پیجر حملےاور سائبرجنگ
کسی دوسرے کمپیوٹر سسٹمز، نیٹ ورکس، یا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے، ڈیٹا چرانے، یا غیرفعال کرنے کی کوشش کو سائبر کرائم کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیجر حملےاور سائبرجنگ
تحریر : محمداصغر خان سورانی۔ بنوں
کسی دوسرے کمپیوٹر سسٹمز، نیٹ ورکس، یا ڈیجیٹل
انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے، ڈیٹا چرانے، یا غیرفعال کرنے کی کوشش کو سائبر
کرائم کہا جاتا ہے۔اس کے لیے سائبر حملہ آور مختلف تکنیکیں استعمال کرتے ہیں، تاکہ
حساس معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکے،ڈیجیٹل سسٹمز کو متاثر کیا جا سکے یا اہم
اداروں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ سائبر حملے اِنفرادی نوعیت کے جیسے کسی کی ایپ
استعمال کرکے پیسے چرانا، یا اس کی تصاویر کا غلط استعمال کرنا اور اجتماعی نوعیت
کے جیسے ریاستوں کے ڈیجیٹل نظام میں گھس کر ملکی راز چرانا،نیشنل سیکیورٹی کی حساس
معلومات تک رسائی حاصل کرنا۔
پیجرز اور الیکٹرانک آلات کابطور ہتھیاراستعمال
پیجرز (Pagers) ایک چھوٹا الیکٹرانک آلہ
ہوتا ہے جو بنیادی طور پر پیغامات وصول کرنے اور کبھی کبھار مختصر پیغامات بھیجنے
کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پیجرز کا استعمال عام طور پر ہسپتالوں،ایمرجنسی سروسز
اور دیگر ایسے شعبوں میں کیا جاتا ہے، جہاں فوری اور مختصر پیغام رسانی ضروری ہوتی
ہے۔ یہ آلات عام موبائل نیٹ ورک کے بجائے ایک مخصوص ریڈیو فریکوئنسی یا نیٹ ورک کے
ذریعے کام کرتے ہیں اور اسی وَجہ سے انھیں بعض اوقات زیادہ محفوظ اور مؤثر سمجھا
جاتا تھا، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں موبائل نیٹ ورک قابل اعتماد نہ ہو۔
پیجرز کا استعمال 1990ء کی دہائی میں عام تھا۔تاہم موبائل فونز اور اسمارٹ فونز کی
ترقی کے بعد ان کا استعمال کم ہوگیا ہے۔پیجر جیسے آلات کو محفوظ تصور کیا جاتا
تھا، کیوں کہ یہ موبائل نیٹ ورک کے بجائے ایک علاحدہ نیٹ ورک پر کام کرتے
ہیں اور ان کا ہیک ہونا انتہائی مشکل سمجھا جاتا تھا۔اسی لیے لبنان میں اسرائیلی
انٹیلیجنس سے بچنے کے لیے پیجرز استعمال کیے جا تے تھے۔ اسرائیلی سائبر حملوں کے
نتیجے میں پیجرز کے دھماکوں نے اسے بھی غیرمحفوظ کردیا۔ اسرائیلی سائبر ماہرین نے
ان آلات کو ہیک کرکے ان کی بیٹریوں پر اتنا بوجھ ڈالا کہ وہ دھماکے سے پھٹ گئیں،جس
کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس حملہ نے بتلایا کہ سائبر حملوں
کے ذریعے ناصرف ڈیٹا چوری ہوسکتا ہے، بلکہ فزیکل نقصانات بھی پہنچائے جاسکتے ہیں۔
اسرائیل نے سائبروارفئیر کو ایک بھیانک رخ دے دیا ہے، یعنی الیکٹرانک آلات کو
ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ سائبر حملےپیجرز تک محدود نہیں تھے،
دارالحکومت بیروت میں سولر پینلز پر بھی اسی نوعیت کے حملے کیے گئے، جن کے نتیجے
میں ایک خاتون ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ یوں سائبر حملے تنصیبات اور
توانائی کے ذرائع تک پھیلا دیے گئے ہیں۔ جس سے نہ صرف مواصلاتی نظام، بلکہ اہم
معاشی اور توانائی کے وسائل بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ
اسرائیل نے اپنی سائبر صلاحیتوں کو ایک منظم اور تباہ کن ہتھیار کے طور پر ڈھال
لیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے دشمنوں کی کمزوریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور سول
سوسائٹی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس تناظر میں حالیہ حملے صرف ایک شروعات ہیں
اور مستقبل میں اس طرح کے حملے مزید شدت کے ساتھ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
روس یوکرین جنگ اورسائبر اٹیکس
روس یوکرین جنگ میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے
کے خلاف سائبر حملے کیے، جس میں ڈرونز،سیٹلائٹس اور الیکٹرانک نظاموں کو نشانہ
