چین کی سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی کے خدوخال
جب سے ہوش سنبھالا ہے تو کئی سلوگن سننے میں آتے رہے ہیں ان میں پاک چین دوستی کا عنوان ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے، حتی کہ اس میں ادبی اور شاعرانہ استعارا
چین کی ترقی، ایک نظر میں
تحریر: سعد خان مری
جب سے ہوش سنبھالا ہے تو کئی سلوگن سننے میں آتے رہے ہیں ان میں پاک چین دوستی کا عنوان ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے، حتی کہ اس میں ادبی اور شاعرانہ استعارات بھی شامل کر دیے گئے ہیں، ھمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری، شہد سے زیادہ شیریں، موسموں سے بے نیاز اور فولاد سے زیادہ مضبوط وغیرہ۔ قطع نظر اس کے کہ حقائق کی دنیا میں ان تعلقات کی نوعیت کیا ہے، ہمارے ملک کی اکثریت تو اس ہمسایہ ملک کے بارے میں بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتی، اس لیے زیر نظر تحریر کا مقصد اس ھمسایہ ملک سے متعلق چند معلومات کا تعارف ہے۔ وطن عزیز کی ترقی کے لیے سنجیدہ حلقوں کو چینی ماڈل کی طرح اپنے ملک کے پاکستانی ماڈل کے لیے کچھ کر گزرنے کے جذبے کو مہمیز دینا ہوگی۔
چین کا آفیشل نام People Republic of China ہے۔ اس کا قدیمی نام ہوکا نیشن ہے جو 3000 قبل مسیح قدیم ہے۔ اس کی آبادی ایک عرب تینتالیس کروڑ اور باسٹھ لاکھ ہے (1436222701) جو دنیا کی کل آبادی کا %18.59 ہے ۔اس کا کل رقبہ 95 لاکھ 96 ہزار 961 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی بین الاقوامی سرحد 14 خودمختار ملکوں کے ساتھ جڑتی ہے جن میں روس، انڈیا، پاکستان، افغانستان، تاجکستان، کرزکستان، قازقستان، نیپال، لاؤس، برما، منگولیا، شمالی کوریا، اور ویت نام شامل ہیں۔ زمینی سرحد 22117 کلومیٹر ہے جو دنیا کا سب سے بڑا زمینی بارڈر ہے۔ سب سے بڑی سرحد روس کے ساتھ چار ہزار کلومیٹر ہے اور سب سے چھوٹی افغانستان کے ساتھ 95 کلومیٹر ہے۔ ساحل سمندر چودہ ہزار کلومیٹر ہے۔ جبکہ کل رقبہ کے %50 حصہ پر پانی ھے۔ 4 سمندروں نے 4700000 مربع کلو میٹر رقبہ قابض کیا ہوا ہے۔
اس کی پارلیمنٹ دنیا کی سب سے بڑی پارلیمنٹ ہے جس کے 2980 ارکان ہیں اور ہر علاقے کے نمائندے شامل ہیں۔ چین کی پہلی مستند بادشاہت شانگ لی کی تھی جو 1800 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح تک رہی۔ مشہور بادشاہ کنگ قبلاہی خان کی بادشاہت اور یوہان سلطنت1271 میں قاہم ہوئی۔ 1949سے 1972 تک ماوؤزے تنگ نے حکومت کی۔ ملکی نظام جمہوری اشتراکی ہے اور کیمیونسٹ پارٹی آف چین کی حکومت اب تک قائم ہے۔ چینی تہذیب 6000 سال پرانی ہے۔ اور اولین انسانی مراکز میں سے ایک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ ملک دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔
ملک کا جھنڈا سرخ ہے جو انقلاب کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں چار چھوٹے ستارے ایک طرف ہیں جو مختلف طبقوں کو ظاہر کرتے ہیں اور ایک بڑا ستارہ چار ستاروں کے ساتھ کارنر پر ہے جو سب کو یکجا کرتا ہے اور اتحاد کی علامت ہے۔
چین میں شرح تعلیم %97 ہے اور ملک کا چار فیصد بجٹ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ سال2018 میں چین میں صحت پر %5 خرچ ہوا اور امریکہ میں17% ۔ ہر 300 افراد کی آبادی کے لیے ایک ڈاکٹر اور ایک بیڈ مختص ہے۔
