بائیکاٹ: پراڈکٹس کا یا نظام کا؟
ہم انتہائی عجلت پسند، جذباتی، بے شعور اور اندھی تقلید کرنے والی قوم ہیں۔اسرائیل فلسطین معاملے پہ شاید ہی۔۔۔۔

بائیکاٹ: پراڈکٹس کا یا نظام کا؟
تحریر: محمد علی۔ ڈیرہ اسماعیل خان
ہم انتہائی عجلت پسند، جذباتی، بے شعور اور اندھی تقلید کرنے والی قوم ہیں۔اسرائیل فلسطین معاملے پہ شاید ہی کچھ لوگ تاریخی حقائق سے آشنا ہوں،لیکن عمومی بیانیہ جذبات پہ مبنی ہے۔ ہر بندہ نعرے لگا رہا ہے کہ یہودیوں کا حل فلاں فلاں مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔
اس مقام پر یہ شعوری جائزہ لینے کی ضورت ہے کہ کیا یہ یہودیوں اور مسلمانوں کی مذہبی لڑائی ہے؟ تو ایسا قطعاً نہیں، کیوں کہ دنیابھر بلکہ خود فلسطین کے یہودی بھی صہیونی اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی مسلمانوں کے شانہ بشانہ اپنی قومی آزادی کی جنگ میں شریک ہیں۔ تو اول تو یہ جنگ مذہبی نہیں، بلکہ غزہ کے قدرتی وسائل پہ قبضے کی جنگ ہے۔ اگر یہ جنگ مذہبی ہوتی تو ربی یہودی اسرائیل کے مخالف نہ ہوتے۔
مسئلہ فقط یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کی صورت میں مشرقِ وُسطیٰ میں اپنی مضبوط فوجی چھاؤنی رکھنا چاہتا ہے، تاکہ اس چھاؤنی کے ذریعے افراتفری اور پراکسی جنگیں کروا کر مشرقِ وُسطیٰ میں اپنی پسند کی کمزور اور سامراج نواز حکومت قائم کی جائے،جو وہاں کے معدنی وسائل بہ حق سامراج استعمال ہونے کے سامراجی منصوبے میں اپنے آقاؤں کے لیے مقامی گماشتوں کا کردار ادا کرے۔ اس سلسلے میں مضبوط قومی سوچ کی حکومتیں تو ایک طرف "صرف مضبوط حکومتیں"بھی قائم نہ ہونے دینا امریکا کا طویل المدتی ابلیسی منصوبہ ہے۔ اس سلسلے میں آپ بعث پارٹی کی حکومت کا حشر دیکھ لیں۔ آپ بلاشبہ انھیں کوئی مثالی حکمران نہ مانیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں قومی سوچ موجود تھی۔ اس کی واضح مثال کرنل معمر قذافی شہید، صدر جمال عبدالناصر مرحوم اور صدر صدام حسین شہید وغیرہ ہیں۔ یہ سب مضبوط حکمران تھے، اس لیے انھیں راستے سے ہٹا دیا گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کل کلاں یہ راہ نما اسی قومی سوچ کی بنیاد پر اپنے معدنی وسائل اپنی قوم کے حق میں استعمال کرنا نہ شروع ہوجائیں۔
آپ ذرا ان راہ نماؤں کے جانے کے بعد ان کے عراق، لیبیا اور سیریا کا حشر دیکھ لیں کہ کس طرح ان آباد، ترقی یافتہ اور خوش حال ممالک کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
امریکی صدر رونالڈ ولسن ریگن کے الفاظ تاریخ کاحصہ ہیں، جس میں وہ قذافی شہید کے بارے کہتا ہے کہ:
"مشرقِ وُسطیٰ کے پاگل کتے کا خواب ہے کہ پوری دنیا میں انقلاب آئے۔"
آج عجلت اور جذبات میں جو چیز ہم نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ،رسول اللہ ﷺکی دعوت کے ابتدائی ِدنوں میں حضرت عباسؓ سے مروی ایک حدیث ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میرا بھتیجا یہ گمان رکھتا ہے کہ:"عن قریب قیصر و کسریٰ کے خزانے میرے لیے کھول دیے جائیں گے"۔ (مسند احمد،حدیث نمبر 7 - ابن عبد البر فی الاستیعاب، حدیث نمبر : 1787)
