بیماریاں ، عالمی ادارے اور انسان
سامراجی حلقوں میں قائم بائیولوجیکل لیبارٹریز کاکردار تو ستر کی دہائی سے ہی لیب وائرس بنانا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے۔کرونا کہانی
بیماریاں، عالمی ادارے اور انسان
تحریر: ثاقب محفوظ، پشاور
موجودہ کرونا وائرس اس وقت جیسے عالمی منظر نامے پر چھایا ہوا ہے اس نے دیگر تمام مسائل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اس کو ہم اگر عالمی طاقتوں کی کشمکش کے تناظر میں دیکھیں تو جس طرح عالمی میڈیا میں یہ خبریں چین روس اور ایران کی طرف سے سرگرم ہیں کہ یہ بائیولوجیکل وار کا ہتھیار ہے جس کو ففتھ جنریشن جنگ کے ہتھیار کے طور پر مخالف سامراجی گروپ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے استعمال کیا ہے۔جس کے ثبوت میں چین نے نومبر میں ہونے والی فوجی مشق کے حوالے سے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس میں شریک امریکی فوجی وائرس ساتھ لائے ہیں لیکن دوسری طرف امریکہ اس کا الزام چین پر لگا رہا ہے اور امریکی صدر اس کو کنگ فو وائرس قرار دے رہا ہے۔
اس کی ایک وجہ شاید قدرتی ماحول کی بے دریغ تباہی ہے۔ بعض اوقات بنی نوع انسان میں نئی بیماریاں بھی پھیل جاتی ہیں جن کا پہلے کوئی وجود نہیں ہوتا۔ جب آپ جنگلات اور قدرتی ماحول کو تباہ کرتے ہیں تو وہ جراثیم جو پہلے جنگلی جانوروں تک محدود ہوا کرتے تھے وہ انسانوں میں پھیل جاتے ہیں۔ تاہم امکان یہی ہے کہ یہ مسئلہ بھی کچھ وقت کے بعد نائن الیون کی طرح بالکل واضح ہو جائے گا۔ سامراجی حلقوں میں قائم بائیولوجیکل لیبارٹریز کاکردار تو ستر کی دہائی سے ہی لیب وائرس بنانا اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔
ایڈز کے نام سے آج ساری دنیا واقف ہے یہ وائرس امریکی سائنسدان ڈاکٹر گیلو رابرٹ نے جراثیمی جنگ کے لیے امریکہ میں قائم شدہ فورک ڈیٹرک لیبارٹری(موجودہ نام۔ فریڈرک کینسرریسرچ فیسلٹی) واقع میری لینڈ میں تیار کیا تھا۔
یہ بات جرمنی کے جیم بولٹ یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات کے سائنس دان پروفیسر جیکب سیگل اور ان کی بیوی للی سیگل نے سب سے پہلے دنیا کے سامنے رکھی۔
انہوں نے اپنی یہ تحقیقی رپورٹ 1986میں تحریر کی. AIDS: A US MADE MONSTER جس کا ضمنی عنوان AIDS: ITS NATURE AND ORIGIN کے نام سے شائع ہوا۔ اس وائرس سے سرمایہ داری نظام نے مختلف شعبوں اور سماجی نظاموں سے بہت کچھ حاصل کیا۔
اس کو اگر ہم صرف فارماسوٹیکل مارکیٹ کے تناظر میں تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایڈز کے جراثیم سے عالمی فارما کمپنیوں نے آج تک اربوں ڈالر حاصل کیے۔
جس وقت ایڈز کا جرثومہ تیار کرکے امریکا نے اپنے ہاں قیدیوں میں انجیکٹ کیا تو ان سے معاہدہ کیا گیا کہ کچھ عرصے بعد ان کو رہا کر دیا جائے گا ان میں جن قیدیوں کا انتخاب کیا گیا وہ زیادہ تر ہم جنس پرست اور سیکس ورکرز تھے۔ اور جب اس ایڈز وائرس کو خود امریکہ اور اس کے ساتھ براعظم افریقہ ایشیا خصوصاً انڈیا میں پھیلایا گیا تو اس کو آج کے کرونا وائرس کی طرح عالمی میڈیا اور WHO کے ذریعہ سے ہوّا بنا کر کھڑا کیا گیا۔ WHO اور ہیلتھ کے دوسرے عالمی فورمز کے ذریعے اور عالمی میڈیا کو خوب استعمال کرکے فارماسوٹیکل کمپنیوں نے دنیا کی بیشتر حکومتوں کے ہیلتھ شعبوں پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے ایڈز کے شعبے کے لیے سالانہ بجٹ مختص کروائے۔
