سلطنتوں کی واپسی: عالمی سیاست کا نیا چہرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سلطنتوں کی واپسی: عالمی سیاست کا نیا چہرہ

    جدید دور کی سیاست میں ایمپائرز کی واپسی کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔

    By Zahid Ansari Published on Jul 07, 2025 Views 985

    سلطنتوں کی واپسی: عالمی سیاست کا نیا چہرہ

    زاہد انصاری۔گوجرہ

    روس کے دارالحکومت ماسکو میں قائم والدائی کلب (Valdai Discussion Club): بین‌الاقوامی تعلقات اور سیاسی موضوعات پر ایک تجزیاتی فورم ہے۔ اس کے پروگرام ڈائریکٹر تیموفے بورداچوف نے موجودہ عالمی منظرنامے پر اپنے تجزیاتی خیالات کا اِظہار ایک حالیہ رپورٹ کے ذریعے روسی جریدے میں شائع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب دنیا میں گلوبلائزیشن، خودمختاری اور انسانی حقوق کے تصورات کو مرکزی حیثیت حاصل ہوچکی تھی، عام تاثر یہ تھا کہ تاریخ کا وہ دور جب طاقت ور شہنشاہیت پر مبنی سلطنتیں اور سامراجی اقتدار غالب تھا، اَب ختم ہوچکا ہے۔ اس وقت (یعنی اکیسویں صدی کے آغاز میں) نوآبادیاتی نظام، استعماری طاقتیں اور سلطنتوں کی توسیع کو تاریخ کا حصہ سمجھا جانے لگا تھا۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ دنیا اَب خودمختاری، بین‌الاقوامی اداروں (جیسے اقوامِ متحدہ) اور عالمی قانون کی بنیاد پر منظم ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ عالمی نظام زوال پذیر ہوتا گیا اور بین‌الاقوامی سیاست میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ یہ رجحان اس مفروضے کو چیلنج کررہا ہے کہ دنیا اب "سلطنتوں کے خاتمے" کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور کی سیاسی کشمکش میں سلطنتوں کی واپسی کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔

    امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے کینیڈا اور گرین لینڈ کو امریکا میں شامل کرنے کی بات محض ایک وقتی یا سیاسی بیان نہیں، بلکہ ایک گہری ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ۔ وہ ذہنیت جو یہ سمجھتی ہے کہ اَب عالمی طاقتوں کے لیے صرف اقتصادی شراکت داری کافی نہیں رہی، بلکہ براہِ راست کنٹرول اور دائرہ اختیار کا قیام ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔یہ سوچ امریکا تک محدود نہیں؛ یورپ میں بھی کچھ سیاست دان کھل کر اپنے پڑوسی ممالک کو توڑنے یا ان پر اپنا اَثر و رسوخ دوبارہ قائم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ اگرچہ ان بیانات کو عمومی طور پر سنجیدہ نہیں لیا جاتا، مگر یہ بات واضح ہے کہ سلطنتوں کی واپسی کی بحث اَب صرف دانش وروں یا انتہاپسند حلقوں تک محدود نہیں رہی۔

    یہ تمام تر صورتِ حال ایک ایسے وقت میں پیش آرہی ہے، جب بیسویں صدی کے وہ ادارے، جنھوں نے خودمختاری اور بین‌الاقوامی قانون کو فروغ دیا، اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اَب محض علامتی حیثیت تک محدود رہ گیا ہے۔ مغربی طاقتوں کی جانب سے اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں نے اس کی غیرجانبداری کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔یورپی یونین جیسا مضبوط ادارہ بھی داخلی خلفشار اور اتحاد کے بحران کا شکار ہے۔ دوسری جانب، برکس جیسی تنظیمیں، اگرچہ عالمی طاقتوں کے مقابلے میں ایک نئے ماڈل کی نمائندگی کرتی ہیں اور بین‌الاقوامی ثالثی تنظیموں کا قیام عالمی عدالتِ انصاف پر دنیا کے عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے، مگر سلطنتیں ایک بار پھر اُبھرنے اور عالمی سیاست میں پیدا ہونے والے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ خود " سلطنت یا شہنشاہیت یعنی Empire" کا تصور بھی ایک نظریاتی ارتقا سے گزر رہا ہے۔ ماضی میں سلطنت کو عموماً جبر، نسل‌پرستی، استحصال اور تشدد کا مترادف سمجھا جاتا تھا، خصوصاً ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کی نوآبادیاتی تاریخ کے تناظر میں، لیکن موجودہ دور میں مغربی میڈیا اور پالیسی ساز سلطنت کی ایک نئی تعریف وضع کررہے ہیں۔ اَب اسے "سیکیورٹی آرکیٹیکچر"، "ڈیجیٹل زونز آف کنٹرول" یا "مستحکم انتظامی ڈھانچہ" جیسی مثبت اصطلاحات کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ایسے ماحول میں ایک اہم سوال اُبھرتا ہے: کیا سلطنتوں کا قیام صرف ایک تاریخی تجربہ ہے، یا ایک ناگزیر سیاسی ماڈل؟