یعنی قیصر و کسریٰ کا نظامِ ظلم نیست و نابود ہوجائے گا۔ اس وقت حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت زید بن حارثہ ؓ اور حضرت علی ؓ چند گنے چنے افراد تھے۔
اس حدیث سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ ﷺ اور آپ کی جماعت صحابہ کرامؓ کے عزائم جلیلہ شروع دن سے یہ تھے کہ عالمی (قیصر و کسریٰ) کا ظالمانہ نظام ظلم گرانا ہے۔ لیکن وہ گرا کب؟ جب حضرت عمر فاروق ؓکی خلافت میں بیت المقدس فتح ہوا، یوں قیصر روم باجگزار بنا دیا گیا اور کسریٰ ایران کو شکست دی گئی۔
آج آپ تمام مسلم ممالک پہ نظر دوڑائیں اور ایمان سے بتائیں کہ وہاں کوئی ایک ایسا حکمران یا نظام ہے جو امریکا سامراج کا آلہ کار نہ ہو؟
اگر سارے مسلمان ممالک امریکا کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں تو نبوی سیاست کی طرز پہ پہلے اپنی ریاست میں موجود سامراجی نظام اور ان کے مقامی ایجنٹوں کو کیوں نہ درست کیا جائے!
آج امریکی فوجی اڈوں کے حوالے سے سرچ کریں تو عرب ممالک میں آپ کو امریکی فوج کے کئی اڈے نظر آئیں گے۔ اسی طرح ترکی نیٹو کا ممبر ہے، جب کہ قطر مشرقِ وُسطیٰ میں امریکی سر گرمیوں کا صدر مقام!
جب آپ کا نظام اور حکمران ہی وہ نہیں جو آپ کے حقیقی ترجمان ہوں، تو پھر اس سے غزہ کے بارے کیا امید لگانا؟
پھر پہلی فرصت میں تو اسے تبدیل کرنا چاہیے!
لے دے کے ہمارے جذباتی بھائیوں نے"پراڈکٹ کا بائیکاٹ" ایک حل نکالا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کے ملک نے اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کیا تو اس کی مصنوعات یہاں کیسے پہنچیں؟ یعنی کوئی نظام تو ہے جو انھیں یہاں آنے دے رہا ہے! کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اس نظام کو ہی تبدیل کیا جائے کہ یہاں سے اسرائیل سمیت کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی دولت نچوڑ کر کہیں اور منتقل نہ کر سکے!
چلیں آپ بائیکاٹ کے نام پہ پراڈکٹ لینا بند کر دیں۔ لیکن اس تازہ معاہدے کی بازگشت کا کیا؟جس میں امریکا کو یہاں سے معدنیات نکالنے کی اجازت دے دی گئی ہے؟(ایکسپریس ٹربیون 9 اپریل 2025ء)
اس 3.60 بلین ڈالر سود کا کیا جو ہم اپنے بچوں کے منہ کا نوالہ تک چھین کر آئی ایم ایف کو ادا کر چکے ہیں؟ (ایکسپریس ٹربیون 2 اگست 2024ء)
اس 45 ٹریلین ڈالر کا کیا جو برطانیہ ہندوستان سے لوٹ کر لے گیا؟(کولمبیا یونیورسٹی پریس)
کیا یہ تمام مسائل صرف پراڈکٹ کے بائیکاٹ سے حل ہو جائیں گے؟
ہمیں اس عجلت پسندی، جذباتیت اور سوشل میڈیائی ذہنیت سے نکل کر طویل المدتی حل پہ سوچنا ہوگا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ہم بے بس ہیں، ہمارے ہاتھ میں فقط بائیکاٹ کا آپشن ہے تو یاد رکھیں،قوموں کی تقدیر قومیں خود تبدیل کرتی ہیں،نہ کہ آسمان سے اتری مخلوقات۔
بائیکاٹ کے بجائے دینی بنیادوں پر قومی آزادی کا سوچنا،تجزیہ کرنا اور عصرحاضر کا شعور حاصل کرنا بھی نہ صرف آپ کے اختیار میں ہے، بلکہ آپ کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔
اگر بائیکاٹ کرنا ہی ہے تو اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کا کریں۔ اس جزوی بائیکاٹ سےکوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