نظام ظلم کا تسلسل اور شعوری مزاحمت
نظام ظلم اور اس سے وابسطہ طبقات کا حقیقی تعارف
نظام ظلم کا تسلسل اور شعوری مزاحمت
تحریر: وقارخان۔ دبئی
ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر گورننگ پارٹی اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد پیش آمدہ تمام مسائل کو گزشتہ حکومتی پارٹی کی نا اہلی ، ملک دشمنی چوری و کرپشن کا نتیجہ قرار دےکر وراثت میں لینے کا اعتراف کرتی ہے حالانکہ موجود پارٹی کے اکثر لوگ گزشتہ دور میں حکومت کا حصہ رہ چکے ہوتے ہیں،ابھی حالیہ ایک مثال کو لیجیے کہ جن حکمرانوں کی کرپشن اور بدترین معاشی حالات کا رونا رو کر موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے انہی میں سے ایک کے مشیر خزانہ (جو اُس دور میں اِس تمام تر مصیبت کے روح رواں تھے) آج ان پارٹیوں کی مخالف پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھی وہی فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور موصوف اسی بھنور میں پھنسی معاشی ناؤ کو بچانے میں مصروف عمل ہیں جس میں دھنسانے کے وہ خود بھی ذمہ دار ہیں اور پھرجس قرض کو قومی مصیبت کابنیادی سبب قرار دیا جاتا رہا،اس کےحصول کے لیے موجودہ حکومت پورے خشوع وخضوع سے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے دستِ سوال دراز کیے کھڑی ہے۔
ہماری اس پون صدی پرمحیط سیاسی تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ ہر دور میں مسائل کے اسباب کو گزشتہ ادوار پرڈال کر نئے سرے سے اسی بدترین نااہلی کے مظاہرے جاری رکھے جاتے ہیں ، لیکن ذرا ان کی مستقل مزاجی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ ہماری مقتدرہ، عوام کو مشکل حالات پر صبرو ضبط کے بھاشن اور نام نہاد روشن مستقبل کی طفل تسلیاں دینا ہرگز نہیں بھولتی۔ اسی طرح اس عمل میں جہاں اس نام نہاد جمہوریت کا ماضی میں تسلسل ٹوٹتا ہے وہیں پینترا بدل کر موجود تمام مسائل کو آمریت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔اس بھیانک اور مکروہ کھیل میں جہاں نوجوان اس الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ مسائل کی اصل وجہ اور اس کا ذمہ دار کون ہے،وہیں وہ اپنی روایتی سیاسی وابستگی کی وجہ سے موجودہ یا ماضی کی کسی حکومتی پارٹی یا مارشل لاء کے دور کے حکمرانوں کا دفاع کرنے کےلیے مختلف سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پہ بڑے خلوص سے استعمال ہوتا ہے۔مگر اپنی توانائی اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرپاتا اور عوامی حالات یا عمومی سماجی رویوں میں بدلاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔نتیجہ ایک بدترین مایوسی یا عمومی غفلت کی صورت میں نکلتا ہے جوبدقسمتی سے آج ہمارے نوجوان کی پہچان بن چکی ہے۔
اس اعتبار سے جب ہم وطن عزیز کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکری و نظریاتی الجھن ، سیاسی بدامنی وانتشار، معاشی غارت گری ، دہشت گردی، بھوک وافلاس، بے روزگاری وغیرہ جیسے مسائل وطن عزیز کے ساتھ اس کے آزادی کے دن سے ہی لپٹے ہوئے ہیں۔لہٰذا یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زبوں حالی کے اسباب کو قیام پاکستان کی بنیادوں سے ہی ڈھونڈ نکالا جائے۔