جاپان کا تعلیمی نظام: مقاصد اور نتائج
جاپان نے پچھلی کئی دہائیوں میں اپنے نوجوانوں کی تربیت کا ایسا نظام بنایا جو دنیا بھر کے بہترین تعلیمی نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔
جاپان کا تعلیمی نظام: مقاصد اور نتائج
تحریر: ڈاکٹر محمد شعیب اختر۔جاپان
کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام اس ملک کے مستقبل کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔اگر کسی ملک کا تعلیمی نظام آنے والی نسل میں تخلیقی سوچ، عملی صلاحیتیں، تجزیہ کرنے کی اہلیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کرے گا تو آنے والے وقت میں اس ملک کی حیثیت تبدیل ہو جائے گی۔ اور وہ ترقی کی راہوں پر تیزی سے گامزن ہو جائے گا۔ اس کی مسلمہ مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اور بعد کا عرب معاشرہ ہے ۔
اس دور میں دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں جاپان بھی شامل ہے، جس نے اپنے تعلیمی نظام کو صحت مندانہ خطوط پر استوار کیا ہے، جس سے فارغ التحصیل افراد ایک قومی سوچ کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی میں مصروف عمل ہیں۔ داخلی خارجی اور دیگر اہم شعبے تو براہ راست استعمار کے زیراثر ہیں۔لیکن کئی ادارے اور شعبے صرف بالواسطہ استعمار کے کنٹرول میں ہیں، جن میں سے ایک تعلیمی نظام بھی ہے۔ کسی ملک کے تعلیمی نظام کا بیرونی مفادات اور اثرات کے زیر اثر ہونا کسی بھی دوسرے شعبے کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
ایک مخصوص سوچ اور نظریہ فکر پر مرتب کردہ نظام سے اسی طرح کے افراد نکلتے ہیں جنہیں بیرونی طاقتیں اور استعمار استعمال کر سکتا ہےاور اس کے برعکس صورت حال مختلف ہوتی ہے۔
آج اس مضمون کے ذریعے ہم جاپان کے تعلیمی نظام کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
جاپان کا تعلیمی نظام فن لینڈ کے بعد دنیا کا سب سے بہترین تعلیمی نظام مانا جاتا ہے۔ وہ حضرات جن کو کبھی جاپان جانے یا جاپانی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہو اس بات کو بہ خوبی جانتے ہیں کہ جاپانی اپنی سالوں پرانی ثقافت پر آج بھی عمل پیرا ہیں۔ آج کا جاپان جدید ترین ایجادات اور قدیم جاپانی ثقافت کا امتزاج ہے۔ یہ ثقافت بھی دیگر انسانی ثقافتوں کی طرح اعلیٰ اخلاقیات کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ ہرجاپانی اسی ثقافت اور روایات کا امین ہے اور ہر دن ہر لمحہ اسی پر عمل پیرا رہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا جاپان اس جنگ سے پہلے کے جاپان سے مختلف ہے۔ گو کہ جاپانی ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے مگر دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے عسکری شعبہ سے توجہ ہٹا کر عدم تشدد کی بنیاد پر معاشرہ کو تشکیل دیا ۔یہی معاشرہ جدید صنعتی جاپان کی بنیاد بنا۔
اس جدید جاپان میں سکولوں میں ابتدائی سالوں کے دوران صرف اخلاقیات اور جاپانی ثقافت سکھلائی جاتی ہے۔ ابتدائی سالوں میں سیکھے ہوئے یہی اصول زندگی بھر جاپانیوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان ابتدائی سالوں کے بعد سکول میں جغرافیہ، ریاضی اور سائنس کے دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے پرپوری توجہ دی جاتی ہے۔ کلاس میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل تعلیم کا لازمی حصہ قرار دی جاتی ہے۔ کیوں کہ ایک مقصد کا تعین، اس کے لیے جدوجہد اور اس جدوجہد کے نتیجے میں کامیابی یا شکست کا سامنا اور اس کے بعد کے مراحل سیکھنے کے لیے کھیل کا میدان ایک مثالی جگہ ہے۔ ہائی سکول مکمل کرنے کے بعد طلبہ یا تو ٹیکنیکل ٹریننگ کےاداروں کا رخ کرتے ہیں یا دیگر سماجی علوم کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں چلے جاتے ہیں۔ پہلا طبقہ جاپان کے صنعتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جب کہ دوسرا طبقہ اس صنعتی نظام کو جدید سے جدید تر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
