مسئلہ فلسطین اور بائیکاٹ مہم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مسئلہ فلسطین اور بائیکاٹ مہم

    7 اکتوبر 2023ء کو مسئلہ فلسطین ایک بار پھر عالمی خبروں کا حصہ اس وقت بنا، جب حماس نے اسرائیلی آبادی پر میزائل داغے۔۔۔۔

    By ABDUL BASIT KHAN Published on May 05, 2025 Views 197

    مسئلہ فلسطین اور بائیکاٹ مہم

    تحریر: عبدالباسط، دبئی 


    7 اکتوبر 2023ء کو مسئلہ فلسطین ایک بار پھر عالمی خبروں کا حصہ اس وقت بنا، جب حماس نے اسرائیلی آبادی پر میزائل داغے۔اس وقت سے لے کر اَب تک ہزاروں فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ غزہ کا پورا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔ اس انسانی المیے پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ نہ اقوامِ متحدہ کچھ کرسکی اور نہ کوئی اور کچھ کرسکا۔ لے دے کہ ایک ایران نے اپنی سی کوشش کی اور باقی دنیا کے ہمدردوں نے اپنے اپنے طور پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت کے علم برداروں کے ملک میں جب فلسطین کے حق میں احتجاج ہوئے تو انھیں طاقت سے نہ صرف کچلا گیا، بلکہ پابندی لگا دی گئی۔ 

    اسی دوران ہمارے ملک میں بھی فلسطین کے حق میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور ایک بائیکاٹ مہم شروع کی گئی، جس میں اسرائیلی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کا کہا گیا۔ یہ مہم آہستہ چل رہی تھی کہ اچانک اس میں اس وقت تیزی آئی، جب کچھ علما نے اس بائیکاٹ کے حق میں فتویٰ دیا ۔

    اس بائیکاٹ مہم میں کافی سوالات سامنے آئے۔ جیسا کہ: 

    1. جب اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات ہی نہیں، ہم اسرائیل کو ریاست ہی نہیں مانتے تو اس کی اشیا ہمارے ملک میں کیسے پہنچیں؟

    2۔ جب غزہ مکمل کھنڈر بن چکا، اس سے پہلے علما کہاں تھے؟ 

    جبکہ فلسطینیوں کی نسل کشی طویل عرصے سے جاری ہے۔

    3۔ کیا اسرائیل بذاتِ خود کوئی طاقت ہے یا اس کے پیچھے کوئی طاقت ور ملک کھڑا ہے؟

    4۔ ایک چھوٹا سا ملک اتنے جنگی وسائل کہاں سے لاتا ہے؟

    5۔ کیا بائیکاٹ مہم کا کوئی فائدہ بھی ہے؟

    یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے جوابات بھی۔

    مختصراً سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اسرائیل کے وجود، اس کے جنگی جنون اور اس کی پروڈکٹس کو قائم رکھنے اور اسلحہ دینے تک سب کچھ عالمی سامراج یعنی امریکا اور اس کے اتحادی کرتے چلے آرہے ہیں ۔

    اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد امریکا پہلا ملک تھا، جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے اَب تک امریکا نے اسرائیل کو 310 بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔ جب کہ باقی اتحادیوں کی امداد اس کے علاوہ ہے۔ مزید برآں ہر سال امریکا اس صہیونی ریاست کو 3.3 بلین ڈالر کی امداد دیتا ہے۔

    اَب آتے ہیں 7 اکتوبر کے بعد کی امداد پر۔ 

    مارچ 2024ء تک امریکا نے اسرائیل کو 12.8 بلین ڈالرز امداد دینے کا اعلان کیا تھا، جس میں کچھ اضافہ بھی کیا تھا ۔باقی اتحادی ممالک میں جرمنی سرفہرست ہے، جس نے سال 2023ء میں 353.7 ملین ڈالرز کی امداد جنگی ہتھیاروں اور اوزاروں کے ذریعے سے کی۔برطانیہ نے ہتھیاروں اور ایف۔35 جیٹ طیاروں کے پرزوں کے علاوہ سال 2007ء سے 2023ء تک 727 ملین ڈالرز کے اسلحہ برآمد کر نے کے لائسنس بھی اسرائیل کو جاری کیے۔2023ءکے آخر میں فرانس نے 100,000 لاکھ مشین گن کے راؤنڈز اسرائیل کو مہیا کیے ، جب کہ اکتوبر 2024ء میں امداد روک دی گئی۔

