سرمایہ داری نظام اور باہمی تعصبات
معاشی نظام کے بغیر نہ کوئی مزہب قیام پزیر ہو سکتا ہے نہ ہی لوگوں کے اخلاق بلند کیے جا سکتے ہیں سرمایہ داری نظام ہمیشہ لوگوں کو مسائل میں الجھا رکھتا ہ
سرمایہ داری نظام اور باہمی تعصبات
تحریر: طاہر شوکت۔ لاہور
قرآن پاک کی سورۃ الحجرات میں ہے۔
ہم نے تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے فقط اس لیے کہ تم باہم تعارف حاصل کرو
جب سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے نہ جانے کتنے انسان آئے کتنے خاندان بنے کتنی ذاتیں بنیں, کتنی نسلیں پیدا ہوئیں, کتنی قومیں وجود میں آئیں کتنے ملک ظاہر ہوئے اور فنا ہوئے ابھی تک کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ ان کی کتنی تعداد تھی ۔
آج بھی اس دنیا پر تقریباً آٹھ ارب سے زیادہ انسان موجود ہیں ۔ان میں نہ جانے کتنے خاندان ہیں.
اس کائنات میں حیوان ہوں یا انسان سب کو سب سے عزیز ترین چیز اپنی جان اور زندگی ہے اگر کسی شخص کو کہہ دیا جائے کہ وہ اپنی زندگی دے دے اس کے بدلے ایک ملک کی بادشاہت لے لے تو کوئی بھی شخص اس پر کبھی راضی نہ ہو گا۔اپنے بعد انسان کو اپنے اہل وعیال سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے اگر اس سے آگے جائیں تو اپنا خاندان،قوم،نسل،شہر، وطن سے محبت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اور اس پر حیران ہونے والی کوئی بات نہیں. یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئ ہے بلکہ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی تقریباً تمام مخلوقات کی جبلت میں یہ بات شامل حال ہے.
وہ لوگ بہت عظیم ہوتے ہیں جن کی محبت اپنے خاندان سے بڑھ کر اپنے ملک اور اس سے بڑھ کر پوری انسانیت کےلیے یکساں ہوتی ہے وہ ہر ایک کے دکھ کا ازالہ چاہتے ہیں اور ظالم سے ٹکرانے سے گریز نہیں کرتے۔ایسے انسان صدیوں بعد انسانیت کو میسر آتے ہیں ۔
جیسے شاعر نے کہا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اپنی نسل سے محبت بری چیز نہیں لیکن اس محبت کی چاہ میں اگر کسی دوسری نسل کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ انسانیت سے گرا ہوا فعل قرار دیا جائے گا اور اس تعصب کو روکنے کےلیے مذہب اور معاشی نظاموں کا بڑا عمل دخل ہے.
مذہب اگر اپنے آپ کو بین الاقوامی سطح پر منوانا چاہتا ہے یا دعوی کرتا ہے تو اس کےلیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس کی عملی صورت پیدا کر کے دکھائے۔کوئی بھی مذہب اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی ابد تک رہ سکتا جب تک کہ اس کے پاس ایک انسان دوست معاشی نظام نہ ہو.
دنیا کے تمام مذاہب اخلاقیات کی تعلیم دیتے ہیں لوگوں کے اخلاق سنوارنے کی بات کرتے ہیں لیکن کوئی بھی مذہب اس وقت تک لوگوں کو اپنا گرویدہ نہیں بنا سکتا جب تک وہ لوگوں کے معاشی مسائل حل نہ کر دے کیونکہ ایک انسان فکری طور پر اس وقت مضبوط ہوگا جب اس کو اپنے معاش کی فکر دامنگیر نہ ہو۔ اگر ایک انسان کو مذہب اخلاقیات کا درس دیتا رہے اور اس کے معاشی مسائل کا حل پیش نہ کرے تو بہت جلد لوگ اس سے متنفر ہو جاتے ہیں اور وہ مجبور ہوکر ایسے معاش کے طریقے ایجاد کر لیتے ہیں جن سے ان کو تو فائدہ حاصل ہوتا ہے لیکن باقی انسانوں کےلیے وہ زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں.