بیش تر قارئین اس بات سے واقف ہوں گے کہ آج سے کم و بیش بیس سال قبل مارکیٹ میں روز مرہ استعمال کی ہر چیز" میڈ ان جاپان" کے بیج کے ساتھ موجود ہوتی تھی مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تمام مصنوعات مارکیٹ سے ختم ہوگئیں، جن کی جگہ دیگر کمپنیوں کی پروڈکٹس نے لے لی۔ مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ جاپان آج بھی دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان روزمرہ استعمال کی مصنوعات کا مارکیٹ سے ختم ہو جانا بھی کاروباری مقابلہ کی وَجہ سے نہیں بلکہ جاپان کا اپنا پلان تھا؟ اور کس طرح اس کے بعد جاپان نے نوجوانوں کی مدد سے اپنی معیشت کو نئی شکل دی؟
دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے اپنی معیشت کو روز مرہ استعمال کی اشیا پیدا کرکے سنبھالا۔ کیوں کہ جاپان اپنی معیشت محض زراعت اور کان کنی جیسی قدرتی صنعتوں سے چلا سکتا تھا۔ اس لیے جاپان نے آٹو موبائل اور الیکٹرونکس کی انڈسٹری قائم کی۔کوالٹی اور کوالٹی میں مسلسل / لگاتار ترقی کے نتیجے میں یہ مصنوعات بہت جلد دنیا میں مقبول ہو گئیں،جس کے بعد الیکٹرونکس ہو یا آٹوموبائل ہر سمت جاپانی مصنوعات ہی معیار سمجھی جاتی ہیں۔
پاکستان کے رقبہ کےمقابل ایک تہائی رقبہ جو کئی جزیروں پر مشتمل ہے اور سکڑتی ہوئی آبادی کے پیش نظر جاپان کو آئندہ آنے والے سالوں کے لیے ایک ایسا منصوبہ بنانا تھا، جس میں کم آبادی کے باوجود جاپانی معیشت کی برتری دنیا بھر میں قائم رہے۔
جاپان نہ تو اپنے نوجوانوں کو وہاں موجود صنعتوں میں صرف بہ طور مزدور استعمال کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی اسےکوہلو کے بیل جیسی زندگی عطا کرنا چاہتا تھا۔ جاپان نے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو منوانے کا فیصلہ کیا اور وہ صلاحیتیں پچھلے کئی سالوں سے تعلیمی نظام کےذریعے پیدا کرتا رہا تھا ۔پلان کے تحت جاپان نے روزمرہ کی اشیا کی پیداوار بند کرنے اور اس سے اگلے درجے کی صنعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا اس صنعت کو ہائی ٹیک انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ یہ انڈسٹری دنیا بھر میں ہونے والی جدید ترین تحقیق کی بنیاد پر مستقبل میں استعمال ہونے والی اشیا بناتی ہے۔ آج جاپانی انڈسٹری یہی اشیا پیدا کر رہی ہے اور جاپانی یونیورسٹیاں اور ریسرچ کے ادارے اسی انڈسٹری کے تعاون سے تحقیق میں مشغول ہیں۔
روز مرہ استعمال کی مصنوعات سے ہائی ٹیک انڈسٹری کی طرف جاتے ہوئے بھی جاپانی کمپنیوں نے دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا فیصلہ کیا اور جاپانی کمپنیوں نے ان مصنوعات کی صنعت کو ہمسایہ ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ وغیرہ کوآؤٹ سورس کر دیا۔ آج جاپانی نوجوان نئے تعلیمی نظام کی وجہ سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر نئی سے نئی ایجادات کر رہے ہیں اور جاپانی کمپنیاں ان مصنوعات کو آؤٹ سورس کر کے پیداوار کرواتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جاپان جدید دنیا میں تحقیق کا مرکز اور آنے والی دنیا کو جدید شکل دینے والا ملک ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
آج جاپان کی معیشت روبوٹکس، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور بائیو ٹیکنالوجی جیسی جدید صنعتوں پر مبنی ہے۔ یہ صنعتیں عام طور پر اسٹارٹ اپس Startups کے ذریعے نت نئی مصنوعات متعارف کرا رہی ہیں اور ان سٹارٹ اپس کو چلانے والے عام جاپانی نوجوان ہیں۔ جب کہ جاپانی کمپنیاں مسلسل ان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ جاپان نے اپنے نوجوان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے اپنے آج اور کل کی بنیاد رکھی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔
آج ہمیں بھی اپنے ہاں انسانی و اجتماعی فکر کی بنیاد پر ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ جو نہ صرف ہمیں دورِ حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق سوسائٹی کے تمام شعبوں کے لیے علم و ہنر سے آراستہ افراد مہیا کرے، بلکہ انھیں اعلیٰ اخلاق کا خوگر بنائے۔ تاکہ وہ قومی خدمت اور انسانی فلاح کے جذبے سے قومی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں۔