امریکی ٹیرف پالیسی اور بدلتی دنیا
تجارت کے حوالے سے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں فری مارکیٹ اکانومی بنیادی اصول ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ۔۔۔۔

امریکی ٹیرف پالیسی اور بدلتی دنیا
تحریر: یاسر علی سروبی۔ مردان
تجارت کے حوالے سے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں فری مارکیٹ اکانومی بنیادی اصول ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سامراجی ممالک ہمیشہ اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں اور معاہدات سے انحراف کرتے ہیں ۔ 2 اپریل 2025ء کو امریکا نے بہت سے ممالک خصوصاً چین کی درآمدی منصوعات پر یک طرفہ ٹیرف لگادیے۔اس دن کو امریکی صدر نے امریکا کی یومِ آزادی قرار دیا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کل انسانیت کی ترقی کی بجائےمخصوص طبقے کی ترقی اور خوش حالی کا پروگرام رکھتا ہے ۔ موجودہ دہائی میں امریکی بالادستی کو سنگین چلینجز درپیش ہیں اور چین اس دنیا میں ایسا ملک ہے جو دنیا بھر میں مختلف ممالک کو سستی اور پائیدار ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے، جس نے دنیا میں معاشی حوالے سے امریکی کردار کو محدود کر دیا ہے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے امریکا نے بہت سے ممالک پر جنگیں اور وبائیں مسلط کیں ، دنیا بھر میں اربوں ڈالر لگا کر رجیم چینج آپریشن کیے، تاکہ مرضی کی حکومتیں لا کر اپنی من مانیاں کرے۔ مگر اس دوران دیگر خودمختار اور قومی سوچ رکھنے والے ممالک مینوفیکچرنگ اور جدید ٹیکنالوجی میں ان سے آگے نکل گئے ۔ امریکی صدر کی حلف برداری کے دن چین نے مصنوعی ذہانت کا ماڈل ڈیپ سیک لانچ کرکے امریکی صدر کو پہلا سرپرائز دیا، جس نے ایک ہی دن کے اندر امریکا کی مصنوعی ذہانت سے وابستہ بڑی بڑی کمپنیوں کے حصص کو سٹاک مارکیٹ میں بری طرح گِرا دیا۔ جواب میں امریکا نے اپنی مہارت اور انڈسٹری کو فروغ دینے کے بجائے ٹیرف جیسے مصنوعی اقدامات کرکے کھلے عام اعتراف کرنے کی بجائے خاموش اعتراف کرکے چین کی برتری کو تسلیم کر لیا ہے۔
طویل جنگی پالیسی اور دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی وَجہ سے امریکی معاشرہ اندرونی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے ۔ امریکا میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے ، بے گھر افراد کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے، لوگ سڑکوں پر سوتے ہیں، معاشی تنگ دستی اور غربت کی وَجہ سے نفسیاتی مسائل امراض اور نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔ دوسری طرف امریکا کے بالائی سطح کے دولت مند 12 ارب پتی افراد کی مشترکہ دولت مجموعی طور پر 2 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ صرف چار سالوں میں ان کی دولت میں 193 فی صد اضافہ ہوا۔
