بائیو وار : چین، روس اور امریکہ
اس تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ باہیو ٹیکنالوجی سے جنگ کیسے ممکن ہے اور کرونا واہرس پر روس و چین میں کیا قیاس اراہیاں ہیں
بائیو وار : چین، روس اور امریکہ
تحریر: سعد خان، مری
حالیہ دنوں روسی میڈیا پر بائیو وار کے بارے میں کچھ خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہبائیو ٹیکنالوجی سے جنگ کیسے ممکن ہے اور حالیہ دنوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر روس اور چین کا کیا موقف ہے۔
بائیو لیبز کی اقسام اور بائیو سیفٹی لیولز (BSL):
بائیو سیفٹی لیول ایک ایسے حیاتیاتی روک تھام/ احتیاطوں کے طریقہ کار کے مجموعہ کا نام ہے جس سے خطرناک بیالوجیکل ایجنٹس کے پھیلاؤ کو روکا جاتا ہے۔عام درجات کی لیبارٹریز عام طور پر روا یتی کام کرتی ہیں جبکہ ہائر لیول کی لیباریٹریز خطرناک قسم کے حیاتیات پر کام کرنے والی لیبارٹریز ہوتی ہیں۔
دنیا کی کل 53 انتہائی حساس بائیو لیبز :
چوتھے لیول کی لیبارٹریز انتہائی مہلک اور خطرناک قسم کے حیاتیات پر کام کرتی ہیں اور درج ذیل ممالک میں موجود ہیں:
۔ارجینٹینا 1 عدد،
۔چین 1 عدد،
۔کینیڈا 1 عدد،
۔برازیل 1 عدد،
۔جنوبی کوریا 1 عدد
۔چیک ریپبلک 1 عدد
۔روس 1 عدد،
۔اٹلی 1 عدد،
۔تائیوان 1 عدد،
۔گابن 1 عدد
۔جنوبی افریقہ 1 عدد
۔ہنگری 2 عدد،
۔جاپان 2 عدد،
۔فرانس 2 عدد،
آسٹریلیا 3 عدد
۔انڈیا 3 عدد
۔سوئزرلینڈ 3 عدد،
۔یو کے 10 عدد،
۔یوایس اے 13 عدد
امریکی بایو لیبز :
امریکہ میں 1356 بائیو لیبز اس وقت کام کر رہی ہیں جن میں سے صرف %36 یعنی 488 اکیڈمک مقاصد کے لیے ہیں اور باقی %64 یعنی 868 دیگر مقاصد کےلیے ہیں۔ یہ لیبارٹریز، زرعی، کیمیائی اور حیاتیاتی شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ جبکہ 13 لیبارٹریز لیول 4کی ہیں۔ اور دو گمنام اور انتہائی خفیہ بھی۔
روس کا امریکہ پر الزام:
یوکرائن میں امریکی فوج کی 13 بائیولیبز کام کر رہی ہیں اور یہ روس کا پڑوسی ملک ہے۔ جارجیا یورپ کاسب سے بڑا ملک ہے اس کا روس کے ساتھ ایگور جزائر کا تنازعہ ہے- روسی فوج کے کیمیائی، حیاتیاتی اور شعاؤں سے حفاظت کے دستے کے سربراہ میجر جنرل ایگور کیریلوو نے 4 اکتوبر، 2018 کو امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ امریکہ کی روس اور چین کی سرحد کے قریب بائیو لیبز موجود ہیں۔ 2013 میں جارجیا میں ایک سابق امریکی سینیٹر رچرڈ لوگر کے نام پر ایک بائیو لیب
"Richard Lugar Centre for Public Health Research Laboratory", a centre for high level bio-hazards agents",
اس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے تا کہ وہ انتہائی زہریلے اور جان لیوا حیاتیات کی تلاش کر سکے۔ جنوبی روس میں وائرل بیماری کے پیچھے یہی سنٹر کار فرما ہو سکتا ہے۔ 2007 میں افریقی سوائن فلو جس سے روس کے لائیو اسٹاک کو بہت نقصان ہوا تھا بھی اسی سنٹر کا کام ہے۔ اور 16-2015 میں اسی سنٹر میں ایک دوائی کے ٹیسٹ کے دوران 73 رضاکار لقمہ اجل بن گئے تھے۔
بیالوجیکل وائرس/بیماری :
خطرناک مواد رکھنے والی 200 لیبارٹریز امریکہ کی 50 ریاستوں میں موجود ہیں۔ درج ذیل وائرل بیماریاں حادثاتی طور پر یا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہی لیبز میں سے پیدا کر کے پھیلائی گئیں:-:
، برڈ فلو ، ای بولا، انتھراکس، انفلوائنزہ،ricin botulism، سارس، MDR ،TB ،Plague ،MERs ،Marburg haemorrhagic fever.