ملک میں %12.6 زرعی زمین ہے اور %10 زرعی زمین دنیا کی %20 آبادی کی ضروریات پوری کرتی ھے اور %22 رقبہ پر جنگلات ہیں۔
چینیوں کی انگریزی کمزور ہے اور وہ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔ بات کرنے میں ہچکچاتے بالکل بھی نہیں اور پر اعتماد ہوتے ہیں۔ ان کی اوسط عمر 75 سال ہے۔
ملکی کرنسی یوہان ہے اور 22 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ سالانہ جی ڈی پی 12.24ٹریلین ڈالر کی ہے۔گروتھ ریٹ %6.2 سالانہ ہے۔ فی کس آمدنی 18026 ڈالر سالانہ ہے اور 1500 ڈالر ماہانہ ہےجو پاکستانی سوادو لاکھ بنتی ہے۔زر مبادلہ کے ذخائر 3.096 ٹریلین ڈالر کے ہیں اور دنیا کے پہلے نمبر پر ھیں۔چین کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکہ ہے۔
دنیا کی دوسری بڑی موبائل کمپنی ہواوے چین کی ملکیت ہےاور اس کی سروسز 170 ممالک میں ہیں۔ اور سالانہ GDP 93 ارب ڈالر ہے۔ جب کہ پاکستان کی320 GDP ارب ڈالر ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ڈیم چین میں ہے۔ دنیا کی دوسری اونچی امارت شنگائی ٹاورز بھی چین میں ہیں جن کی اونچائی 6300 میٹر یا 2003 فٹ ہےاس کی 128 منزلیں ہیں اور دنیا کی دوسری تیز ترین لفٹ اس میں لگی ہے جس کی رفتار 21 میٹر فی سیکنڈ ہے۔
دنیا کا سب سے لمبا پل بھی چین میں ہے جس کی لمبائی 164 کلو میٹر ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ریلوے سٹیشن فوتیان چین کا ہے۔ اور سب سے بڑا ریلوے کا نظام بھی چین کے پاس ہے جس کی لمبائی1 لاکھ 24 ہزار کلومیٹر ہے۔ سب سے بڑا بحری جہاز چین میں ہے ۔
سب سے بڑا شاپنگ مال نان بن جنگ گولڈن ایگل مال بھی چین میں ہے جو 5 لاکھ مربع میٹر رقبہ پر پھیلا ہوا ہےاور 300 میٹر اونچا ہے۔
چین کے پاس 500 ائیرپورٹ ہیں جن میں سے 463 کے ساتھ رن وے بھی موجود ہے۔ملک کی 80 ہزار کلومیٹر روڈز ٹریفک بجلی سے چلتے ہیں۔ملک کا سب سے بڑا شہر شنگائی ہے جو دنیا کے سب سے بڑے شہری علاقے میں سے ایک ہے۔جدید تعمیرات میں برڈ نیسٹ اولمپک اسٹیڈیم ہے-
ایک جدید ترین سکائے فائے تھیم پارک 320 ایکڑ رقبہ پر بنایا گیا ہے جس کی سیر آپ اڑن طشتری میں بیٹھ کے کر سکتے ہیں۔
یو شیر میں دنیا کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ ہے۔
ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی Tsingua یونیورسٹی ہے۔ دوسری بڑی یونیورسٹی، سٹی یونیورسٹی ھانگ کانگ اور تیسری چاہو تانگ یونیورسٹی ہے۔
پاکستانی دراز آن لائن شاپنگ اور ٹیلی نارموباہل کمپنی میں شیئرز بھی چینیوں کے ہیں۔
علی بابا۔ ہواوے، چائینہ موبائل، ہائر، فیڈکس، ڈونگ فنگ موٹرز، فوٹاہل، شوماہی فاموٹرز،سنیپ چیٹ،ٹک ٹاک، اور یو سی براؤزر چین کی ملکیت ہیں۔
الغرض جوتے، کپڑے، کھلونے، ٹیلی مواصلات ، الیکٹرانک آئٹمز، زرعی مشینری، اسلحہ، مصنوعی سیارے، ریلوے انجن، ہوائی جہاز، بحری جہاز، سب کمرشل بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔
