ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی کی تاریخ
ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی تقریباً ایک جیسے مفہوم یعنی سیاست میں کسی مفاد کی خاطر اپنی وفاداری تبدیل کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں.
ہارس ٹریڈ گ اور لوٹا کریسی کی تاریخ
تحریر : ڈاکٹر عزیر وزیر (کوہاٹ)
سیاست میں انگریزی زبان کا لفظ ہارس ٹریڈ نگ اور اردو کا لفظ لوٹوں کی سیاست تقریباً ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں.
ہارس ٹریڈنگ کا مطلب گھوڑوں کی خرید و فروخت ہے. تاریخ میں بطور اصطلاح یہ لفظ پہلی مرتبہ 1820 میں استعمال ہوا. چونکہ گھوڑوں کی مختلف خصوصیات ہوتی ہیں اور اعلیٰ اور ادنیٰ نسل کے گھوڑوں میں امتیاز کرنا ایک مشکل عمل تصور کیا جاتا ہے. اس لئے اس دور میں گھوڑوں کی خرید و فروخت کے دوران جھوٹ، فراڈ اور خفیہ بارگینینگ بہت عام تھی تاکہ کسی ادنی نسل کا گھوڑا مہنگے داموں فروخت کیا جا سکے. چونکہ یہ اخلاقی طور پر گراوٹ کی بات تھی اس لئے اس کو معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا تھا. بعد میں یہ اصطلاح ہر اس کاروبار کیلئے استعمال ہونے لگی جس کی بنیاد جھوٹ اور فراڈ پر مبنی ہوتی تھی.
سرمایہ داری نظام میں چونکہ سرمایہ اصل ہوتا ہے. اور معاشرے کی ہر چیز سرمایہ کے گرد گھومتی ہے. چاہے وہ سیاست ہو یا پھر اخلاقیات کسی بھی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا تعین سرمایہ کرتا ہے. اس لئے سرمایہ دارانہ معاشرے میں معزز ترین شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس دولت سب سے زیادہ ہو. امریکہ میں سرمایہ داری نظام کے ارتقاء میں گلڈڈ دور(1870 تا 1900) کے دوران جب امریکی معاشرہ سماجی اور اخلاقی طور پر بہت زیادہ مسائل کا شکار ہوا اور غربت اور امارت کی بنیاد پر تفریق بہت بڑھ گئی تو اسے سرمایہ کی بڑھوتری کی ملمع کاری کرکے پیش کیا گیا.(گلڈ انگریزی زبان میں سونے کی ملمع کاری کو کہتے ہیں. جیسے کہ کسی اور دھات پر سونے کی ملمع کاری کرکے اس کی اصلیت کو چھپایا جائے) اسی دوران کاروباری اخلاقی رویے بھی گراوٹ کا شکار ہوئے. اور گھوڑوں کی خرید و فروخت کے دوران جھوٹ، فراڈ اور دھوکہ دہی ایک عام سی بات سمجھی جانے لگی.
رفتہ رفتہ اسے مسابقتی معیشت میں منڈی کی ناگزیر ضرورت سمجھا جانے لگا یعنی اگر سرمایہ کی بڑھوتری کیلیے دو نمبر مال جھوٹ بول کر ایک نمبر کے دام فروخت کردیا جائے تو یہ کوئی بری بات نہیں.1893 میں نیویارک ٹائمز نے کاروبار میں فراڈ کے خلاف ایک مجوزہ قانون پر تنقید کرتے ہوئے اپنے اداریے میں لکھا کہ اگر کاروبار میں جھوٹ کو قانوناً ممنوع قرار دیا گیا تو گھوڑوں کا کاروبار مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور ہماری عوام اس تھوڑے بہت تفریح کے سامان سے محروم ہوجائے گی (اصل میں یہ قانون اخبار کی شہرت بڑھانے کےلیے اسکی فروخت کے غلط اعداد و شمار شائع کرنے کے خلاف تجویز ہوا تھا). بعد میں ہارس ٹریڈ نگ کی اصطلاح مفاد کی خاطر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے مختص ہوگئی.
ہارس ٹریڈنگ سے ملتی جلتی اصطلاح اردو زبان میں لوٹا کریسی ہے. یعنی وہ سیاسی گھوڑے جو کہ مفاد کی خاطر کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں لوٹے کہلاتے ہیں. سیاست میں یہ لفظ مٹی کے برتن لوٹے کی مناسبت سے پڑا. کیونکہ لوٹے کا پیندا نہیں ہوتا اور وہ ادھر اُدھر لوٹتا اور لڑھکتا رہتا ہے. مشہور ٹی وی اینکر پرسن آفتاب اقبال کے مطابق سیاست میں یہ اصطلاح سب سے پہلے مولانا ظفر علی خان نے 1930 میں ڈاکٹر محمد عالم کےلئے استعمال کی. ڈاکٹر محمد عالم بہت بڑے مسلم لیگی تھے. لیکن پھر لیگ چھوڑ کر اتحاد المسلمین میں شامل ہوگئے. اس کے بعد کانگرس میں چلے گئے اور پھر مسلم لیگ کا حصہ بن گئے. اس لئے تھوڑے سے عرصے میں اتنی پارٹیاں تبدیل کرنے پر مولانا صاحب نے انھیں لوٹے کا خطاب دیا. بعد میں یہ لفظ اتنا مشہور ہوا کہ پھر ہر وفاداری بدلنے والے، ہر سیاست دان کے لئے استعمال ہونے لگا. یہ المیہ ملکی سیاست کا کوئی آج کا نہیں بلکہ مسلم لیگ کی آزادی کی تحریک کے دوران بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں. ڈاکٹر صاحب کے علاوہ دوسری مشہور شخصیت راجہ غضنفر علی کی ہے. 1937 کے انتخابات میں راجہ صاحب پنجاب میں مسلم لیگ کے ٹکٹ سے انتخاب میں کامیاب ہوئے لیکن کامیابی کے فوراً بعد حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے اور جب تحریک پاکستان کامیاب ہوتی دکھائی دی تو پھر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اقتدار کے مزے لوٹے.
قیام پاکستان کے بعد چند ایک سیاست دانوں کے علاوہ شائد ہی کوئی ایسا ہو جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ تو دور کی بات، اشنان نہ کیا ہو. اس کی مثالیں مسلم لیگ کی تقسیم در تقسیم اور باقی پارٹیوں کی دھڑے بازیاں ہمارے سامنے ہیں. آج کسی بھی پارٹی کا دامن لوٹوں سے پاک نہیں. ہاں یہ الگ بات ہے کے اب لوٹوں یا سیاسی گھوڑوں کیلئے نئی اصطلاح الیکٹیبلز مارکیٹ میں آ چکی ہے.
نظریاتی سیاست اور مفاداتی سیاست میں بنیادی فرق ہی یہی ہے کہ نظریاتی سیاست میں نظریہ ہی سب کچھ ہوتا ہے. اور نظریاتی سیاستدان کیلئے اپنے نظریے سی انحراف سیاسی موت کے مترادف ہوتا ہے. جبکہ مفاداتی سیاست میں مفاد ہی سب کچھ ہوتا ہے اور مفاد کی خاطر نظریات کو موم کی ناک کی طرح کسی بھی سمت میں موڑا جا سکتا ہے. آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے باصلاحیت نوجوانوں کو نظریاتی سیاست سے جوڑا جائے اور مفاداتی سیاست کی بھینٹ چڑھانے سے بچایا جائے.