اسی طرح کرونا وائرس Covid 19 آج سے پہلے کبھی حملہ آور نہیں ہوا تھا۔ اب اچانک حملہ آور ہو گیا ہے اور اب عالمی ادویات ساز کمپنیاں اس کے علاج پر تو کوئی خاص ریسرچ نہیں کر رہی اور نہ ہی ان کا مخالف بلاک علاج پر کوئی خاص ریسرچ کر رہا ہے۔ دونوں طرف سے جو تیاری ہورہی ہے وہ ویکسین کی ہی ہے۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے کہ یہ ویکسین کی تیاریوں میں لگےہیں اس کی اصل وجہ مارکیٹ کا حجم اور شیئرز ہے۔ کرونا covid 19 سے متأثرہ لوگوں کی تعداد چند لاکھ مریضوں سے زیادہ نہیں بڑھے گی ۔جبکہ تمام صحت مند لوگ خوف کی وجہ سے ویکسین کے کسٹمرز بن سکتے ہیں۔ کیوں کہ ویکسین صحت مند لوگوں کو ہی لگیں گی اور وہ بھی بچاؤ کے نام سے۔۔
اس وقت دنیا میں فلو کی تقریباً 200 اقسام کے وائرس پائے جاتے ہیں ہیں۔ جن میں فلو کی فرسٹ کیٹگری رائینو وائرسز ہیں۔ اور کرونا وائرسز فلو کی سیکنڈ کیٹگری میں آتے ہیں۔ کرونا فیملی کے وائرسز ہر جگہ ہوتے ہیں۔ امریکہ کے اعدادوشمار کے مطابق ہر سال %10تا %15 امریکی فلو کا شکار ہوتے ہیں۔ جس میں سے فقط 1% لوگ ہسپتال پہنچتےہیں۔ اور ان 1% فیصد میں سے فقط 10% ریسپائریٹری وائرل انفیکشن کا شکار ہو کر فوت ہو جاتے ہیں۔ گویا امریکہ کی 35 کروڑ آبادی میں سے ہر سال 35 ہزار امریکی فلو کی وجہ سے یا ریسپائریٹری وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
امریکہ میں پچھلی کئی دہائیوں سے فلو وائرسز کی بیماریوں کے نام پر ویکسینیشن کا کاروبار عروج پر ہے۔ اور یہی حالت یورپی ممالک کی بھی ہے، گویا ان ادویہ ساز کمپنیوں کو ویکسین بنانے کی مہارت خوب حاصل ہوچکی ہے۔ امریکی ہر سال فلو کی ویکسین استعمال کرتے ہیں لیکن ہر سال کثیر آبادی فلو کا شکار بھی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ اکثر ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ وائرس نے اپنی فیملی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کر لی ہے کہ وہ اپنی شکل تبدیل (Mutation) کر لیتا ہے لہٰذا ویکسین کارآمد نہیں رہتی۔ گویا ایک ویکسین ہرسال نہ سہی تو چار پانچ سال بعد فلاپ ہو جاتی ہے اس طرح یہ کمپنیاں تقریبا ہر چار پانچ سال بعد نئی ویکسین زیادہ شرح منافع کے ساتھ مارکیٹ میں لاتی ہیں ۔ دوسری طرف جن لوگوں کی اموات واقع ہوتی ہیں وہ زیادہ تر ضعیف العمر ہی ہوتے ہیں۔
اب یہ جو موجودہ کورونا وائرس Covid 19 کا حملہ ہوا ہے تو WHO کے پاس اس کی مختلف اقسام رجسٹرڈ ہوچکی ہیں۔ لہذا یہ کہنا مشکل ہے کہ ہر ملک میں وہی وائرس ہے جو کہ چائنا میں تھا۔ وہی دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ چائنا میں اموات کی شرح (Mortality) 2.5% تقریباً تھی۔ جب کہ اٹلی میں 10% ہے۔ اگر ہم فلو وائرسز اور بیکٹیریل انفیکشن ڈیزیز کا تناسب دیکھیں تو دنیامیں روزانہ 50000 اموات ان کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ لہذا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس کی شرح اموات بمقابلہ انفیکشن ڈیزیز کے بہت کم ہے۔ لیکن اس کو عالمی میڈیا نے ایک خوف (MONSTER) بنا کر پیش کر دیا ہے۔یہ درست ہے کے اس کے پھیلاؤ کا مکینزم سماجی میل جول ہے۔ ورنہ Covid 19 سے اموات اور پرانے فلو سے جو انفیکشن ڈیزیز ہیں ان سے بہت کم ہیں۔ اور زیادہ تر جو لوگ Covid 19 سے ابھی تک فوت ہو رہے ہیں۔وہ بوڑھے لوگ ہیں۔ یا ان کو پہلے سے انفیکشن ڈیزیز تھیں۔ یا ان کی قوت مدافعت کمزور تھی۔ اس وقت عالمی میڈیا ہو یا ملکی اور ہیلتھ کے حکومتی ادارے یا جتنی بھی ہیلتھ ایڈوائزری این جی اوز ہیں وہ تمام کی تمام احتیاطی تدابیر تو بتاتی ہیں اور اسی طرح اپنی ایڈوائس میں وہ علاج یعنی ویکسین کی ضرورت پر تو ماحول بناتی ہیں مگر اس کےساتھ اپنے ڈاکٹر کو وزٹ کرنے کا ضرور کہتی ہیں۔
لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے لےکر کسی بھی قومی ملکی نظام کے اداروں تک قوت مدافعت بڑھانے کے مکینزم پر بذریعہ روزمرہ خوراک ترجیحی بنیادوں پر کوئی گائیڈ لائن نہیں دی جاتی۔ حالانکہ تمام بیماریوں کا اصل حل تو قوت مدافعت (Immune system) کو تقویت دینا ہی ہے. کیوں کے (Immune system) قوت مدافعت کے بہتر ہونے سے فارماسوٹیکل انڈسٹری کے کاروبار کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ اس لیے ایسی کوئی ہدایات ہیلتھ ایڈوائزرز کی طرف سے یا بڑے عالمی میڈیا کی طرف سے سامنے نہیں آتیں۔
اس خوف کی فضا میں ہوگا کیا ؟
پہلے تشخیص کے لیے ٹیسٹ کٹس فروخت کی جائیں گی۔ جن کےبکنے کا آغاز ہوچکا ہے۔ اور یہ ٹسٹ کٹس % 2 (Error) شو کر رہی ہیں یعنی اگر آپ پانچ ہزار افراد کا ٹیسٹ کرتے ہیں تو کم از کم 100 تندرست افراد کو غلط (error) ہونے کی وجہ سے پازیٹو ضرور بتائے گی۔ عالمی دوا ساز کمپنیوں کی اگر 200 سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اکثر بیماریوں کا علاج دریافت ہی نہیں کیا گیا۔ مثلاً شوگر ،اس کی فقط مینجمنٹ کی جاتی ہے کوئی علاج نہیں کیا جاتا۔اسی طرح بلڈپریشر، آرتھرائٹس، مرگی اور ،دل کے کئی امراض مثلاً انجائنا ، اور کئی بیماریوں کی فقط مینجمنٹ ہیں علاج نہیں ہیں۔ گویا یہ کمپنیاں زیادہ تر مینجمنٹ کے نظریہ کے تحت ادویات بناتی ہیں۔ تاکہ لوگوں کو اپنا مستقل کسٹمر بنائے رکھیں۔ اس کی ایک اور مثال نیورو سائکیٹری کی ادویات ہیں۔ جو کہ لوگوں کو اپنا مستقل عادی (addict) بنا لیتی ہیں۔
غرض اس وائرس کی اس عالمی ہنگامہ خیزی کے جہاں مختلف معاشی اقتصادی سیاسی اور سماجی پہلو اور اثرات ہیں وہیں پر اس کا ایک بہت بڑا پہلو دوا ساز کمپنیوں کو مستقل ایک نئی مارکیٹ کا ملنا ہے۔ اور ابھی سے مختلف ماہرین کی رائے ہے کہ یہ اٹیک اب اس موسم میں ہر سال ہوا کرے گا۔ لہذا منظم حکمت عملی کے خوبصورت الفاظ کے نیچے قوموں کو لوٹنے کا مستقل پروگرام ترتیب دیا جاچکا ہے۔ ایک سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ اس وقت کرونا وائرس کے زیراثر سرفہرست 10 ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا اور یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں گزشتہ صدی میڈیکل سائنس کے شعبہ میں 158 نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔ لہذا ان کی یہ تمام تر ریسرچ آج دنیا کے سامنےایک سوالیہ نشان ہے۔
بات یہ ہے کہ بیماریاں تو ہمیشہ سے انسانی معاشروں کا ایک جزو رہی ہیں۔ زندگی اور موت ایک حقیقت ہے۔ لیکن مصنوعی بیماریاں پیدا کرنااور لالچ کی بنیاد پر علاج دریافت کرنا بہت بڑا ظلم ہے جس کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت عالمی دوا ساز ادارے ہوں یا ریسرچ کمپنیز، ان سب کا اصل مقصد سرمایہ کمانا ہے نہ کہ بیماریوں کا مستقل خاتمہ۔ اس لیےآج ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ داریت کے اثر سے آزاد عالمگیر انسانی فطرت کے فلسفہ کے زیراثر ایسے باطل نظاموں کو قومی بنیادوں پرایک آزاد اورمستحکم نظام قائم کرکے شکست دی جائے تاکہ انسانیت کو صحت کے شعبے کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں سامراجی استحصال سے نجات دلائی جاسکے۔