جنگ کا کاروبار: امریکی معیشت کا خاموش ہتھیار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جنگ کا کاروبار: امریکی معیشت کا خاموش ہتھیار

    دنیا بھر میں جب بھی جنگ کی گھنٹیاں بجتی ہیں ایک نام اکثر پسِ پردہ فائدہ اٹھانے والے کے طور پر ابھرتا ہے امریکہ۔

    By محمد صداقت طلحہ Published on Jun 23, 2025 Views 135

    جنگ کا کاروبار: امریکی معیشت کا خاموش ہتھیار

    تحریر: محمد صداقت طلحہ۔ وہاڑی

     

    دنیابھر میں جب بھی جنگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں، ایک نام پسِ پردہ فائدہ اُٹھانے والے کے طور پر اکثر نمایاں ہوتا ہے: امریکا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے امریکی پالیسیوں میں یہ رجحان مستقل طور پر دیکھا گیا ہے کہ خود جنگ میں براہِ راست شریک ہوئے بغیر، اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ضرور اُٹھایا جائے۔ چاہے وہ یورپ میں سردجنگ کا دور ہو یا مشرقِ وُسطیٰ میں خونریز تنازعات، امریکا نے ان تمام بحرانوں کو اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے لیے استعمال کیا اور اسلحہ فروخت کے ذریعے اپنی معیشت کو تقویت دی۔

    یہ پالیسی آج بھی برقرار ہے اور 2025ء کے واقعات اس کی تازہ مثال ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والی نئی کشیدگی نے امریکا کو ایک بار پھر اسلحہ فروش کی حیثیت سے عالمی منظرنامے پر نمایاں کر دیا ہے۔ 22 اپریل 2025ء کو بھارتی زیرِانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کا اِلزام پاکستان پر عائد کیا گیا، جس کے بعد بھارت نے 7 مئی کو "آپریشن سندور" کے تحت پاکستانی حدود میں میزائل اور فضائی حملے کیے، جن کا پاکستان نے مؤثر جواب دیا۔ بالآخر 10 مئی کو دونوں ممالک نے سیزفائر پر آمادگی ظاہر کی۔

    تاہم ان جھڑپوں کے فوراً بعد سامنے آنے والی پیش رفت کی اصل کہانی کی جھلک دِکھاتی ہے۔ بھارت نے امریکا سے 131 ملین ڈالر مالیت کا جدید نگرانی کا بحری نظام خریدنے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان Javelin میزائل، Stryker بکتر بند گاڑیوں اور P-8I طیاروں کی خریداری پر بھی اتفاق ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ جنگی فضا پیدا ہونے سے پہلے ہی اسلحہ کی خریداری کے خدوخال طے کیے جا چکے تھے۔

    یہ پہلا موقع نہیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ میں بھی امریکا نے فوجی طور پر مداخلت نہیں کی، مگر اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن کر اُبھرا۔ مارچ 2025ء میں اگرچہ واشنگٹن نے عارضی طور پر امداد اور انٹیلیجنس تعاون روک دیا تھا، مگر جلد ہی امریکا نے روس اور یوکرین کے درمیان 30 روزہ جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ اس ثالثی کو "اَمن کی کوشش" کے طور پر پیش کیا گیا، مگر درحقیقت اس کے پسِ پردہ ایک نئی دفاعی صف بندی کی بُو صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔

    غزہ میں جاری تباہ کن انسانی بحران بھی امریکی طرزِعمل کو بے نقاب کرتا ہے۔ 4 جون 2025ء کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کو امریکا نے صرف اس بنیاد پر ویٹو کردیا کہ اس میں حماس کی مذمت شامل نہیں تھی۔ یہ فیصلہ اس وقت مزید متنازع ہوگیا جب 12 اور 13 جون کی درمیانی شب اسرائیل نے "آپریشن رائزنگ لائن" کے تحت تہران میں ایرانی سائنس دانوں اور جنرل حسین سلیمی کو نشانہ بنایا۔ اگرچہ امریکا نے حملے میں شریک ہونے سے انکار کیا، لیکن اسرائیل سے قریبی روابط کی تصدیق ضرور کی۔

    ان واقعات کے پس منظر میں امریکی کردار ایک واضح دوغلی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک طرف سعودی عرب جیسے عرب ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدے جاری ہیں، تو دوسری طرف ایران جیسے ممالک کو مسلسل دھمکیوں اور حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہی تضاد اسلامی دنیا میں امریکا پر اعتماد کے فقدان کو مزید گہرا کررہا ہے۔

    درحقیقت امریکا کے لیے جنگ محض ایک سفارتی یا عسکری حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک مکمل صنعتی زنجیر ہے۔ جہاں کہیں بھی بارود کی بُو اٹھتی ہے، وہیں امریکی معیشت میں نئی جان ڈال دی جاتی ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیاں، لابیز اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اپنے سودی مفادات کی تکمیل کے لیے دنیا کے پس ماندہ خطوں کو ایندھن بناتے ہیں، جب کہ خود امریکا اور اس کے اتحادی محفوظ و مستحکم رہتے ہیں۔

    ان تمام مظالم کا سب سے بڑا شکار اُمتِ مسلمہ بنی ہے۔ شام، لیبیا، یمن، افغانستان، فلسطین، سوڈان اور اَب غزہ میں لاکھوں مسلمان امریکی پالیسیوں کے براہِ راست یا بالواسطہ شکار بنے۔ انسانیت کے نام پر انسانوں کا قتلِ عام ہوا، اور المیہ یہ ہے کہ انھی مظلوموں پر "دہشت گرد" کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔ امریکا نے نہ صرف عسکری حملے کیے، بلکہ میڈیا اور سفارت کاری کے ذریعے مسلمانوں کو جہاد کے نام پر بدنام کیا جو مسلمان اپنے گھروں کی حفاظت کررہے تھے، وہی دہشت گرد قرار پائے، جب کہ خود امریکا کے ہاتھ عراق، افغانستان، غزہ اور تہران تک بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

    یہ پروپیگنڈا اس قدر طاقت ور رہا کہ مغرب میں اسلاموفوبیا نے جڑیں پکڑ لیں۔ مسجدیں نشانہ بنیں، مسلمانوں کو ملازمتوں، تعلیم اور معاشرتی زندگی میں دیوار سے لگا دیا گیا۔ اسلامی دنیا کو کمزور، منتشر اور بدنام کر کے امریکی سامراج نے نہ صرف اپنے دشمن کم کیے، بلکہ اسلحہ بھی خوب فروخت کیا۔ وہ دنیا کے سامنے اَمن کے نعرے لگا کر خود کو مصلح ظاہر کرتا رہا، جب کہ حقیقت میں تمام بڑے تنازعات کا سب سے بڑا محرک وہی رہا ہے۔

    آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا وہ عالمی طاقتیں، جنھیں "اَمن کے محافظ" کہا جاتا ہے، دراصل "جنگ کے منتظم" تو نہیں؟ کیوں کہ جب بھی اَمن کی بات کی جاتی ہے، اس کے نیچے کسی نئی اسلحہ ڈیل کا خفیہ خاکہ چھپا ہوتا ہے اور جب بھی کوئی خطہ آگ میں جھونکا جاتا ہے، امریکی معیشت کی بھٹی مزید گرم ہوجاتی ہے۔ دنیا کو اَب اس طرزِعمل کو پہچاننا ہوگا، ورنہ مشرقِ وُسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقا کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی—اور امریکا، جنگ سے باہر رہ کر بھی ہمیشہ اس کا فاتح کہلاتا رہے گا۔ 


    Share via Whatsapp