بنایا گیا۔ یوکرین کی جانب سے روسی ڈرونز کو ہیک کر کے انھی کے خلاف استعمال کرنا
اور روس کی جانب سے یوکرینی انفراسٹرکچر کو سائبر حملوں کے ذریعے ناکام بنانا،
سائبر جنگ کے نئے حربوں کی ایک مثال ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائبر حملے، روایتی
جنگی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔ مستقبل میں جنگیں صرف فوجی محاذوں
پر نہیں لڑی جائیں گی، بلکہ سائبراسپیس،سیٹلائٹس اور انفارمیشن نیٹ ورک کو میدانِ
جنگ بنایا جائے گا۔ عالمی سطح پر امریکا، چین، روس اور اسرائیل جیسے ممالک اپنی
سائبر صلاحیتوں کو تیز کر رہے ہیں اور مستقبل کی جنگوں میں اس کی اہمیت کو تسلیم
کررہے ہیں۔
مسلم ممالک کی سائبر پسماندگی اور آزاد
ٹیکنالوجی کی ضرورت
مستقبل کی جنگیں جدید ٹیکنالوجی کے گرد گھومیں
گی۔ سائبر حملے ناصرف دشمن کے نیٹ ورک کو مفلوج کرنے کے لیے استعمال ہوں گے، بلکہ
اس سے اہم تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ڈیموں کے
کمپیوٹر سسٹمز کو ہیک کر کے ان کے اسپِل ویز کھولے جا سکتے ہیں، جس سے آبادیوں کا
نقصان کیا جا سکتا ہے۔ سیٹلائٹس کو ہیک کرکے غلط معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں اور
بیلسٹک میزائلوں کی سمت تبدیل کر کے ان کے وارہیڈز کو ناکارہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس
کے علاوہ ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اور GPS سسٹمز کو ہیک کرنا بھی ممکن
ہوگا۔دورانِ جنگ دشمن کی فوجوں کو گمراہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تمام امکانات اس بات کی
عکاسی کرتے ہیں کہ مستقبل کی جنگیں مکمل طور پر سائبروارفیئر پر منحصر ہوں گی۔
مسلم دنیا، بالخصوص پاکستان، ایران اور ترکی
جیسے ممالک میں سائبر صلاحیتوں کی کمی کے باوجود، کچھ حد تک مہارت موجود ہے۔ ترکی
کا ڈرون پروگرام ایک نمایاں مثال ہے جو جدید ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کررہا
ہے۔ ترکی کا ڈرون پروگرام دنیا میں جدیدترین اور کامیاب ڈرون پروگراموں میں شمار
کیا جاتا ہے۔ بایراکتار ٹی بی2 (Bayraktar TB2)، ترکی کے سب سے مشہور ڈرونز میں سے ایک ہے،
جسے ترک کمپنی بایکار (Baykar) نے تیار کیا ہے۔روس نے
ایرانی ڈرونز کا کامیاب تجربہ یوکرین میں کیاہے۔ ان ڈرونز نے اپنی مؤثر جنگی
کارکردگی سے عالمی توجہ حاصل کی ہے، لیکن مجموعی طور پر مسلم ممالک سائبروارفیئر
اور جدید جنگی ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں۔
بدقسمتی سے، عرب ممالک جیسے سعودی عرب، قطر اور
متحدہ عرب امارات میں جدید ٹیکنالوجی اور سائبر صلاحیتوں کی کمی ہے۔ اگر ان ممالک
کی دولت کو پاکستان، ایران اور ترکی کی سائبر مہارتوں کے ساتھ یکجا کیا جائے، تو
مسلم دنیا ایک مضبوط سائبر دفاعی نیٹ ورک بنا سکتی ہے۔
مؤثر دفاعی نظام کے لیےقرآنی احکامات
اسلامی تعلیمات میں جنگ کے لیے تیاری کا حکم
واضح ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اور ان کے خلاف جس قدر ہو
سکے قوت تیار رکھو" (سورۃ الانفال 60) اس حکم کا تقاضا ہے کہ ہر دور کی جدید
ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی جائے، تاکہ دشمن کے حملے کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا
جاسکے۔ جدید دور میں یہ "قوت" سائبر ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور
مصنوعی ذہانت میں مہارت ہے۔ مسلم ممالک کو اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اس نوعیت کی
ترقی کرنی ہوگی، تاکہ وہ دشمن کے سائبر حملوں کا مؤثر جواب دے سکیں۔ مسلم ممالک کو
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی اور جدید جنگی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے
کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں جدید جنگی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے دفاع کو مضبوط بنانا
ہوگا، تاکہ مستقبل کی جنگوں میں دشمن کے سائبر حملوں کا کامیابی سےمقابلہ کیا جا
سکے۔