چین ک بیشتر تجارت اور تقریبا %85 تیل بحری جہازوں کےذریعے ابنائے ملاکا سے گزرتا ہے۔ یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تجارت اسی روٹ سے ہوتی ہے جو بیجنگ تک 13000کلومیٹر فاصلہ ہے جب کہ گوادر سے بیجنگ صرف 6000 کلومیٹر ہے۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ رواں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جو چین کو افریقہ، یورپ اور ایشیا کے 70 سے زاہد ممالک کو زمینی اور بحری راستے سے جوڑتا ہے۔ اب تک 900 سے زائد اس کے پراجیکٹس کا آغاز ہو چکا ہے جن کی مالیات 9 سوارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
چین میں خواتین کی تعداد کم ہے۔ 1000 مرد اور 870 خواتین ہیں۔ شادی کی عمر 22 سال مقرر ہے اور جہیز کی رسم بھی موجود ہے۔ شادی پر دلہن سرخ جوڑا پہنتی ہے۔ اور تحائف کارواج بھی ہے لیکن 9 کے ھندسےکوخاص اہمیت دی جاتی ہے چاہے وہ تحائف ہی کیوں نہ دینے ہوں۔
قدیم چینی لوگ مصیبتوں کو بھگانےکےلیے پانڈے پالتے تھے۔
دیوار چین ایک عجوبہ ہے اور یو این او ورلڈ ہیریٹیج میں آتی ہے اور اس کی لمبائی 5000 کلومیٹر ہے یہ بیجینگ کے گرد ہے۔ اس کی مرمت میں پاکستان نے مالی اعانت کی تھی جس کی تختی آج بھی پاکستان کے نام سےلگی ہے۔ چینی پاکستانیوں کو دوست کہتے ہیں۔ چینی بہت ہوشیار قوم ہے۔ چین میں نو سر باز بھی بہت پائے جاتے ہیں ۔
ملک میں 92 کروڑ موبائل فون صارفین ہیں۔ %57 آبادی انٹرنیٹ استمال کرتی ہے۔
ملک میں سب سے زیادہ کھایا جانے والا پھل ڈوریان ہے جو سالانہ 23 لاکھ ٹن کھایا جاتا ہے۔
پتنگ چین کی ایجاد ہے۔
چین میں مذاہب کوحکومتی سطح پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہاں 56 نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔
2010 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مذاہب کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
52% (73 کروڑ)کا کوئی مذہب نہیں،
21% (29 کروڑ) کا فورک مذہب،
18%(25 کروڑ) کا بدھ مت مذہب،
5% (7کروڑ) کاعیسائی مذہب،
2% (اڑھائی کروڑ) مسلمان،
1%(ڈیڑھ کروڑ) ہندو، یہودی اور دیگر،
چین نے 71 سالوں میں تقریباً ہر میدان میں ترقی حاصل کی، کام کام اور ہر فرد کرے کام، محنت، دل جمعی، لگن، حوصلے اور شائستگی جیسی خوبیوں کو پوری قوم میں منتقل کر کے یہ مقام پایا ھے۔اس کا ایک سنہری اصول کرپشن کی سزا موت بھی ھے۔
چین کے مادی ترقی میں بگٹٹ دوڑنے کے باوجود انسانی حوالے سے کئی سنجیدہ مسائل کے وجود کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محض طاقت اور قانون سے ان کو حل کرنے کی حکمت عملی مزید پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے۔ایسے میں یقیناً اس جامع تصور حیات کا شعور حاصل کرنا آج کی اہم فکری اور سماجی ضرورت ہے جو انسان اور اس کے اجتماع کے جملہ مسائل کی متوازن حل کی رہنمائی دیتا ہے۔
کامل ترقی وہ ھے جو انسان کی مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ روحانی ضروریات بھی پوری کرے۔ ایسا جامع نظام صرف قران حکیم اور سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم و جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی درست تعلیمات میں ھے۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم ارکان اسلام کے باقاعدہ اھتمام کے ساتھ ان سے مقصود اعلیٰ اخلاق بھی اپنے اندر پیدا کریں۔ درست فکر و فلسفہ، صالح اجتماعیت، بہترین لائحہ عمل اختیار کر کے یہ کیا اس سے بھی اعلی مقام صرف چند سالوں میں حاصل کر سکتے ھیں۔