تحریک آزادی کی کامیابی، لیڈرشپ کا فقدان اور امام شاہ سعید احمد رائےپوری کا فکر - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تحریک آزادی کی کامیابی، لیڈرشپ کا فقدان اور امام شاہ سعید احمد رائےپوری کا فکر

    اس تحریر میں معاشرے میں موجود انگریزی دور کو صحیح سمجہنے کی سوچ کا جواب دیا گیا ہے۔

    By Tayab Memon Published on Aug 25, 2020 Views 1942
    تحریک آزادی کی کامیابی، لیڈرشپ کا فقدان اور امام شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا فکر
    تحریر: طیب دین میمن۔ حیدرآباد، سندھ

    ہم عام طورپر لوگوں سےسنت رہتے ہیں کہ اس آزادی سے بھتر تو انگریز کا دور تھا۔ خاص طور پہ ان لوگوں سے جنہوں نے انگریز کے دور کو دیکھا یا ان لوگوں کو سنا۔ ہم اس موضوع میں اس پہلو کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ھمارے اس خطے میں اپنے مسا ئل کو حل کرنے کا کیا کوئی کام ھوا بھی ہے کہ نہیں؟ 
    انگریزوں نے ہندوستان میں جو نظام قائم کیا ہوا تھا اس کے نتیجے میں یہاں کی آبادی کو بھاری تاوان (ٹیکسوں کی صورت میں) دینا پڑتا تھا۔ اس کا ثبوت کولمبیا یونیورسٹی کا ایک پی ایچ ڈی مقالہ ہے۔ جس میں مشھور اکانومسٹ اتسا پیتنیک نے ریسرج کرکے اندازہ لگایا ہے کہ پنتالیس کھرب ڈالر انڈیا سے برطانیہ نے (1765-1938) کے دوران منتقل کیے- اس تجزیے میں جنگی اخراجات اور بھت سارے بالواسطہ ( indirect)اخراجات شامل نہیں ہیں۔ اور اب دلچسپ صورتحال ہے کہتے ہیں کہ آج بھی لنڈن سٹی ایسی دولت کا مرکز ہے جو دنیا بھر کے سیاست دان اپنے ملکوں سے یہاں لاتے ہیں۔جب کہ آج کل منی لانڈرنگ کے خلاف سخت قانون بھی موجود ہے! 
    اب سوال یہ ہے کے تحریک آزادی کا مقصد کیا تھا؟ اورآزادی کیا ہے؟ 
    اصل میں آزادی سیاسی اور معاشی فیصلہ قومی مفاد میں اور سماج کی تشکیل اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں کرنے کا نام ہے۔ کسی بھی قوم و ملک کے سیاسی، معاشی، اور سماجی ڈھانچہ کی تعمیر و تشکیل میں بنیادی کردار فکر و نظریہ کا ہوتا ہے ۔ اسی کی روشنی میں بنیادی اصولوں کا تعین ہوتا ہے ۔ 
    انگریزوں نے برعظیم ہندوستان کو ایک صوبہ بنادیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی کوئی خارجہ پالیسی نہیں بناسکتے تھے۔ جو بھی تعلقات بنتے وہ تاج برطانیہ (پارلیمینٹ) کی اجازت سے بنتے۔ ہمارے دوست اور دشمن ہمارے نہیں بلکہ برطانیہ کے تھے۔ تو سیاسی آزادی کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنائیں۔ دوسرے ممالک سے ہم اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر معاہدات کریں ۔ دوست اور دشمن کا تعین اپنے تاریخی کردار و افکار کی بنیاد پر طے کریں۔ جنگ اور امن کے فیصلے ہم خود کریں۔ مثلا پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان کی شرکت تاج برطانیہ کی مرضی (یاخوشنودی) پر تھی۔ 
    اس کے مقابل جب روس 1917 میں کمیونسٹ انقلاب کے نتیجے میں زار شاہی سے آزاد ہوا۔ تو انہوں نے فوری طور پرپہلی جنگ عظیم سے یکطرفہ طور پر برآت کا اعلان کردیا۔ 
    معاشی آزادی کا مقصد تھا کہ برعظیم پاک و ہند کے وسائل اسی خطے کے لیے ہوں۔ یہ برعظیم پاک و ہند سے باہر منتقل نہ کیے جائیں۔ اور پیدائش دولت و تقسیم دولت منصفانہ بنیادوں پر ہو۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان انگریزوں سے پہلے اٹھارویں صدی کے اختتام تک ورلڈ جی ڈی پی میں ٢٠ فیصد سے زیادہ کا حصہ دار تھا۔ اور سب کو بنیادی ضروریات زندگی میسر تھیں، اس کے بعد 1947 میں وہ شیئر 4% فیصد سے بھی کم پر آگیا۔ تو وہ ساری دولت کہاں گئی؟ اسی دور میں دنیا میں عظیم برطانیہ کا ورلڈ جی ڈی پی میں شیئر ٢٠ فیصد سے زیادہ ہو گیا۔
