عالمی سامراجی تسلط کی مختصر تاریخ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عالمی سامراجی تسلط کی مختصر تاریخ

    9/11 کا واقعہ کے نتیجہ میں آلہِ کار مذہبی عناصر کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا اور عالمی دھشت گردی کا موجب قرار دیا گیا

    By محمد عثمان Published on Aug 29, 2020 Views 1456
    عالمی سامراجی تسلط کی مختصر تاریخ
    تحریر: محمد عثمان بلند۔ کہوٹہ راولپنڈی

    جنگِ عظیم اول کے نتیجے میں دنیا کی تین بڑی قوتیں (خلافتِ عثمانیہ، آسٹرو ہنگرین ایمپائر اور زارِ روس کی بادشاھت) نقشے سے مٹ گئیں۔ عالمی سامراجی غلبے اور دنیا کی بندر بانٹ کے لیےلیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جاپان لیگ آف نیشنز کے مستقل ممبران تھے۔امریکہ لیگ آف نیشنز کا ممبر نہیں بنا جبکہ روس کو عالمی سامراجی غلبے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوۓ اور اسی تناظر میں فن لینڈ پر جارحانہ اقدام کی پاداش میں لیگ سے بےدخل کر دیا گیا۔ 
    لیگ کے مستقل ممبران میں سے برطانیہ اور فرانس نے دنیا کے بیشتر حصے کو اپنی کالونیز میں تبدیل کر دیا۔جبکہ کچھ حصے اٹلی اور جاپان کی کالونیز میں تبدیل ہو گئے۔
    یہ کالونیز بنیادی طور پر ان ممالک کی فوجی چھاؤنیاں تھیں جن کا واحد مقصد ان کے سامراجی مقاصد کا تحفظ تھا۔ لیگ کے چاروں مستقل ممبران کا یہ عالمی سامراجی غلبہ جنگِ عظیم دوئم تک برقرار رہا۔ اس دور کو عمومی طور پر کالونیل دور کہا جاتا ہے۔
    کالونیل دور کو انسانیت کے سیاہ ترین ادوار میں شامل کیا جانا بے جا نہیں ہو گا۔ اقوامِ عالم کے وسائل کو بے دریغ لوٹا اور تباہ کیا گیا۔ ان کے فکری ذخیرے کو آلودہ کیا گیا۔ ان کی قومی تحریکوں کو کچلاگیا اور بدنام کیاگیا۔
    قوموں اور قومیتوں کے درمیان نفرت کا بیج بویا گیا اور انہیں غلام بنایا گیا۔الغرض اقوام کے تہذیب و  تمدن کو تباہ کیا گیا۔ 
    یہ بین الاقوامی سامراجی غلبے کا پہلا دور ہے جس کی بنیاد بلاوسطہ فوجی تسلط تھا۔جس کے مقاصد قوموں کے وسائل لوٹنا اور ان کو غلام بنانا تھا۔بےروزگاری، بدامنی، غربت، انتشار، فحاشی، جہالت اور بد اخلاقی وغیرہ اسی دور کی نشانیاں ہیں۔
    سامراجی ممالک کے یہی اختلافات جنگِ عظیم دوم کا باعث بنے جس میں کم و بیش 80 ملین افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس جنگ کے نتیجے میں جرمنی، جاپان اور ان کے اتحادیوں کو شکست ہوئی۔
    جنگِ عظیم دوم کے بعد سامراجی مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے  دنیا کی ازسر نو ادارہ جاتی تشکیل کی گئی۔ 
    عالمی سامراجی تسلط کی نئی حکمتِ عملی کے تحت ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو این اور آئی سی جے جیسے اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ اس دور کو نیو کالونیل (Neo- Colonial ) دور کہا جاتا ہے۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ اور روس UN کے مستقل ممبران بنے۔ 
    روس کا بڑھتا ہوا عالمی اثرورسوخ سامراجی ممالک کے مفادات کے حصول میں رکاوٹ ثابت ہو رہا تھا۔ NATO کی تشکیل اور سرد جنگ کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں NATO اور کالونیل دور کی آلۂ کار مذہبی سوچ کو نام نہاد جہاد کے نام پر روس کے خلاف منظم کیا گیا۔ افغان جہاد کے نتیجے میں روس کی عالمی منظرنامے سے پسپائی پر سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور امریکہ بلا شرکتِ غیرے اقوامِ عالم کا سربراہ ٹھہرا۔
