نائن الیون، کرونا وباء اور عالمی سرمایہ داری نظام (حصہ اول )
نائن الیون، کرونا وباء اور عالمی سرمایہ داری نظام کا مختصر جائزہ
نائن
الیون، کرونا وبا اور عالمی سرمایہ داری نظام (حصہ اول )
تحریر:
انجینئر محمد عثمان، فیصل آباد
اکیسویں
صدی میں وقوع پذیر ہونے والے بڑے واقعات کا اگر شمار کیا جائے تو نائن
الیون اور کورونا وبا اہم ترین واقعات میں سے ہیں۔ان دونوں واقعات نے دنیا بھر میں
انسانوں کے طرز ِفکر اور طرز ِعمل کو حیران کن حد تک بدلنے میں بنیادی کردار ادا
کیا ہے۔ذیل میں اِن دونوں واقعات اور انسانی معاشروں پر اِن کے اثرات کا مختصر
جائزہ لیا جائے گا ۔
نائن
الیون کا پس منظر
سرمایہ
داری نظام میں نظر آنے والی خوش حالی اور ترقی دراصل تیسری دنیا کی اقوام کے
وسائل کی لوٹ مار پر مبنی ہے۔ اِس لوٹ مار کے نتیجے میں جو لامحدود دولت مغربی ممالک
میں منتقل ہوتی ہے۔ اُس کا ایک قلیل حصہ مغربی ممالک کے عوام کی فلاح وبہبود پر
خرچ کرکے وہاں انصاف اور خوش حالی کی ایک مصنوعی فضا قائم رکھی جاتی ہے۔
تاکہ عوام میں کسی سطح پر سرمایہ داری نظام کے خلاف شعوری بیداری پیدا نہ
ہوسکے۔دوسری طرف عوام کے ذہنوں پر ایک ایسے انجان دشمن کا خوف بھی مسلط رکھا جاتا
ہے جو اُن کے رہن سہن اور اَمن و امان کو تہس نہس کرنا چاہتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران
سوویت یونین کے نام پر جس دشمن سے عوام کو ڈرایا جاتا تھا ، اُس کا خاتمہ بیسویں
صدی کی آخری دہائی میں ہوچکا تھا، اِس لیے عوام میں جنگی اخراجات میں
کمی اور عوامی سہولیات میں اضافے کے مطالبات جنم لینے کا امکان بڑھ رہا تھا۔
9
ستمبر 2001ء کا دن
ایسے
میں نائن الیون کا حیران کن واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے، جس میں دنیا کی سب سے بڑی
فوجی اور سائنسی طاقت، امریکا کے شہر نیویارک کے تجارتی مرکز پر اغوا شدہ
مسافر فضائی طیارے ٹکرائے۔ جِس کے نتیجے میں تھوڑی ہی دیر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی
دو عمارات زمین بوس ہوگئیں، جب کہ تیسری عمارت بغیر کسی جہاز کے ٹکرائے ہی ملبے کا
ڈھیر بن گئی۔ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا کہ ہوائی جہازکے جلنے والے تیل نے
لاکھوں ٹن وزنی سٹیل کے ڈھانچوں کو کس طرح پگھلا دیا۔ کیوں کہ ماہرین کے
مطابق ہوائی جہاز میں استعمال ہونے والا تیل مقدار اور درجہ حرارت کے لحاظ
سے یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ ایک دیو ہیکل عمارت کو زمین بوس کردے۔دوسری
طرف پینٹاگون کی عمارت کا ایک حصہ بھی تباہ گیا جس کی وَجہ جہاز ٹکرانا بتائی جاتی
ہے، لیکن موقع پر کسی جہاز کا ملبہ نہیں مل پایا۔ اس حوالے سے شکوک و شبہات کا
اِظہار کرنے پرآپ پر مغربی استعمار کے وفا دار میڈیا اور اُس کے خیر خواہ مشرقی
دانشوروں کی طرف سے فورا ًسازشی نظریات پریقین رکھنے والے غیر سنجیدہ انسان کا
لیبل لگ سکتا ہے۔ اِس لیے ہم نائن الیون کی تکنیکی تفصیلات کو فی الحال
نظرانداز کرکے اِس معاملےکے سیاسی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کو زیرِ غور لاتے ہیں۔
نائن
الیون کےذمہ داروں کا تعین
اِس
واقعے کی ذمہ داری افغانستان میں موجود اُن جنگجوؤں پر عائد کی گئی جنھیں خود
امریکی سامراج نےاسّی اور نَوّے کی دہائی میں پروان چڑھایا تھا۔ امریکی سامراج نے
اپنےتاریخی کردار کے عین مطابق خود ہی اسامہ بن لادن پر حملے کا الزام عائد کیا ،
خود ہی سزا سنائی اور خود ہی سزا پر عمل درآمد کرتے ہوئے افغانستان کا تورا
بورا بنا دیا۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے والے افراد کا تعلق امریکا کے حلیف
ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سے تھا، لیکن تب پوری دنیا میں خوف،
دہشت اور انتقام کی ایسی کیفیت پیدا کی گئی کہ دنیا کے نام نہاد ’مہذب اور
ترقی یافتہ ‘ممالک کی افواج اپنے جدید ترین اسلحے اور فوجی طاقت کی
بنیاد پر دنیا کے کمزور ترین ملکوں میں سے ایک پر ٹوٹ پڑیں۔ اِس وحشیانہ عمل کی
منظوری اقوام متحدہ جیسے نمائشی اور طفیلی ادارے سے بھی لی گئی، جس کا
بنیادی مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور انسانی حقوق کا تحفظ بتایا جاتا ہے۔
نائن
