جدید تعلیمی نظام اور ہم
وطنِ عزیز میں تعلیمی وشعوری پستی کی وجوہات، جدید دنیا کے تعلیمی نظاموں کی روشنی میں.
جدید تعلیمی نظام اور ہم
تحریر: محمد ارباز۔ گوجرانوالہ
کسی بھی قوم کا مستقبل وہاں کے با شعور اور مستقل مزاج محنتی افراد پر منحصر ہوتا ہے. اگراس قوم کے افراد حقیقی معنوں میں با شعور ہوں تو اُس قوم کا مستقبل ایک آفتابِ روشن کی مانند نظر آتا ہے۔کیونکہ وہ قومی سوچ کے لیے ذاتی مفاد کو قربان کرکے قومی مقاصد کے فروغ کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اور اگر اس کے برعکس اُس قوم کے افراد بےشعوری اور خودغرضی کے امراض میں مبتلا ہوں تو وہ قوم ترقی کے بجائے زوال اور پستی کا شکار ہوجاتی ہے.یہاں علم اور شعور میں فرق کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔
زوال آمادہ نظام میں اصطلاحات کے معنی و مفاہیم ہی بدل جاتے ہیں۔ ایسےمیں حصول علم سے مراد صرف ملازمت اورذاتی مفاد کا حصول رہ جاتا ہے اور تحقیق و تجزیے کی صلاحیت دب جاتی ہےایسی صورت میں شعور کا حصول مشکل لگنے لگتا ہے۔ہر قدم پر مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے. اور جو تعلیمی نظام تربیت کے بجائے محض رسمی معلومات کا ذخیرہ ہو تو اس میں کہیں بھی شعور اور قومی مفاد کی سوچ پیدا ہی نہیں ہونے دی جاتی ۔ اس بات کو ہم دوسرے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں اکثر رشوت لینے والے پڑھے لکھے ہوتے ہیں کیونکہ گورنمنٹ کی اعلی و ادنی انتظامی پوسٹوں پر نام نہاد پڑھے لکھے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو اپنی حیثیت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور عوام پر جبر کرتے ہیں اب جب تعلیم محض رسمی معلومات پر منحصر ہوگی اور اس میں شعور اور تربیت کو جگہ نہیں دی جائے گی تو موجودہ مذکورہ نتائج کا پیدا ہونا فطری عمل ہے.
آج دنیا کے جدید ممالک علم وشعور کی اہمیت جانتے ہوئے نت نئے تعلیمی نظاموں کی مدد سے اپنے نوجوان کو تعلیم یافتہ اور باشعور بنا رہے ہیں اور یہی شعور ان افراد کے اندر قومی مفادات کی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے. کہنے کو تو آج وطنِ عزیز میں بھی یونیورسٹیز اور کالجز کی بھرمار ہے... یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا ہمارے نوجوان بھی اتنے ہی تعلیم یافتہ اور قومی سوچ سے آراستہ ہیں؟
ہم سب کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہوگا. اس کی سب سے بڑی وجہ وہ تعلیمی نظام ہی ہے جو غالب قوم (برطانیہ) کے دوسرے شعبوں یعنی معاشیات ، سماجیات اور اخلاقیات کی طرح ہم پر مسلط کیا گیا.
اسی لیے اگر کوئی بھی تعلیمی نظام کسی علاقے کے لوگوں کی ضرورت اور ذہنی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے نہ بنایا جائے تو وہ نظام اپنے نتائج پیدا نہیں کرسکتا اور اگر وہ مسلط شدہ تعلیمی نظام غلامی کے دور کے تعلیمی نظام کی ہی جدید شکل ہو تو اس سے بہتر نتائج کی توقع رکھنا اپنے آپ میں ہی ایک لا علمی ہے.
جب ہم موجودہ دور کے جدید تعلیمی نظاموں کی بات کرتے ہیں تو فن لینڈ، ڈنمارک، سویڈن، جاپان، چین، روس، کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ممالک نظر آتے ہیں جہاں کے عوام کی ذہنی سطح قومی تقاضوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔ان کی ترقیات سے ان کے تعلیمی نظام کے نتائج واضح ہوتے ہیں. افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد لیڈروں کی ترجیحات میں تعلیمی نظام کی بہتری کےلیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے عوام کو باشعور دیکھنا چاہتے ہیں. اس کا اندازہ ہم درج ذیل اعدادوشمار سے لگا سکتے ہیں.
اس وقت وطنِ عزیز کا سالانہ تعلیمی بجٹ کل جی ڈی پی کا 2.4 ٪ہے. جبکہ چین کا 2019 کا تعلیمی بجٹ 520 بلین ڈالرز ہے جوکہ چین کے ٹوٹل بجٹ کا 4.11٪ بنتا ہے. اور امید کی جا رہی ہے کہ 2020کے آخر تک پاکستان کا کل جی ڈی پی 340 بلین ڈالر ہو جا ئے گا جبکہ ستمبر 2020 تو یہ ٹارگٹ بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا. اس دہائی میں کیوبا وہ واحد ملک ہے جو اپنے کل جی ڈی پی کا 12 ٪ تعلیم پر خرچ کر رہا ہے اور انقلاب کے بعد اپنے عوام کی تعلیم و تربیت اور شعور کی بلندی کےلیے سنجیدہ اقدامات کرتا نظر آتا ہے.
اب اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں کی بات کریں تو 22 کروڑ کی آبادی کےلیے و طنِ عزیز میں صرف 174 یونیورسٹیز ہیں جن میں سے پنجاب میں 68، سندھ 56،خیبر پختون خواہ 41، بلوچستان 8 اور آزاد کشمیر میں صرف ایک یونیورسٹی ہے اور ایک اندازے کے مطابق وطنِ عزیزمیں کل طلبہ کا صرف 9 ٪ ہی یونیورسٹیز تک جا پاتے ہے.اس ساری صورتحال میں کہ جہاں بنیادی تعلیم کا مسئلہ اتنا سنگین ہو تو وہاں ہم شعور کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟ جبکہ شعور تو تعلیم و تربیت کے بعد والی منزل ہوتی ہے، ان باتوں سے ہم اپنے تعلیمی نظام کی فرسودگی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں. اور افسوس کہ موجودہ اداروں میں بھی وسائل کی کمی کا رونا ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں.اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے حوالے سے ہر آنے والی ہرحکومت عوام کو لولی پوپ دیتی نظر آتی ہے.
تعلیم و تربیت حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی انسانی حق ہے اور جو ریاستیں اپنے عوام کے اس حق کو ان تک بہتر انداز میں پہنچاتی ہیں وہی دنیا میں عزت و عظمت کی حقدار قرار پاتی ہیں۔ اعلٰی مقاصد کا حامل تعلیمی نظام ہی با شعور افراد پیدا کر سکتا ہے اور یہی با شعور افراد آگے چل کر اپنی قوم اور پوری دنیا کے عوام کےلیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں.
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ذہنی آزادی نصیب فرمائیں، اعلٰی تعلیمی نظام قائم کرنے اور اس کے نتیجے میں اپنا قومی معاشی، معاشرتی اور سماجی نظام غالب کرنے کی توفیق عطا فرمائے. تاکہ وطنِ عزیز میں بسنے والے لوگوں کو امن اور چین نصیب ہو ۔اور آگے چل کر اس کے نتائج پوری دنیا کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں۔ آمین