سعودی عرب تبدیلی کی راہ پر
سعودی عرب کی موجودہ تاریخ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ بغاوت سے شروع ہوتی ہے، جب شریف مکہ نے برطانویے انتہا تیل کی دولت ہے۔
سعودی عرب تبدیلی کی راہ پر
تحریر؛ راؤ عبدالحمید۔لاہور
سعودی عرب کی موجودہ تاریخ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ بغاوت سے شروع ہوتی ہے، جب شریف مکہ نے برطانوی انگریزوں سے ساز باز کر کے سلطنت عثمانیہ کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔ اس کے بدلے میں برطانوی سامراج نے اسے اس خطے کی حکومت کچھ شرائط پر دینے کی آمادگی کرلی۔ اس وقت ابھی تیل کی پیداوار شروع نہیں ہوئی تھی، لیکن تحقیق یہ ثابت کر چکی تھی کہ عرب میں بے انتہا تیل کی دولت ہے۔ یہ مستقبل کے صنعتی دور کی سب سے قیمتی شے ہے۔ جب کہ عربوں میں ابھی اونٹ ہی بہترین سواریوں میں شمار ہوتا تھا۔ انگریز سامراج دو بڑے مقاصد سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کر رہا تھا، ایک تو تیل کے بڑے ذخائر پر اس کا قبضہ ہوگا اور حجاز مقدس سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کو سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کرنا آسان رہے گا۔شریف مکہ نے انگریز پرستی میں برصغیر کے عظیم انقلابی لیڈر، تحریک آزادی کے روح رواں شیخ الہند مولانا محمود حسن کو بھی انگریز سامراج کے حوالے کر دیا تھا اور انگریز نے انھیں مالٹا قید کر دیا، جس سے برصغیر کی تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ کچھ سالوں بعد شریف مکہ کو ابن سعود کی مدد سے شکست دی اور ابن سعود کو نجد کے ساتھ حجاز کی حکومت بھی ہدیہ کردی۔ آل سعود کے نام پر ریاست کا نام سعودی عرب رکھا گیا۔ امریکا نے تیل کے ذخائر پر اپنی کمپنیوں کا قبضہ کروایا، تیل کی آمدن کا کچھ حصہ سعودیہ کو دیا۔ بغیر کسی مشقت کے حاصل کی گئی یہ آمدن کافی بڑی تھی ۔ سعودیہ کے راستے سے امت مسلمہ میں ہر سیاسی ایجنڈے کی بھی تکمیل ہوتی رہی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سعودی معاہدے کے تمام اختیارات برطانوی سامراج سے امریکی سامراج کو شفٹ ہو گئے۔سعودیوںنے اس شفٹ کوبھی خوب نبھایا-آل سعود نے بادشاہت کے ساتھ ،خادم الحرمین شریفین کا لقب بھی جوڑ لیا۔ سادہ لوح مسلمان ایسی چالوں کو گہرائی سے کہاں سمجھ پاتا ہے۔ وہ حرمین اور اس سے منسوب ہر چیز کو عقیدت سے دیکھتا رہا۔انقلاب سے پہلے ایران اس خطے میں امریکا کا سب سے بڑا حلیف تھا جو جنوب ایشیا میں امریکا کے مفادات کا محافظ تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد یہ سارا دفتر بھی سعودی عرب پہنچ گیا۔ اب سعودی عرب جنوب ایشیا کا امریکی دفتر قرار پایا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں شدت پسندی پھیلانے کی باضابطہ ذمہ داری سعودی عرب نے خوب پوری کی۔ اپنے ملک میں اور باقی اسلامی دنیا میں سخت گیر نظریات (وہابی اسلام) کو خوب فروغ دیا۔ مخصوص لباس، عبایہ، داڑھی اور دیگر مذہبی امور میں شدت کو فروغ دیا۔ علاقائی ثقافت کو پس پشت ڈال کر غیرفطری سخت مذہبی رجحانات پیدا کیے۔ قتل و قتال کو کل اسلام بنا کر پیش کیا۔ مسجدوں اور مدرسوں کی تعمیر میں بھرپور فنڈنگ کی۔ ان مدارس نے انتہا پسندی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔خاص طور پر پاکستان اس سعودی عتاب کے زیادہ زیر اثر آیا۔