آج کا سرمایہ داری نظام اس طرز کا ہی نظام ہے جس کے موجد ایڈم سمتھ نے مادیت و سرمایہ کے فلسفے پر ایک اجارہ دار طبقاتی نظام متعارف کرایا۔اس سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک نے عالمی سطح پر اقوام کی لوٹ گھسوٹ کا سائنٹیفک میکانزم وضع کرکے ہر قوم ،ہر خطہ ومذہب کو اپنے استحصالی اور طبقاتی مفادات کے تحت استعمال کرنے کی حکمت عملی بنائی ۔اس کےساتھ اس نے مذہب کو بطور خاص اپنے استحصالی مقاصد کےلیے استعمال کرنے کے بھونڈے اور ذلت آمیز طریقےاپنائے۔اس نےمخصوص زاویے کےتحت اہل مذہب کوسماج سے کاٹ کر مذہب اور اہل مذہب کو ایک کنارے لگا دیا اور مذہب کوپرسنل لائف کا حصہ قرار دے کر زندگی کی رھنمائی سے بےگانہ کردیا۔یوں مذہب محض رسمی امور کی علامت بنادیا گیا۔اس کامعاشرتی اور اجتماعی کردار ختم کردیا گیا۔
جبکہ سچائی یہ ہےکہ حقیقی مذہب زندگی کے ہر گوشے کی رھنمائی دیتا ہےاور اپنے ماننے والوں کو بھرپور اور فعال زندگی گزارنے کی تلقین کرتاہے کہ اسلام میں رہبانیت ممنوع ہے ۔
سرمایہ داری نظام کے طریقہ کار میں ایک اصول یہ بھی کارفرما ہے کہ عوام کو مختلف غیر سنجیدہ مسائل میں الجھایا جائے.
کبھی اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے تو کبھی خوف پھیلا کر ڈرایا جاتا ہے تو کبھی کسی ایک شخص کی لڑائی کو قومی مسئلہ بنا کر اس کا پرچار کیا جاتا ہے.
لڑاؤ اور حکومت کرو کا اصول اس نظام کی روح رواں ہے، کبھی کہیں پر خاندانی تعصبات کو ہوا دے کر مالی فائدے حاصل کیے جا تے ہیں تو کبھی کسی ملک پر بے بنیاد الزام تراشی کر کے اس کا انفراسڑکچر تباہ کیا جاتا ہے پھر اس کی بحالی کےلیے وہاں کی عوام کا استحصال کیا جاتا ہے.
امریکہ میں جاری حالیہ مظاہرے اسی طرز کی ایک کڑی ہے کہ جب امریکی عوام نے کورونا کی آڑ میں سرمایہ داروں( بل گیٹس وغیرہ )کو ناجائز فائدے اٹھاتے دیکھا تو ان کی تفتیش کا مطالبہ کیا تو وہاں پر انہی سرمایہ داروں نے پرانے نسلی تعصبات کو ہوا دے دی اور اپنی جان چھڑا کر ایک طرف ہو کر تماش بین بن گئے۔اور پوری دنیا کے میڈیا کو اس پر لگا دیا کیونکہ میڈیا ہی ان سرمایہ داروں کی سب سے محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوتا ہے اسی کے ذریعے یہ اپنے کرتوت چھپا لیتے ہیں.
ہمارے ملک پاکستان میں بھی دیکھ لیجیئے پچھلے تہتر سالوں کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی یہاں کے سرمایہ دار قانون کی گرفت میں آنے لگتے ہیں اچانک کہیں کوئی دھماکہ کرا دیا جاتا ہے یا پھر کہیں کسی کے ساتھ زیادتی کرا کے اس کا خوب پرچار کرایا جاتا ہے اور عوام کو جذباتی طور پر بھڑکایا جاتا ہے. یا پھر پاک بھارت کشیدگی کو فروغ دے دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام مسائل کا مستقل حل نکلے تو اس کےلیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان مسائل کی جڑ کا پتہ لگایا جائے اور نظام کا شعور حاصل کیا جائے کیونکہ جب تک ہم ملکی نظام کا علم حاصل نہ کریں گے تو اس وقت تک ہم وقتی مسائل اور بھڑکائے گئےجذبات کے بیچ پستے رہیں گے.
سرمایہ داری نظام کا علم ہو گا تو ہم یہ جان سکیں گے کہ کس طرح سرمایہ دار عوام کا استحصال کرتے ہیں جب یہ علم آجائے گا تو انسان کے اندر خود یہ جذبہ پیدا ہو گا کہ اس نظام کو ہی تبدیل کیا جائے کیونکہ جب تک یہ نظام جاری و قائم رہے گا اس نے اپنی بقا کےلیے مسائل کھڑے کرنے ہیں اور انسانی ذہن کوالجھانے کا کام اپنی پوری تگ و دو سے کرے گا. اس نظام کی تبدیلی ہی ہمارے تمام مسائل اور تعصبات کو ختم کر سکتی ہے۔کیونکہ اخلاق ماحول سے بنتے ہیں اور ماحول حکومتی نظام سے پیدا ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں عقل سلیم اور مسائل کا ادراک نصیب کرے اور ہمیں ایسا علم وشعور حاصل کرنے کی توفیق دے جو دنیا میں بھی فائدہ دے اور آخرت میں بھی سودمند ثابت ہو. آمین