پاکستان میں 2005 کے زلزلہ کے بعد یہاں کی چراگاہوں اور کھیتوں میں گاجر بوٹی کا اگنا اور گھاس اور فصل کوتباہ کرنے کے الزام بھی عام لوگ امریکہ کے سر ڈالتے ہیں۔ ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کی آمدورفت کےدوران فضا سے بیج یہاں پھینکے گئے۔ پاکستانی زرعی ماہرین کے مطابق اس بوٹی کا ایک پودا سینکڑوں نئے پودوں کی پیدائش کا باعث بنتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ڈینگی مچھر کا یہاں پیدا ہونا بھی کئی سوالات پیدا کرتا ہے۔
وائرس/بیماری پھیلانے کا طریقہ کار:
بلیوں اور چوہوں میں وائرس منتقل کر کے ان کو چراگاہوں اور جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں سے وہ ماحول اور مویشیوں میں با آسانی منتقل ہو جاتا ہے یا پھر جانور میں منتقل کر کے اس کو ذبح خانے میں پہنچا دیا جاتا ہے جس کا گوشت کھانے سے انسانوں میں اور پھر آگے دوسرے کہیں انسانوں میں پھیلتا چلا جاتا ہے۔
چین اور کرونا وائرس :
دنیا کے ایک تہائی بحری جہاز جنوبی چین کے سمندر سے گزرتے ہیں اور چین کی %80 انرجی امپورٹ اور %40 ٹوٹل ٹریڈ اسی روٹ سے ہوتی ہے۔ جاپان، فلپائن، ملائيشيا، انڈونیشیا، ویت نام اور برونائی کا چین کے ساتھ اس سمندری حدود پر تنازعہ ہے۔ امریکہ کی سپورٹ بھی ان ممالک کے ساتھ ہے اس علاقے کی اہمیت اس لیے بھی اور زیادہ ہے کہ یہاں لا تعداد مچھلی پائی جاتی ہے اور زیر سمندر تیل کے بھی بڑے ذخائر موجود ہیں۔ چین کی فوج نے اس علاقے کا انتظام بہت اچھے طریقہ سے سنبھالا ہوا ہے اور یہ بات امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دوسرا ٹیلی مواصلات کی دنیا میں 5جی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے بعد اس شعبے میں لیڈنگ ملک بننے جا رہا ہے۔ چین کی دوسرے ممالک کوسالانہ ایکسپورٹ 2400 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ اور یہ امریکہ سے بھی زیادہ ہے۔ چین"ون بیلٹ ون روڈ" منصوبہ کے تحت ایشیا، افریقہ اور یورپ کوملانے جا رہا ہے جس سے اس کی معیشت کئی گناہ مزید بڑھ جائے گی اور امریکہ اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ روس اور چین کی کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ بالا وجوہات کے نتیجے میں امریکہ نے چین کے سینٹرل، انڈسٹریل اور ٹرانسپورٹیشنل حب ، ووہان شہر میں کرونا وائرس اس وقت پھیلایا جب نئے چینی سال کی تقریبات، تمام لوگ اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ منانے عام تعطیل پر پورے چین کے دور دراز علاقے میں جانے والے تھے۔ امریکہ کو اس کے تین بڑے فائدے حاصل ہونے ہیں۔
پہلا یہ کہ بےشمار چینی لوگوں کو لقمہ اجل بنانا، دوسرا چین کی صنعت کو مکمل لاک ڈاؤن کروا کے اس کو شدید نقصان پہنچانا، اور تیسرا امریکی فارماسسٹ کمپنیوں کو اس وائرس کی دوائی بنا کر اربوں ڈالر پیسے کمانے کا موقع ملنا۔
دنیا کے مہذب ممالک کو چاہیے کہ 1972 کے جنیوا کنونشن کے مطابق کیمیائی اور بیالوجیکل ہتھیاروں کی تیاری، پیداوار اور ذخیرہ کرنے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کا مواخذہ کریں اور تمام ممالک اس معاہدے کی مکمل پاس داری کریں۔ موجودہ بین الاقوامی اداروں کی روح کو بحال کیا جاناچاہیے۔تمام اقوام عالِم کو تحفظ اور اختیار دیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف تمام ممالک کو سامراجی گروہوں کی ایسی ناپاک اور غیر مہذب اقدام اور کوشش سے بچنے کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے تاکہ انسانیت کو مزید محفوظ اور صحت مند بنایا جا سکے۔
حوالہ جات
www.usatoday.com
www.apnews.com
www.wikipedia.co,
www.globalrearch.com/us-military-bio-labs-in-ukraine-production-of-bio-weopon-and-disease-causing-agent/560530/amp