خطہ کے بدلتے عالمی حالات
پاکستان اور انڈیا کے اندرونی حالات کی خرابی اور اس کا فائدہ کس کو ہے۔ سامراجی ملکوں کا کردار اور مفادات کی چپقلش
خطے کے بدلتے عالمی حالات
تحریر: سعد خان، مری
1979 میں افغانستان سے روس کےانخلا اور پھر 1991 میں سوویت روس کی 15 ریاستوں کی اندرونی خودمختاری کے عمل نے روس کی طاقت کے بارے میں امریکہ کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیا۔یونی پولر طاقت امریکہ نےسپر پاور آف دی ورلڈکےطور پراپنا تعارف کروایا اور ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بھی قائم کرنا شروع کردیا۔ ٹیکنالوجی اور کاروبار میں اس نے دنیاکواپنی خواہش کے مطابق چلانے کی کوششیں شروع کردیں اورکمزور ممالک کی معشیت پر اپنا قبضہ قائم کرنا شروع کردیا۔جغرافیائی لحاظ سے اہم ملکوں میں شورش برپا کروائی گئی اور اپنے مد مقابل ملک کو بڑھنے سے روکا گیا۔روس کو پوری دنیا سے کاٹنےکی پوری کوشش کی لیکن روسی قیادت نےدور رس اور مدّبرانہ فیصلوں کی بدولت یورپ میں اپنا اثر و رسوخ اور تجارتی سرگرمیاں الغرض سیکورٹی اور سماجی معاہدات قائم کر کے امریکی منصوبے کو جزوی طور پر ناکام کر دیا۔ادھر چین نے عدم تشدد اور دھیمی رفتار سے خطّے میں اپنا اثر و رسوخ مسلسل بڑھانے کی کوشش جاری رکھی۔ چین نے دنیا میں اپنا اثر و رسوخ قاہم کرنے کے لیے تجارت کو ایشیا،افریقہ،یورپ اور امریکہ تک بڑے تدبر کے ساتھ بڑھایا اور یوں امریکہ کو بیرونی قرضوں اور سب سے بڑی فارن انویسٹمنٹ کے ذریعے سے قابو کرنے کی بساط بچھا دی۔ یوں عالمی فورم پر اب امریکہ کو اپنے پلانز پر عمل درآمد کروانے کے لیے چین اور روس کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں تک رسائی خطے کے اہم ممالک روس اور چین کی ترجیحات میں شامل ہے۔ کیونکہ جو ٹیکنالوجی انھوں نے حاصل کر لی ہے اور اس پر جدید صنعت کو استوار کر لیا ہے اب اپنی پراڈکٹس کو فروخت کرنے کے لیے منڈیوں کی ضرورت ہے۔
چین نے رواں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ، one belt one road شروع کر کے ایشیا، افریقہ اور یورپ کے 70 سے زیادہ ملکوں کو ایک ٹریک کے ذریعے ملانے کی کوشش دراصل ان ممالک میں آسان اور کم کرائے کے خرچ کے عوض اپنی تجارتی پہنچ حاصل کرنا ہے۔ عالمی تھانے دارکو اب یہ عمل کسی صورت برداشت نہیں ہے کہ اس خطے میں تجارتی سرگرمیاں شروع ہوں اور اس کا بوریا بستر گول ہو۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ان سامراجی ملکوں نے پوری دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور جس ملک میں ذرا سا بھی اپنے حقوق اور اہمیت کا خیال پیداہوا وہ ملک سامراج کی شاطرانہ چالوں اور ایونٹ create کرا کر اس کی ناراضی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ عراق، لیبیا، مصر، شام، افغانستان، یمن، ایران اور پاکستان سب کے سب ملکوں میں ایک نئے انداز کے ساتھ ایسے ایونٹ create کرا کے ان کو دبا دیا جاتا ہے۔جوں ہی پاکستان کے ہاں ریجنل ازم کا شعور پیدا ہوا اور اس نے خطہ کے ممالک کے ساتھ معاہدات کرنے شروع کیے تو سامراجی ممالک کی مذمت، دھمکی اور تکلیف ہمیں بہت سارے ایونٹس کی صورت میں نظر آنے لگی۔ دہشت گردی کے عفریت کو جب شکست ہوئی امن و امان قائم ہوا، CPEC میں پیش رفت ہوئی تو اندرونی محاذ پر ملک کو کمزور کرنے کی نئی سے نئی تدبیر کی جارہی ہے۔امریکہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ چین اور روس کو آگے بڑھنے کا موقع ملے اور ان کو بڑی منڈیاں میسر آ جائیں۔ لڑائی اس وقت بیلوں کی ہے اور سینگ آپس میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اکھاڑا ان کا نہیں ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ جیتتا کون ہے اور ہارتا کون ہے۔پاکستان کیوں کہ نہایت اہم محل وقوع رکھتا ہے اس کےسمندروں کے ذریعے چین اور روس کوایشیا اور افریقہ کے کئی ملکوں کے ساتھ نہایت آسان اور سستا تجارتی راستہ میسر آ رہا ہے۔ ملک کی عوام کو سٹرکوں پر لانا، دھریت کے خطرے کی گھنٹی ایک بار پھر بجانا،یا پھر مستقبل کی اہم تجارتی گزر گاہیں بننے والی جگہوں پر حالات خراب کراناچاہے وزیرستان ہو یا کشمیر ، یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ باز آجاؤ۔
سامراج ہمیشہ اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے اس کے ہاں کوئی دوستی یا رشتہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہے وہ کشمیر کےحالات ہوں، پاکستان کے لیےجنگ کا خطرہ ہو، سکھوں کا معاملہ ہو یا ہندوستان میں شہریت کی بنیاد پر اندرونی حالات کی خرابی ہی کیوں نہ ہو ان سب کے محرکات چاہے جو بھی ہوں اس کا لامحالہ نقصان پورے خطے کو ہے اور فائدہ تیسری قوت کا ہے۔ ہندوستان کی کند ذہن لیڈرشپ کو ریجن اور ریجن کے ساتھ بقاکے فلسفےکا شاید ادراک نہیں ہے اور سامراج اب کی بار شطرنج کی بازی شاید ہندوستان کی سرزمین پر کھیلنےجا رہا ہے۔