مدارس کے ساتھ ساتھ کالج یونیورسٹیوں میں بھی شدت پسند وہابی مذہب خوب پروان چڑھا۔ایک طرف مدارس عوامی حلقوں میں شدت پھیلاتے رہے تو دوسری طرف خواص میں یہ کام یونیورسٹیز کے ذریعے پورا ہوا۔ یہ سارا اسلام خواتین کے لباس اور دیگر معاملات کے گرد گھومتا رہا، یا سامراجی جہاد کے لیے شدت پسند پیدا کرتا رہا۔ اس عمل نے مجموعی طور پر مسلمانوں کے معتدل رویوں پر کاری ضرب لگائی۔ چوں کہ یہ شدت غیرفطری تھی اور ایک خاص ہدف کے حصول کے لیے تھی، اس کو زیادہ عرصہ نہیں چلایا جا سکتاتھا۔ معاشرے ہمیشہ سے رواداری سے فروغ پاتے ہیں۔ مذہبی سختی سے تو صرف فرقے وجود برقرار رکھتے ہیں۔
امریکا کی مستقبل میں کمزور ہوتی گرفت اور تیل کی پیداوار پر کم ہوتا انحصار، سعودی عرب میں ایک تبدیلی کا تقاضا کر رہا ہے۔ اب عرب اپنے آپ کو دنیا کے لیے ترقی پسند ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی آمدن جو زیارت مقدسہ سے حاصل ہوتی ہے اور تیل کی مصنوعات پر انحصار کم کرکے دیگر ذرائع آمدن پیدا کرنا چاہتا ہے،اس کے لیے اس نے کئی سال پہلےویژن 2030 ء دیا- اب یہ ویژن آگےبرھایاجارہا ہے۔ اس ویژن میں بڑی آمدن کا ذریعہ سیاحت اور اسباب تعیش کو ترجیح بنایا گیا ہے۔ اس کے لیے انتہائی نرم مزاج مذہبی عقائد کی ضرورت ہے۔ سعودیہ میں سینما، جوا خانے، شراب شباب، موسیقی کے کنسرٹس، کھیلوں کا انعقاد وغیرہ کو خوب فروغ دیا جا رہا ہے۔
رجعت پسند وہابی مزعومات میں خواتین کو غیرمرئی مخلوق بنا کر پیش کیا جاتا بے- اب یک لخت سب کچھ الٹاجارہا ہے،جس ایجنڈے کے تحت سخت گیر اقدارکو فروغ ملا اسی ایجنڈے پر اب بے توقیر اقدار کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اسلا م کہیں بھی پیش نظر نہیں تھا۔ اس پالیسی کے راستے میں جو بھی رکاوٹ آئے گی، وہ اسے دور کریں گے۔ چاہے وہ تبلیغی اسلام ہو یا دعوتی اسلام، چھ نمبروں والا ہو یا سنتوں بھرا ۔
سعودی عرب کے وظیفہ خوار جو اسے اسلام کو رول ماڈل قراردیتے تھے،اس کے تشہیری سائن بورڈ بنے ہوئے تھے، آج بغلیں جھانکنے پر مجبور ہیں۔ باشعور طبقہ شروع دن سے ہی اس حقیقت سے باخبر تھا اور آگاہ کرتا رہا کہ اس اسلامی لبادے میں اسلام کے سوا سب کچھ چل رہا ہے۔ اسلام کے نام پر ہی مسلمانوں کو ادھیڑا اور بکھیرا جارہا ہے۔ عراق اور شام کی بربادی ہو، فلسطین کے مقابل اسرائیل کی حمایت سب ایک ہی سلسہ کی کڑیا ں ہیں۔ یمن کاانتشار ابھی نہیں معلوم کتنی قربانیاں لے گا۔ مسلمان جس قدر اپنے مذہب سے محبت رکھتے ہیں، انھیں اسی راستے سے ڈسا جاتا ہے۔ اس کے لیے دین کو شعوری اور حقیقی بنیادوں پر سمجھنا عصر حاضر کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے،تاکہ مسلم نوجوان مذہبی انتہا پسندی اور لبرل انتہاپسندی کے حملوں سے محفوظ رہ سکے اور حقیقی دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے۔