اس ضمن میں پاکستان کی سیاسی و معاشی تاریخ کا مطالعہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مملکت کے قیام کے پہلے دن سے ہی جس نظام کے فکر و فلسفہ کی بنیاد پر اس کی سیاست ومعیشت استوار کی گئی تھی وہ برعظیم پاک وہند پر برطانوی نو آبادیاتی دور کی یادگار تھا۔ اس نظام کا تو پہلے دن سے ہی بنیادی ہدف اس خطے کو غلام بنا کر یہاں بسنے والےلوگوں کا استحصال کرنا تھا۔اس لیے جب اسی نظام کا تسلسل آج بھی بلا تعطل جاری و ساری ہے تو حیرت ہے کہ بدلتے نعروں اور چہروں کے ذریعے اسی فرسودہ نظام سے بہتری کی توقع کرناکون سی عقل مندی کی بات ہے؟ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس نظام اور اس سےوابستہ مفاد پرست طبقات کے کردار کا تاریخی جائزہ لیں اور تجزیہ کریں کہ ہمارے ساتھ یا ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک دنیا میں کس برق رفتار ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور ہم کن تاریک راہوں میں گم ہو گئے ہیں؟
برعظیم پاک و ہند کہ جہاں مسلمانوں نے کم و بیش آٹھ صدیاں حکومت کی اور اس خطے کو سماجی ، معاشی اور اجتماعی حوالے سے اتنی ترقی دی کہ ہندوستان ہزارہ دوم میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بنا۔تو ہندوستان کی اس ترقی کو دیکھ کر یورپین بھیڑیوں کے مونہہ کی رال ٹپکی اور اس سونے کی چڑیا کا شکارکرنے یہاں آن دھمکے۔انگریز اس خطے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے عنوان سے سولہویں صدی کے آغاز میں بظاہر تجارت کی غرض سے آئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مکروہ عزائم اور ظالمانہ اقدامات سامنے آنے لگےجب انہوں نے ساحل سمندر پر ماہیگیروں،دیہاتوں، قصبوں،سراؤں کو لوٹنے اور قتل و غارت گری کا سلسہ شروع کیا تو بادشاہِ وقت اورنگزیب عالمگیر ؒ نے ان کی تمام تجارتی مراعات کو معاہدے سمیت ختم کر دیا اور بھاری جرمانہ لگا کر پابندی عائد کردی جس کے بعد ملکہ برطانیہ کو اپنا خصوصی نمائندہ آئندہ کے معاملات میں محتاط و محدود رہنے کے خط کے ساتھ بھیجنا پڑا اور تب سفیرِ ملکہ کی بھرے دربار میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے معافی قبول کی گئی اور انھیں تجارت کی اجازت ملی۔اورنگزیب عالمگیرؒ کی وفات(1707ء) کے بعد درحقیقت اس خطے میں مسلم دور حکمرانی کے زوال کا آغاز ہوا جس کے خلاف،امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ اور ان کی جماعت نے انگریز کے بڑھتے سیاسی و معاشی اثرورسوخ کے خلاف آزادیٔ وطن کے سلسلے میں لاتعداد کاوشوں اور قربانیوں کی ایک لازوال داستان رقم کی لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھااس لیے یہ زوال 1857ء برٹش راج کے باقاعدہ تسلط پر منتج ہوا۔
1707ءسے 1947ء کے اڑھائی سو سالہ دور بالخصوص 1857ء سے 1947ء کے دور میں انگریزوں نے جہاں برعظیم کےسیاسی و معاشی نظام کو شکست دی وہیں فکری نظام کو پامال کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔اس سلسلے میں انھوں نے اس خطے کے باسیوں پر ہر طرح کاجبر، ظلم و تشدد روا رکھا گیا بقول ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کہ اگر دنیا میں کوئی قابل رحم اور بد قسمت قوم ہے تو وہ ہندوستان کی ہے۔ انگریز نے یہاں جو نظام تعلیم متعارف کروایا اس کے نتیجے میں ذہنی و فکری غلاموں کی ایک باقاعدہ فصل کاشت کی گئی اس طرح انگریز کے قائم کردہ اداروں سے فکر و شعوراور اخلاقیات سے عاری ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا کہ جس نے نہ صرف بدیسی طاقت کے اہداف و مقاصد کو پورا کرنے میں بطور آلۂ کار کے ایک ہراول دستے کا کردار ادا کیا بلکہ انھوں نے تحریک آزادی کے راہنماؤں کی تضحیک کی اور ان کا راستہ روک کر شبِ غلامی کی طوالت میں اپنابھیانک کردار ادا کیا۔اس طبقاتی نظام تعلیم سے جو کھیپ تیار ہوئی وہ رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی تھی لیکن سوچ اور فکر کے لحاظ سے وہ انگریز کی غلام تھی اور بدقسمتی سے آج بھی ہے۔
یہاں موجود زرعی نظام کو تباہ کر کے جو جاگیر دار مفاداتی طبقہ پیدا کیا گیا اس کے تحفظ کےلیے بدنام زمانہ پولیس ایکٹ 1861ء متعارف کروایا گیا۔اسی طرح اس دور میں "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے اصول پر انگریزوں نے اس خطے کی اقوام کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لاکھڑا کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں تک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔انگریز نے یہاں ایسے بیوروکریٹک سسٹم کی بنیاد ڈالی جس میں افسران کی تربیت اس انداز و اسلوب سے کی گئی کہ وہ عوام کو محض کیڑا مکوڑا سمجھنے لگے اور ان کا کردار اس عوام کو کنٹرول کرکے انھیں آزادی کی تحریک سے باز رکھتے ہوئےانگریز راج کو دوام بخشنا تھا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آجانے کے بعد برٹش سامراج کے قائم کردہ غلامانہ سیاسی، معاشی اور انتظامی سسٹم کا خاتمہ کرکے دینی اور قومی تقاضوں کی اساس پر ایک آزادانہ نظام قائم کیا جاتا ، لیکن اس قوم کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک غلامی کی یہی یادگار ہم پر مسلط ہےاور وہ خطہ کہ جہاں اسلام کے عملی سیاسی، معاشی اور اجتماعی نظام کا کامیاب تجربہ ہونا تھا ، آج بھی انگریز کے ظالمانہ سسٹم کی بدترین تجربہ گاہ بنا ہوا ہےاور یہاں کی مقتدرہ،سیاسی اشرافیہ اور مذہب کے نام پر مفادات بٹورنے والوں نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے غلامی کے اس سسٹم کو آج تک جمہوریت، ریاستی تحفظ، عوامی حقوق،تبدیلی، ریاست مدینہ، اسلامی سابقے اور لاحقے رکھنے والی ان گنت جماعتوں اور تحریکوں کی آڑ میں کیموفلاج کررکھا ہے۔اس مکروہ عمل میں انھیں میڈیا کی پوری تائیدبھی حاصل ہے کہ جو کج بحثیوں اور عوام کو نان ایشوز میں الجھا کر اس سسٹم کے تحفظ کے لیے مذکورہ خدمت نہایت خوبی سے سرانجام دے رہا ہے۔یہ اسی گورکھ دھندے کا نتیجہ ہے کہ یہ سامراجی نظام پوری آب و تاب کے ساتھ مخصوص اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ اور عوام کو بدحالی اور کسمپرسی کے اتھاہ سمندر میں دھکیلنے کا مکروہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔
اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے اس نظام ظلم کے خلاف حقیقی مزاحمت کرنے والی ولی اللہی جماعت کے فکرو عمل کے تناظر میں ایک شعوری اجتماعی جدوجہد کی جائے اور اس نظامِ بربریت کے کرداروں اور حکمت عملی کو بے نقاب کرکے ناکام بنایا جائے اور دین اسلام کی انسانیت دوست فکر کی بنیاد پر آزادانہ سیاسی و معاشی نظام تشکیل دیا جائے۔یہی آزادی کا حقیقی راستہ ہے اور اسی کے حصول کے بعد ہی وطنِ عزیز دنیا کی اقوام میں ایک باوقار ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