افریقی عوام اور یورپ کی نسل پرستی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • افریقی عوام اور یورپ کی نسل پرستی

    آج امریکہ اور دنیا کے کونے کونے میں گونجنے والی آوازیں " کہ جرائم ہم نے تم سے سیکھے ہیں کالے مجرم نہیں مجرم تم ہو "

    By نعمان باقر Published on Jun 14, 2020 Views 1205
    افریقی عوام اور مغرب کی نسل پرستی 
      (گذشتہ سے پیوستہ) 
    تحریر:پروفیسر سید نعمان باقر نقوی - کراچی 

    آج امریکا اور دنیا کے کونےکونےمیں ہرطرف یہ آوازیں گونج رہی  ہیں "کہ جرائم ہم نے تم سے سیکھے ہیں, کالے مجرم نہیں, مجرم تم ہو  " 
    یہ ان غلام اور آزادی پسند طبقے کی آوازیں ہیں جنہیں صدیوں سے امریکی اور یورپی نسل پرست کے ظلم و جبر نے بند کر رکھی تھیں. 
     یہ خبریں ہمارے دلوں کو آمادہ کررہی ہیں کہ  تاریخ کےان تاریک گوشوں کو بےنقاب کیا جائےجہاں یورپی  ہرطرح کا ظلم و بربریت روا اور جائز ہی نہیں بلکہ نسلی تفاخر کی بناء پر اپنا حق سمجھتے تھے ۔ لیکن یہ تاریخ کا جبر اور بھولا ہوا سبق ہے  "ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے" ۔
    آج ہم نہ صرف افریقہ بلکہ افریقی نسلوں پر بھی ہونے والے مظالم پرایک نظردیکھیں تو ایک سیاہ ترین دورکی تاریخ ہمارے سامنے ہوگی. جنوبی امریکہ کا ملک ہیٹی انقلاب فرانس سے پہلے فرنچ کالونی تھا۔ایک اندازے کےمطابق 1789ء میں دنیا کی 40 فیصد شکراور نصف کافی اسی فرانسیسی نوآبادی میں پیدا ہوتی تھی۔
    اس سے کاشت کرانے والوں اور تاجروں کی دولت تیزی سے بڑھنے لگی، یہ دولت غلاموں کی محنت نچوڑ کر پیدا کی جاتی تھی۔یہی کچھ ایسٹ انڈیز اورویسٹ انڈیز میں بھی تھا۔ماریشسس اور ایسی کئی کالونیز میں یہی کچھ دہرایا جاتارہا اور یورپ کی دولت میں یونہی اضافہ ہوتارہا۔اسی طرح افریقہ کے ممالک کے علاوہ بھِی افریقی عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ۔ 
       ۱۷۸۹ء میں ہیٹی میں 30 ہزار سفید فام، 40 ہزار ملی جلی نسل کے افراد اور پانچ لاکھ سیاہ فام غلام رہتے تھے۔یہ غلام افریقا سے پکڑ کر لائے جاتے تھے۔ ان سے کھیتوں اور کارخانوں میں 18 ,18 گھنٹوں تک زبردستی کام لیا جاتا تھا۔یہ کھیت اور کارخانےجتنی دولت پیدا کرتے اتنی ہی موت بھی۔یہاں آنے والے نصف غلام  حالات کا ستم نہ جھیل پاتے اور 10 سال کے اندر موت کے منہ میں چلے جاتے۔ اسی عرصےمیں فرانس میں بادشاہوں کے بے جا ٹیکسوں کے خلاف عوام اُٹھ کھڑے ہوئے.انقلاب فرانس  پیش قدمی کر رہا تھا۔تاجروں نے بھی وقت کی آواز کا ساتھ دیا  ۔  انقلاب فرانس کا نعرہ تھا "آزادی، مساوات، بھائی چارہ"  
    لیکن
     "" یہ نعرہ غلاموں کے لیے نہیں تھا""۔