اسی طرح امریکا میں دولت کی تقسیم میں نمایاں عدمِ مساوات پائی جاتی ہے۔ 2024ء کی چوتھی سہ ماہی تک، امریکا کی مجموعی دولت کا تقریباً 30.8 فی صد سب سے امیر طبقہ، 1 فی صد افراد کے پاس تھا۔ یہ ایک فی صد اشرافیہ طبقہ، جو تقریباً 1.3 ملین خاندانوں پر مشتمل ہے، مجموعی طور پر تقریباً 49.2 ٹریلین ڈالر کی دولت کا مالک ہے۔ اس کے برعکس، نچلے 50 فی صد امریکیوں کے پاس ملک کی مجموعی دولت کا صرف 2.5 فی صد حصہ ہے۔ ملکی قرضہ روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے ۔امریکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ، امریکا اپنی مہارت اور انڈسٹری کو بڑھاوا دینے کے بجائے ٹیرف جیسے مصنوعی اقدامات کے ذریعے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچانا چاہتا ہے جو آزاد تجارت کے سرمایہ دارانہ اصولوں کی نفی ہے۔
دراصل سرمایہ دارانہ ممالک کی یہی بری خصلت ہے کہ بجائے اپنے وضع کردہ اصولوں پر کاربند ہو کر مقابلہ کریں، یہ ممالک یکطرفہ طور پر منافقانہ اقدامات کے ذریعے سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں ۔ مغرب اور امریکا نے ہمیشہ فری مارکیٹ اکانومی کے آڑ میں دیگر ممالک کا استحصال کیا ۔ اَب جب کہ خود دنیا کی معیشت میں مقابلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تو دنیا بھر کی مصنوعات پر درآمدی پابندیاں لگا کر خود ہی اپنے وضع کردہ اصول جیسا کہ فری مارکیٹ اکانومی سے انحراف کر رہا ہے،جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ استحصالی نظام اپنے ہی اصولوں کا پابند نہیں ہوتا اور ہمیشہ اس کا مقصد صرف دنیا کے وسائل پر جابرانہ تسلط ہے، باقی باتیں اور دعوے صرف نمائشی ہوتے ہیں۔
اپنے مد مقابل سے مقابلہ کرنے کے بجائے امریکا حریف ممالک پر ہمیشہ پابندیاں عائد کرتا ہے ۔ مگر اَب حالات بدل چکے ہیں سرمایہ داری نظام کی شکست دیوار پر لکھی ایک حقیقت ہے۔ اس لیے یہ ہی پابندیاں اس کے حریف ممالک کو خودمختار اور متبادل سوچ کی طرف لے جارہی ہیں۔امریکا کی طرف سے یک طرفہ اقتصادی پابندیوں کی وَجہ سے دیگر خودمختار ممالک مقامی سطح پر اپنی مینوفیکچرنگ صلاحیت بڑھا رہے ہیں تو دوسری طرف امریکا کی بجائے دیگر ممالک سے تجارتی حجم بڑھاکر دو طرفہ تجارتی معاہدے کرتے ہے ۔ بہ قول ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ: امریکی پابندیوں ہی کی وَجہ سے ہم نے ترقی کی ہے۔ یہ ہی حال چین کا بھی ہے ۔ امریکا کی یہ بوکھلاہٹ اور ٹیرف پالیسی کے نتیجہ میں اس بات کا بھی اِمکان ہے کہ شاید یورپ بھی چین کے قریب آجائے، تو دوسری طرف خود عام امریکی صارفین پربھی ٹیرف کے نتیجے میں اضافی بوجھ پڑھے گا۔ امریکی ٹیرف کے جواب میں چین سمیت دیگر ممالک کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں امریکی سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی دیکھی گئی۔ ماہرین ٹیرف پالیسی کو امریکا معیشت کے لیے اچھا شگون نہیں سمجھتے ۔ یہ معاشی بحران کا باعث بنے گا ۔
دنیا ملٹی پولر کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امریکا کی چودھراہٹ عنقریب زمین بوس ہونے والی ہے۔ وقتی طور پر یہ طوفان آور ہلچل کمزور پڑ سکتی ہے، مگر یہ لاوہ ضرور پھٹے گا ۔ نئی ملٹی پولر دنیا میں بھی غلام کی حیثیت وہی رہے گی۔ اس دنیا میں وہی قوم آگے بڑھے گی جو اپنے ملک میں خودمختار اور آزاد سیاسی و معاشی نظام قومی بنیادوں پر استوار کرے گی ۔ دنیا کی اس اڑان میں غلام اور بھکاری قوم کی کوئی اوقات نہیں ہوتی۔
اس لیے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں قرضوں پر انحصار کی طفیلی معیشت سے ناطہ توڑ کر قومی بنیادوں پیداوری معیشت اور غلامی سے نجات پا کر صالح نظام کی تشکیل کی جائے۔