کرونا واٸرس اور بے شعور رویے
بے شعور اور کم عقل قومیں ہمیشہ اس دنیا میں ذلیل و رسوا ہوٸی ہیں۔جبکہ باشعور قوموں نے بدلتے ہوٸے حالات کے مطابق اپنے مستقبل کا تعین کیا۔
کرونا واٸرس اور بے شعور رویے
تحریر: زبیر اقبال۔راولپنڈی۔
ہماری قوم کے لوگوں کا یہ عمومی رویہ ہے کہ جب وہ ماضی یا حال میں ہونے والے حالات واقعات اور مساٸل کا تجزیہ کرتے ہیں یا اس پر اپنی راٸے قاٸم کرنے بیٹھتے ہیں تو اپنی سطحی اور محدود معلومات کی بنیاد پر اس واقعے کو سو فیصد درست اور سچا مان لیتے ہیں یا پھر اسے سو فیصد غلط اور جھوٹ قرار دے دیتے ہیں۔اب کرونا کے مسٸلے کو ہی لے لیں آپ کو یہ دو انتہا پسندانہ سوچیں نظر آٸیں گے۔جس کی وجہ اجتماعی شعور کا فقدان ہے۔ شعور معیاری تعلیم وتربیت سے آتا ہے جو اچھے تعلیمی نظام کا نتیجہ ہوتا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں معلومات کو ذہنوں میں ٹھونسنے کا نام تعلیم رکھ دیا گیاہے اور پھر اس سوچ پر بننے والے تعلیمی نظام نے فہم وبصیرت اور عقل و شعور کا مکمل قلع قمع کر دیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بحیثیت قوم ہماری سوچ میں مکمل تضاد اور ٹکراؤ آگیا۔
اسی طرح سے عقل و شعور کو فروغ دینے اور گردوپیش کے حالات و واقعات سے شعور و آگاہی دینے والا اہم ذریعہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہوتی ہے اور اگر قلم جابر اور ظالم یا اس کے آلہ کار کے ہاتھ میں آجاٸے تونقصان بھی تلوار سے زیادہ ہوتاہے۔ لہذا میڈیا کے غلط استعمال نے قوم کو عقل و شعور دینے کے بجا ٸے عقل سے ہی عاری کردیا۔اپنے مفادات کے لیے جب چاہیں جھوٹی خبریں پھیلا کے پوری قوم کو خوف و ہراس اور تذبذب کی حالت میں مبتلا کردیں یا اصل مساٸل سے توجہ ہٹا کے دوسری مصنوعی اور غیرضروری چیزوں میں الجھا دیں ۔تاکہ قومی اور بین الاقوامی سرمایہ دار انسان نما درندے اور بھیڑیے جنہوں نے پوری قوموں کی قوموں کو سیاسی معاشی اور معاشرتی طور پر یرغمال اور غلام بنایا ہوا ہے وہ اپنا کام بخوبی سر انجام دیتے رہیں۔
ماضی میں قوموں کو غلام بنانے کے لیے جنگیں مسلط کی جاتی رہی ہیں چونکہ اب دور بدل چکا ہے لہذا غلامی کا طوق کرونا کی شکل میں انسانیت کے گلے میں ڈال دیا گیاہے۔اس کے ذریعے انسانوں کے سماجی اور معاشرتی روابط کو کمزور کر کے ان کو اجتماعیت سے کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انسانوں کو ان کی اجتماعی ذمہ داریوں سے مکمل نا آشنا کر دیاجاٸے۔اجتماعیت کی سوچ انسانیت کو دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز اور افضل حیثیت دیتی ہے۔اور انسانیت کے اسی وصف کی بنیاد پر قومیں اجتماعی جدوجہد سے ترقی اور خوشحالی حاصل کرتی ہیں۔ لیکن جب انسانوں کو اجتماعیت سے ہی کاٹ دیا جاٸےگا(نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری) تو پھر نا صرف ان کی معاشی سیاسی اور معاشرتی ترقی رک جاٸے گی بلکہ انہیں استعمال کرنا بھی آسان ہو جاٸے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک کہانی میں شیر دو بیلوں کے ساتھ کرتا ہے۔
میڈیا جو خوف پھیلا رہا ہے تو اس سےتوانسان ویسے ہی خوف اور ڈر سے نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔پھر ایک عام سا فلو بھی اس کی جان لینے میں کافی ہوگا۔تجربے سے ثابت ہے کہ خوف ہماری قوت مدافعت پر کتنا اور کیسے اثر انداز ہوتا ہے۔ اور جو معاشرہ، قوم یا ملک مجموعی طور پرخوف میں ہو تو اس کی قوت مدافعت جو کہ معاشی خوشحالی ہے وہ معاشی بدحالی میں تبدیل ہو جاٸے گی اور پھر معاشی طور پرغلام قوم سے اپنی مرضی کے نتاٸج بھی لیے جا سکتے ہیں۔احتیاطی تدابیر لازمی اپنانی چاہییں مگر یہ سوال بھی ذہن میں رہے کہ احتیاط کے نام پہ ہمیں استعمال تو نہیں کیا جا رہا؟
لہذا آج ہمارے پڑھے لکھے اور باصلاحیت نوجوان کوچاہیے کہ وہ جذباتیت اور بہکاوے سے ہٹ کے شعور حاصل کرے ۔ایک اعلٰی فکر اور نظریے کی بنیاد پر عقل و شعور اور تعلیم و تربیت حاصل کرے تاکہ وہ کسی بھی مسٸلے پر اپنی ایک آزاد اعلٰی صالح اور غیر جانبدار راٸے قاٸم کر سکے اور اپنی قوم کی رہنماٸی کرسکے۔ کیونکہ آج عقل و شعور کی طاقت کا دور ہے وہی قوم ترقی کرےگے جو دور کے تقاضوں کو سمجھے گی۔اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات اور اس کے پیچھے محرکات کا ادراک کرےگی۔ اور پھراس کے مطابق اپنے مستقبل کا تعین کرے گی۔ورنہ بے شعور قومیں تو عالمی سامراجی شیطانی اور طاغوتی قوتوں کے ہاتھوں استعمال اور ذلیل ہوتی رہیں گی۔
اللّہ تعالٰی ہمیں عقل و شعور کے اعلٰی درجات پر فائز فرمائے۔