    وہ تاجر اور کاشت کاری کرانے والے، جنہوں نے غلامی کی استحصال سے دولت حاصل کی تھی اور بادشاہت کے بھی خلاف تھے، اپنے پاؤں پر کیسے کلہاڑی مار سکتے تھے؟انقلاب تو برپا ہوگیا لیکن اس کے ابتدائی مرحلے ہی میں انقلابیوں کا فرمان آگیا کہ پانچ لاکھ سیاہ فام غلام رہیں گے، البتہ  ملی جلی نسل کے وہ افراد جن کے ماں باپ فرانس میں پیدا ہوئے، ان کو ملک کا شہری تسلیم کیا جائے گا۔ایسے لوگوں کی تعداد صرف 400 تھی۔فرانس میں افراتفری اور ہیٹی میں غلاموں کی بغاوت کو دیکھ کر برطانیہ نے یہاں حملہ کردیا۔ اسے امید تھی کہ فرانس کی کمزور ہوتی ہوئی گرفت انہیں غالب کر دے گی لیکن چار سال کی لڑائی نے ثابت کیا کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی تھی۔
     برطانیہ کی 80 ہزار نفری ماری گئی۔ وہ واپس گئے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ فرانس کا صنعتی انقلاب اتنے میں شکستوں سے دوچار ہوچکا تھا۔نپولین بوناپارٹ کے ہاتھ مضبوط ہورہے تھے۔ نپولین نوآبادی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے دسمبر 1801ء میں ایک بڑی مہم جوئی کرنے نکلا لیکن غلام سر جھکانے کو تیار نہ تھے۔ ان کی مزاحمت اور بیماری کے سبب ہزاروں فرانسیسی مارے گئے۔فرانسیسی جنرل نے صلح کا پیغام بھیجا اور گفت و شنید کے لیے شرط رکھی کہ ہیٹی کا رہنما توساں لوویرٹورخود آکر بات کرے۔ اس کے ساتھ دھوکہ کیا گیا اسے آتے ہی گرفتار کرلیا گیا اور مرتے دم تک رہا نہیں کیا۔  جانے کیوں فرانسیسی کمانڈروں کا یہ خیال تھا کہ غلام اپنے قائد کے بغیر نہیں لڑ پائیں گے. لیکن وہ کمال تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ جذبے سے لڑے اور فرانسیسی سپاہ کو نکال باہر کیا۔
    غلام کامیاب اور آزاد ہوگئے۔۔ یہ آزادی کسی سربراہ مملکت کے دستخطوں سے نہیں بلکہ ان کی اپنی جدوجہد اور مزاحمت سے ان کے نصیب میں آئی تھی۔
    یکم جنوری 1804ء کو سیاہ فام غلاموں نے آزاد ریاست جمہوریہ ہیٹی کی بنیاد رکھ دی۔ لیکن یہ داستان عزم و ہمت ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ فرانس نے دھمکی دی کہ اگر تم نے ہمیں غلاموں کی تجارت میں ہونے والے نقصان کی تلافی نہ کی تو ہم تم پر جنگ مسلط کریں گے ۔ہیٹی سوسال تک یہ تاوان ادا کرتا رہا ہے .
    کسی شاعر نے اسی موقع کے لیے کہا تھا کہ: 
    غفلت سے باز آیا تو جفا کی,
     تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی.
    یورپ کی نسل پرستی اور انسانیت دشمنی کے ان جیسے سیاہ ترین واقعات سے تاریخ کے اوراق کی سیاہی ابھی تک مٹ نہیں پائی بلکہ اور زیادہ پھیلتی جا رہی ہے. لیکن کب تک؟ 
    یہ آج کی کمزور غلاموں کی کمزور آوازیں کل انقلاب کے مضبوط نعرے میں بدل کر آزادی اور انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی. 
    اس پس منظر میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ہماری ملکییونیورسٹیوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے ۔اور کیوں پڑھایا جاتا ہے؟ ۔ شاید اسی لیےہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ بیراج کے ساتھ ساتھ منظم جاگیردارانہ نظام جو غلامی کی طویل علامت تھی کے ہمراہ تحفے میں شاندار نوکر شاہی کیوں عطا کی گئی ۔؟!!!
    Share via Whatsapp