    ہاں یہاں پر ایک سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر سب کچھ برعظیم (پاک وہند و بنگلہ دیش) میں موجود تھا تو انگریز کیسے قابض ہو گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ برعظیم ( پاک وہند و بنگلہ دیش ) میں سیاسی انتشار پیدا ہوا۔ یعنی ایسی لیڈرشپ کی کمی جو قوم کو سیاسی و معاشی طور پر منتشر ہونے سے بچائے اور ایک فکر پر درست سمت میں لےکر چلے۔ اسی سیاسی انتشار کی وجہ سے نادرشاہ نے 1737 میں دہلی کی عظمت کو تاراج کیا اور کوہ نور لے کر چلاگیا۔ اس انتشار کو ختم کرنے کے لیے قابل ذکر کاوشوں میں امام شاہ ولی اللہ رح (1703-1762) کا نام نمایاں ہے انہوں نے فک کل نظام کے عنوان سے خواص کر متوجہ کیا اور جدوجہد کی دعوت دی ۔ اور جو خرابی بالائی طبقےمیں پیدا ہوئی تھی ٹھیک کرنے کےلیے تدبیریں کی۔ اسی سلسلے میں امام شاہ ولی اللہ رح نے اس انتشار کو جو مرہٹوں کی شکل میں اور مغلوں کے سیاسی طور پر اپاہچ ہونے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں پھیل چکاتھا ختم کرنے کے لیے احمدشاہ ابدالی کو دعوت دی اور نجیب الدولہ کو اس کی مدد کے لیے آگے بڑہایا۔ وہ انتشار پانی پت کی تیسری جنگ(1761) میں ختم ہوا۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے مسند نشین دہلی کی عظمت کو دوبارہ جدید خطوط پر بحال کرنے کا موقعہ( مشن) جو امام شاہ ولی اللہ رحہ کے ذریعے ان کو ملا تھا وہ اس کو سنبھالنے کے پھر بھی قابل نہ ہو سکے۔ جس کے نتیجے میں انہوں نے 1765میں انگریزوں کو برعظیم میں پہلی بنگال کی ٹیکس کلیکشن کی اجازت دے دی۔ تو انگریزوں نے اس انتشار کو سمجھتے ہوئے، اپنی چالوں کو بڑی مستعدی سے استعمال کرتے ہوئے 1803 تک ہندستان کے اکثر حصے پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے دہلی تک پہنچ گئے اور خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا، اور حکم کمپنی کے تحت بادشاہ سے ایگریمینٹ کرلیا۔ اس وقت امام شاہ ولی اللہ کے فرزند ارجمند امام شاہ عبدالعزیز نے مشہور فتوی دارالحرب دے کر انگریزوں کے خلاف عوامی تحریک شروع کی کہ ہندستان پر ہندوستانیوں کی حکومت ہو اور ہم اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کے انہوں نے سکھوں اور دیگرمتحرک قومی قوتوں سے بھی رابطے کیے اس بنیاد پر کے وہ ہندوستانی ہیں۔ اور اس کا عملی ثبوت سید احمد شہید رح کی کامیاب چارسالہ حکومت ہے۔ وہ سلسلہ ہمیں جنگ آزادی (1857)میں بھی نظر آتا ہے اور تحریک ریشمی رومال ہو، تحریک خلافت یا تحریک آزادی۔
    انگریزوں کی یہاں پر حکومت قائم کرنے کے بارے ان کے خلاف تحریک ریشمی رومال اور تیسری اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں افغانستان کو آزادی دلانے کے سرخیل مولانا عبیداللہ سندھی رح نے تجزیہ اس طرح کیا ہے کے انگریزوں نے ہندوستان میں موجود انتشار کو ختم کرکے منظم (یاضبط قائم)کیا۔ مگر یہاں کے ہو کر نہ رہے۔ بلکہ سرمایہ یہاں سے باہر منتقل کرتے رہے اور برطانیہ کی پارلیمینٹ سے اس خطے کا انتظام چلاتے رہے۔ مولانا سندھی کے بقول اگر وہ ہندوستان میں اینگلو انڈین کی ایک شاخ قائم کر کے یہیں رہتے اور سرمائے کو یہیں کے لوگوں پر ان کی فلاح و بہبود پر استعمال کرتے تو ہمیں ان سے کوئی مضائقہ نہیں تھا (یعنی ہم ان کے خلاف تحریک نہ چلاتے)۔