    روس کی مثال اس بحث میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اگرچہ مغرب روس پر مسلسل روسی شہنشاہیت بحال کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے، لیکن تاریخی اعتبار سے روسی شہنشاہیت مغربی سلطنتوں سے نوعیت میں مختلف رہا ہے۔ یورپی شہنشاہتوں نے عموماً نوآبادیات کو لوٹنا، استحصال کرنا اور نسل‌پرستانہ نظام قائم کرنا اپنا مقصد بنایا، جب کہ روس نے اکثر مقامی اشرافیہ کو اپنے ریاستی نظام میں شامل کر کے ثقافتی اور انتظامی انضمام کو ترجیح دی۔خصوصاً سوویت دور میں وسطی ایشیائی ریاستوں میں جو ترقیاتی کام انجام پائے، ان کے مثبت اَثرات آج بھی ان خطوں کی آبادی، تعلیم اور صحت کے نظام میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ آج کا روسی شہنشاہیت کی مکمل بحالی کا کوئی واضح ارادہ نہیں رکھتا، لیکن وہ اپنے ہمسایہ ممالک میں عدمِ استحکام یا دشمن طاقتوں کی موجودگی کو برداشت کرنے پر بھی آمادہ نہیں دکھائی دیتا۔

    ایک اور اہم پہلو جو شہنشاہی دور کی واپسی کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہ جدید ٹیکنالوجی، خصوصاً مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور ڈیجیٹل کنٹرول کے میدان میں بڑھتی ہوئی مسابقت ہے۔ اگرچہ یہ میدان بہ ظاہر روایتی تصورِ شہنشاہیت سے مختلف دِکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑی ریاستیں اور ان کے ٹیکنالوجی جائنٹس اَب "ڈیجیٹل سلطنتیں " قائم کر رہے ہیں۔ وہ ادارے جہاں ڈیٹا، نگرانی، الگورتھمز اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے ذریعے دوسرے ممالک پر بالواسطہ کنٹرول قائم کیا جا رہا ہے۔گویا روایتی جغرافیائی قبضے کی جگہ اب سائبر کنٹرول لے رہا ہے، لیکن مقصد وہی ہے: اقتدار، سلامتی اور تسلط۔ یہ ایک نئی نوع کی شہنشاہیت ہے، جس کی بنیاد فوجی قوت کے بجائے ڈیٹا، مواصلاتی نظام اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔

    تاہم شہنشاہیت کی بحالی کوئی آسان یا سستا عمل نہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سلطنتوں نے ہمیشہ اپنی وسعت اور تسلط کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک نے بیسویں صدی کے وسط میں جب اپنی سلطنتوں سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا، تو اس کی ایک اہم وَجہ یہی تھی کہ ان سلطنتوں کو سنبھالنا، اَب ان کی اقتصادی اور عسکری صلاحیتوں سے باہر ہوچکا تھا۔سوویت یونین کا انہدام بھی اسی حقیقت کا مظہر تھا۔ جب ایک ریاست اپنے وسائل سے زیادہ بوجھ اُٹھانے لگے، تو وہ خود بھی بکھر جاتی ہے۔ اس لیے یہ سوال ضرور اُبھرتا ہے کہ موجودہ دور میں سلطنتوں کی واپسی کتنی پائیدار ثابت ہوگی اور کیا ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ایک ایسے نظام کو قائم رکھنا ممکن ہے، جس کی بنیاد کنٹرول اور تسلط پر ہو؟

    اس سب کے باوجود، دنیا کے کئی خطوں میں لوگ اَب بھی ایک مستحکم، باوقار اور مربوط سیاسی نظام کے لیے ترس رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کچھ سلطنتوں کا ماضی ان کے استحصال اور تسلط کی تاریک یادگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، وہیں دوسرے علاقوں میں انھیں ترقی، عدل و انصاف، ریاستی نظم، تعلیمی مواقع اور مساوی شہریت کے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ جذبات خصوصاً ان ریاستوں کی عوام میں پائے جاتے ہیں جو آج کمزور اداروں، عدمِ تحفظ اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ایسے ماحول میں مقامی اشرافیہ اکثر قومی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور اقتدار کے لیے ایسی طاقتوں کا سہارا لیتی ہے، جو نوآبادیاتی یا سامراجی تسلط کے ساتھ قائم رہ سکتی ہیں۔

    یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ دنیا ایک نیا شہنشاہی دور شروع کرنے والی ہے، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جیسے جیسے بین‌الاقوامی ادارے کمزور ہوتے جا رہے ہیں، اور جیسے جیسے طاقت ور ریاستیں اپنے دائرہ اختیار کو وسعت دینے کے لیے پرانی راہوں کو دوبارہ کھنگال رہی ہیں، شہنشاہیت ماضی کے ایک باب کے ساتھ ساتھ، مستقبل کا امکان بھی بنتی جا رہی ہے۔

    عین ممکن ہے کہ یہ سلطنتیں روایتی ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ ڈیجیٹل کنٹرول، سیکیورٹی زونز اور مقامی اشرافیہ کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد کے ذریعے قائم کی جائیں مگر ان کی روح وہی ہو گی: طاقت ور کا کمزور پر تسلط۔ آج کی دنیا ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں پرانی طاقتوں کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اور نئی حقیقتیں سر اُٹھا رہی ہیں۔ نوآبادیاتی ورثے، معاشی ناہمواری اور سیاسی اجارہ داری کے خلاف بیداری کی لہریں مختلف خطوں میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ان حالات میں یہ فیصلہ اَب دنیا کی قیادتوں اور عوام کے فہم و شعور پر ہے کہ وہ ان اُبھرتی ہوئی حقیقتوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔کیا وہ انھیں اپنی موجودہ حیثیت و مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں، یا ایک ایسی نجات دہندہ راہ سمجھتے ہیں جو ایک زیادہ منصفانہ، خودمختار اور پائیدار عالمی نظام کی بنیاد رکھ سکتی ہے؟ یہی نقطۂ نظر اور طرزِفکر آئندہ کی عالمی سیاست، معیشت اور سماجی ساخت کے رخ کو متعین کرے گا۔


    Share via Whatsapp