڈپو پر قبضہ کر لیا جائے۔ تمام سپاہیوں کی حاضری لینے پر معلوم ہوا کے پلٹن نمبر 11 کے 27 سپاہی غیر حاضر ہیں اور13 سپاہیوں کو رائفل لوڈ کرتے ہوئے پایا گیا۔
    14 ستمبر1857 کمشنر بارٹل فریئر نے تمام کاروائی کی مکمل رپورٹ بمبئی کے گورنر لارڈ ایلفن سٹون  کوارسال کی اور فرار ہونے والے سپاہیوں کی تلاش کا دائرہ وسیع کر دیا۔ تفصیلات تمام تھانوں کو ارسال کی گئی، ساحل پر کشتیوں کی تلاشی لی گئی۔ شہر کے اردگرد پہرا سخت کر دیاگیا، کنٹونمنٹ کی سڑک پر پٹرولنگ ہونے لگی، عجیب خوف کا سماں تھا۔یورپین باشندے اپنی حفاظت کے لئے بہت پریشان تھے۔توپ خانے کے کمانڈنگ افسر اسٹائلز نے سب سے پہلے سرکاری خزانے کی حفاظت کے لیے زیادہ سپاہی مقرر کئے اور ان علاقوں کی حفاظت کے لئے جہاں انگریزوں کو پناہ لینی تھی وہاں فوج کی تعداد کو بڑھایا ۔
     15 ستمبر1857 کو ایک جاسوس صوبیدار اللہ یار خان کی مدد سے  کراچی کوئٹہ روڈ پر واقع ایک مقام حب سے 11 سپاہیوں کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن سکون ابھی بھی نہیں تھا کیونکہ بہت سارے سرکردہ رہنما ابھی مفرور تھے جن میں ایک رام دین پانڈے بھی تھا۔16 ستمبر 1857 کو کمشنر کی طرف سے ایک سرکلر جاری کیا گیا جس میں عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ حریت پسندوں کو پکڑوانے میں مدد کریں۔17ستمبر 1857 تک مزید 10 حریت پسند مختلف علاقوں سے گرفتارکر لیے گئے۔
    انگریز ایسی دیسی بغاوت سےسیخ پا تھے۔دشمنی کی آگ میں جل رہے تھے۔انہوں نے تمام گرفتار ہونے والے افراد کے ساتھ درندگی کا وہ سلوک کیا جس کو بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 17ستمبر 1857 کو پولیس اور سپاہ ایک جگہ جمع ہوگئی اور مجرموں کو باآواز بلند سزا سنائی گئی۔ کچھ کو توپوں سے اڑا دیا گیا اور کچھ کو گلے میں رسیاں ڈال کر پھانسی کی سزادی گئی۔یہ تمام کاروائی صدر کے قریب ایک کھلے میدان میں عمل میں لائی گئی۔ جہاں آج ایمپریس مارکیٹ واقع ہے۔
    21 ستمبر 1857 کو  بارٹل فریئر نے گورنر کو ایک رپورٹ ارسال کی جس میں لکھا تھا کہ فرار ہونے والے 18  فوجیوں کو مقدمہ کے بعد قتل کر دیا گیا 17 کو پھانسی دی گئی ، ایک کو جلاوطن کی سزا دی گئی اور 3 افراد پولیس مقابلے میں مارے گئے۔23 ستمبر تک سارے مفرور سپاہیوں کو پکڑ لیاگیا تھاجس میں کراچی کی سطح پر اس تحریک کے رہنما رام دین پانڈے بھی شامل تھا۔ رام دین پانڈے کو 23 ستمبر کو توپ سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔
    ایمپریس مارکٹ جہاں آج واقع ہے وہاں شہدا کی یاد میں ایک یادگار قائم کی گئی جہاں عرصے تک لوگ آتے اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے رہے۔ یہ بات بلا انگریزوں کو کیسے گوارہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے انہوں نے وہ یاد گار ختم کر کے 1884 میں ایمپریس مارکیٹ کی بنیاد رکھی جو 1889 میں مکمل ہوئی۔ایمپریس مارکیٹ میں 64 فٹ چوڑی چار گیلریاں ہیں۔عمارت میں 140 فٹ اونچا ٹاور ہے،جس پر چاروں طرف سے گھڑیال لگے ہوئے ہیں۔
    گردش ایام نے بلاشبہ ایسی یادگار جگہ پر کاروباری گہما گہمی پیدا کردی ہے۔جہاں ہر چیز پیسوں میں تولی جاتی ہے لیکن آج بھی کچھ من چلے سال کے سال اس جگہ حریت پسندوں کی یاد میں چراغاں کرتے نظر آتے ہیں۔
    لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ضرورت ہے ایسی مزاحمتی سوچ اور فکر کی جس کے نتیجے میں کامل آزادی یعنی سیاسی،معاشی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو سکے۔
    Share via Whatsapp