    امریکی سربراہی میں NATO، عالمی اداروں اور ان کے حواریوں نے بین الاقومی سامراجی مفادات کے حصول کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کچلا۔ لیبیا، شام اور عراق جنگوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ جس طرح پہلے دور میں عالمی تشکیل بلاواسطہ برطانوی اور فرانسیسی فوج  کی نگرانی میں ہوئی اسی طرح دوسرے دور میں بھی عالمی تشکیلِ نو بلواسطہ امریکی فوجی نگرانی میں ہوئی۔ NATO اور باقی اداروں کا کردار معاونین کا رہا۔
    9/11 کے واقعہ کے نتیجہ میں آلہِ کار مذہبی عناصر کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا اور عالمی دھشت گردی کا موجب قرار دیا گیا اور اپنی ہی طفیلی قوت طالبان اور بالخصوص القائدہ کی نام نہاد سرکوبی کے نام پر افغانستان پر قبضے کی دیرینہ خواھش کو عملی جامہ پہنایا گیا۔
    سرد جنگ کے بعد دھشت گردی کو عالمی عفریت قرار دینا، اس کی سرکوبی اور قوموں کی نام نہاد آزادی کے عنوان کے تحت بہت سے ممالک پر فوج کشی کی گئی۔ افغانستان، لیبیا اور شام اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
    دنیا کی اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف سامراج جہاں اقوام عالم کو اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھا رہا تھا وہیں چین ایک مضبوط معاشی اور دفاعی قوت کے طور پر ابھر کے سامنے آیا۔ چین کا بڑھتا ہوا بین الاقوامی کردار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔
    چین کا بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے لیے Belt and Road منصوبہ اور مواصلاتی میدان میں  G-5 ٹیکنالوجی کا حصول عالمی سامراجی تسلط کے لیے خطرے کی گھنٹی تھے۔ چین کی اس تیز پیش قدمی کی رکاوٹ کے لیے بری اور بحری تمام تجارتی راستوں پر تنازعات کھڑے کیے گیے۔
    چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کیا گیا۔ چینی مصنوعات پر محصولات بڑھائے گئے۔ کچھ مصنوعات پر مکمل پابندی لگا دی گئی لیکن ان تمام اقدامات سے چین کی ترقی کی رفتار کو روکا نہ جا سکا۔ مزید برآں دنیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی انسانیت دشمن پالیسیوں کے خلاف سوچ کا ابھرنا۔ روس، ایران، شمالی کوریا، ویتنام، وینزویلا، کیوبا، افریقن یونین اور یورپی یونین کا امریکی اقدامات پر تحفظات اور تشویش کا اظہار، عالمی سامراجی تسلط کے کمزور ہونے کی نشانیاں ہیں۔ 
    ان حالات کے پیشِ نظر جبکہ دنیا پر اجارہ داری کی سابقہ حکمتِ عملی بری طرح ناکام اور بے نقاب ہو گئی تو حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اس غاصبانہ تسلط کے دوام کی نئی حکمتِ عملی کا انتخاب کیا جائے۔ کرونا کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
    لیکن دنیا میں طاغوت مخالف شعور بےدار ہو چکا ہے۔ سامراج ہر میدان میں پسپا ہو رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب دنیا پر مسلط ظالمانہ نظام شکست و ریخت سے دو چار ہو گا اور دنیا کی تشکیل انسان دوستی کی بنیاد ہو گی۔
    Share via Whatsapp