    یہ تھی مختصر تفصیلات جن کے بل بوتے پر اسرائیل قائم و دائم ہے،بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اسرائیل امریکا کا فوجی اڈہ ہے اَور کچھ نہیں۔

    اَب آتے ہیں بائیکاٹ مہم پر۔ اوپر دی گئی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل بذاتِ خود کچھ بھی نہیں اور نہ اس مہم کا اس پر کچھ اَثر ہونا ہے۔ یہ چیونٹی کی ہاتھی سے لڑائی کے مترادف ہے۔

    ہمارے ملک میں جو بائیکاٹ مہم چل رہی ہے اس میں کہانی آدھی بتائی گئی ہے،جن کمپنیوں کو بہ طور بائیکاٹ سرفہرست شامل کیا گیا ہے، وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ (آپ گوگل کر کے چیک کر سکتے ہیں۔) 

    اَب آتے ہیں ان کمپنیوں کی طرف جن کا غزہ جنگ میں کردار رہا ہے۔ 

    1۔ مائکروسافٹ، گوگل، ہنڈائی اور پاکستان میں گاڑیوں کی کمپنیوں میں سرفہرست ٹویوٹا نے بھی اس جنگ میں معاونت فراہم کی ہے۔

    جن کمپنیوں کی بائیکاٹ کی بات ہورہی ہے، مثلاً پیپسی، کوک، میکڈونلڈز وغیرہ۔ یہ تو سب اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے کی کمپنیاں ہیں۔اگر اسرائیل کی اکانومی پر نظر ڈالیں تو اسرائیل ہیروں کی صنعت میں آگے ہے جو اس کی اکانومی کا 21فی صد  ہے، اس کے علاوہ اعلیٰ ٹیکنالوجیکل آلات ، طبی آلات ، کمپیوٹر ہارڈویئر اور سافٹ ویئر شامل ہیں۔

    اسرائیل کی پانچ بڑی کمپنیوں میں WIX ایک سافٹ ویئر کمپنی bank leumi ,Teva pharmaceuticals, اور اس کے علاوہ ٹاپ کی دس کمپنیاں اُٹھا کر دیکھ لیں کوئی بینکس ہیں تو کوئی سافٹ ویئر کمپنیاں یا انشورنس کمپنیاں یا دواساز کمپنی ۔

    دواساز کمپنی Teva pharmaceuticals نے 2010 ءمیں پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے امداد کے طور پر دوائیں بھی بھیجی تھیں۔

    ہمارے ملک میں جب بائیکاٹ مہم نے زور پکڑا تو عین اس وقت "مائنز اینڈ منرلز بل" ہماری اسمبلیوں میں پیش ہورہا تھا۔ عوام کے حق پہ ڈالا جا رہا تھا اور یہاں "توجہ ہٹاؤ مہم" کے تحت "بائیکاٹ مہم" کو مذہبی فتوؤں کے ذریعے ہوا دی جارہی تھی۔"مائنز اینڈ منرلز بلز" کے تحت امریکا کو اپنی معدنیات دے دی گئی ہیں، وہی امریکا جس کی امداد سے غزہ میں معصوموں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ گویا براہِ راست نہ سہی، بالواسطہ ہماری "اسلامی ریاست" غزہ کے معصوموں کے قتل عام میں برابر کی شریک ہے ۔

    اس سب پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک دفعہ پھر ہمارے مذہبی طبقہ کو استعمال کیا گیا ہے، جس نے بڑی چالاکی سے عوام کو بائیکاٹ مہم میں اُلجھا دیا ہے۔ عوام غصے میں توڑ پھوڑ پر اُتر آئی ہے۔ اَب حکومت کی طرف سے فیصلہ آیا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی ۔

    عوام پریشان! جائیں تو کہاں جائیں! المختصر نظام ظلم نے بڑا گہرا دجل کیا ہے اور عوام کو اپنے مسائل سے ہٹا کر اور بکھیڑوں میں اُلجھا دیا ہے۔

    جی ہاں! بالکل! بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ سامراج اور اس کے آلہ کاروں کا! اس سامراجی نظام کا، جس میں عام عوام کے لیے کوئی جگہ نہیں۔یہ نظام کہیں تو انسانوں کا براہِ راست قتل عام کرتا ہے اور کہیں بالواسطہ انسانیت کا قتل کرتا ہے۔

    وقت کا تقاضا ہے کہ عوام اس نظام کا شعور حاصل کریں اور اس کے خلاف ایک منظم شعوری جہدوجہد شروع کریں۔

    Share via Whatsapp