    اب ہم اپنے سماج میں انگریزی حکومت کے اثرات و نتائج دیکھتے ہیں کہ انہوں نے جاگیردار طبقہ پیدا کیا۔ اور انہیں کی اولاد سے انڈسٹری میں انویسٹ کرا کر سرمایہ دار اور انتظامی ڈہانچے کو سنبھالنے کے لیے بیوروکریسی پیدا کی انگریزی زبان کی بنیاد پر۔ جس کے نتیجے میں ہماری اپنی زبانیں دب کے رہ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سماج میں اقتصادی طور پر طبقاتیت پیدا کردی۔ اقتصادی طبقاتیت جو پہلے جاگیرداریت کے نتیجے میں پیدا ہوئی اس کا قلع قمع کرنے کے لیے امام شاہ عبدالعزیز رح نے انسداد جاگیرداری کا فتوی دیا۔ پھر فرقہ واریت اور ہندو مسلم فسادات پیدا کرکے مذہبی طبقاتیت پیدا کردی۔ پھر مسٹر اور ملا کے نام سے معاشرتی تقسیم جدت و قدامت کی پیداکردی۔ تہذیب کے نام پر طبقاتیت مثلا کوٹ پتلون اور ہندوستانی کپڑوں پر۔ انگریزی زبان کی بنیاد پر ایک طبقہ پیدا کرکے طبقاتیت کو بڑھایا۔ اس طرح تو سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ انہی طبقات کو قومی فکر میں ضم کرنے کےلیے ولی الہی علماء کی جماعت تاریخی کردار ادا کرتے رہی ہے- اسی سلسلے کے نامور قومی ہیرو اور مجاہد آزادی مولانا عبید اللہ سندھی نےاپنی تاریخی دستاویز" سروراجی منشور (1924)"میں ان قومی سیاسی مسائل کا حل پیش کیا ہے۔
    اب تحریک آزادی سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو اپنی قومی اقدارو ضروریات کے مطابق تشکیل دینے کا نام تھا۔ اس کام کو کرنے کے لیے جس لیڈر شپ کی ضرورت تھی۔ کیا وہ ہمارے پاس موجو د تھی؟ تحریک چلانا اور اس کو کامیاب کرنا۔ اور تحریک کے بعد صحیح خطوط پر اس کے مطابق نظام بنانا یا اس میں کامیاب ہونا دو الگ کام ہیں۔ 
    اس ضمن میں جب ہم غور کرتے ہیں تو آزادی کے بعد ہمارے حصے میں جو محدود سیاسی لیڈرشپ آئی وہ ابتدائی زمانے میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئی(یا کردی گئی)۔ اس کے بعد طوائف الملوکی رہ گئی۔ وہ سلسلہ جو سماج میں تبدیلی لانے کا تھا وہ پیچھے رہ گیا۔ 
    اس اہم اوربنیادی کام کو کرنے کے لیے پاکستان میں ولی اللہی تاریخی تسلسل سے وابستہ فرد فرید حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائپوری رح (1926-2012) نے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ اور ہمیں تحریک آزادی کی اصل روح سے روشناس کرایا یعنی لیڈرشپ کی تیاری سیاسی، معاشی اور سماجی (قومی جمہوری) تبدیلی اپنے پیارے وطن پاکستان کے قومی مفاد کے لیے نہ کہ سیاسی لیڈروں کے خاندانی مفادات کے لیے۔
    ان کی تاریخی عبقریت (GENIUSNESS) نے خطے کی معروضیت کو سمجھا۔ ان معروضیتوں کو سمجھتے ہوئے کسی جذباتی نعروں کی جگہ نوجوانوں کو شعور کا راستہ دکھایا، جمہوری تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ ڈائیلاگ اور عقلی دلیلوں کی بنیاد پر اپنی تعلیمات کو (عدم تشدد کی پالیسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے) نوجوانوں میں منتقل کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ہجوم اکٹھا کرنے کے بجائے قابلیت ، صلاحیت، خلوص، اور انسانی قدروں کو سمجھنے والے لوگوں کی قدر کرنا سکھایا۔ فرقہ واریت، نسل پرستی، قومیت، لسانیت، کی آگ میں جلنے اور اس بنیاد پر تقسیم ہونے سے نوجوانوں کو بچایا۔ ہمیشہ قومی مفاد اور پاکستانیت کو آگے بڑھانے کا درس دیا۔ اور خاص طور پر نوجوانوں میں موجود مایوسی کو دور کیا اور ان میں شعور منتقل کیا ۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں خطے کے تابناک مستقبل کی نوید سنائی۔ 
    اب اس تناظر میں ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس خطے میں انگریزوں کی حکومت کہاں تک صحیح تھی یا تحریک آزادی اور پھر اس کی عظیم قربانیوں کے بعد کامیابی  اور غلطی کہاں ہوئی؟ اس تناظر میں ہمارا کردار قومی مفاد میں کیا بنتا ہے؟ اور کون اس کردار کو کس درجے میں ادا کر رہا ہے؟
    Share via Whatsapp