الیون کے سامراجی مقاصد اور انسانی معاشروں پر اثرات
وار
آن ٹیرر کے نام سے جس جنگ کا آغاز کیا گیا، اُس کے نتیجے میں امریکا اور اُس
کے حواریوں نے درج ذیل مقاصد حاصل کیے۔الف۔ مغربی اقوام میں اِسلام کو ایک انتہا
پسند مذہب اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کے روپ میں پیش کرکے عوام کو اسلاموفوبیا
کا شکار بنایا گیا۔ بدلے میں عوام سے سرمایہ داری نظام کی مکمل اطاعت اور شہری
آزادیوں پر قَدغَن کو قبول کروایا گیا۔
ب۔افغانستان
پر قبضے کے ذریعے سے وسطی ایشیا کے تیل اور گیس کے وسائل میں امریکی حصہ داری کو
یقینی بنایا گیا۔ دوسری طرف جنوبی ایشیا، روس اور چین کے ہمسائے میں رہتے ہوئے خطے
میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا گیا اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بدامنی پیدا کرنے
کی حکمت عملی بنائی گئی تاکہ پورے خطے کی ترقی اور یکجہتی کو نقصان پہنچایا جاسکے۔
ج۔
اِسی نام نہاد وار آن ٹیرر کے اگلے مرحلے میں میڈیا ہاؤسز کے ذریعے عراق میں جوہری
ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا اور پھر اقوام متحدہ سمیت تمام
مہذب ممالک کے انسانوں کی مخالفت کے باوجود عراق پر حملہ کر کے ایک پُرامن ملک کو
تباہ و برباد اور لاکھوں انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ تیل کے وسائل پر سامراجی
ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ قائم کیا گیااور ملک میں فرقہ وارانہ تضادات کو ابھار
کر خانہ جنگی پیدا کی گئی ۔ عراق کے بعد لیبیا اور شام پر قبضے کے لیے اِسی حکمت
عملی کو دوہرایا گیا۔ نتیجے کے طور پر لیبیا کے تیل کے وسائل پر مغربی کمپنیاں
قابض ہیں جب کہ لیبیا پچھلے آٹھ سال سے بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے۔ دوسری
طرف شام جیسےخود کفیل اور پرامن سماج کو تباہ کرنے کے لیے
امریکی سامراج اور اُس کے حلیف ممالک نےداعش اور دیگر دہشت گرد جنگجوؤں کو
ٹریننگ ،اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کی جس کے نتیجے میں ملک کا ایک بڑا حصہ کھنڈر
بن گیا اور لاکھوں افراد بے گھر ہوکر پناہ گزین بننے پر مجبور ہوئے۔ یہ الگ بات ہے
کہ شام اپنے مضبوط قومی نظام اور حلیف ملکوں کی مدد کے بدولت اِس خانہ جنگی
سے بچ نکلا ہے۔امریکا میں جو بائیڈن کی نئی حکومت آتے ہی ایک بار پھر شام پر حملوں
اور معاشی پابندیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
د۔پوری
دنیا میں عدم تحفظ اور جنگی جنون کی فضا پیدا کی گئی، جس کے نتیجے میں اسلحہ سازی
کی صنعت پر کھربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ اس رقم کا دسواں حصہ بھی اگر انسانی ترقی کے
کاموں پر خرچ کیا جاتا تو دنیا بھرسے بھوک، جہالت، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ
کیا جاسکتا تھا۔
ہ۔
دہشت گردی سے تحفظ کے نام پر سیکیورٹی کمپنیوں، کیمروں اورسکیننگ مشینوں وغیرہ کی
پوری ایک صنعت وجود میں آئی، جس کے نتیجے میں قومی اور تجارتی اخراجات میں اضافہ
ہوا اور تمام بوجھ عام عوام پر منتقل کردیا گيا۔
نائن
الیون کو گزرے آج انیس سال مکمل ہوچکے ہیں اور پوری دنیا پر یہ حقیقت آشکارا ہوچکی
ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی محض ایک بہانہ تھا۔ اصل مقصد دنیا کے کمزور ممالک
پر قبضہ اوران کے وسائل لوٹ کر مغربی دنیا میں قائم کردہ شیطانی جنت کو برقرار
رکھنا تھا۔
کرونا
وباکا آغازاور اموات کی غیرواضح صورتِ حال
جس
طرح نائن الیون کے بعد دنیا پہلے جیسی نہ رہی تھی، اسی طرح کرونا وبا کے بعد بھی
دنیا ہمہ گير تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اس وبا کی طبی تفصیلات تو طبی شعبے سے
وابستہ لوگ ہی بہتر جانتے ہوں گے، لیکن یہ بات سامنے لانا ضروری ہے کہ ایک ایسی
بیماری جس کا دائرہ پوری دنیا تک پھیل گیا ہو اور جس کے نام پر پوری دنیا کی
سیاسی، معاشی اور سماجی سرگرمیاں متأثر ہوئی ہوں، اُسے صرف ایک طبی معاملہ قرار
دے کرڈبلیو ایچ او (ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن) میں کام کرنے والے ملٹی نیشنل کمپنیوں
کے تنخواہ دار گنتی کے ڈاکٹروں اور ریاستی اربابِ اختیار کے ہاتھ میں نہیں
چھوڑا جاسکتا کہ جو ڈُگڈُگی وہ بجائیں، پوری دنیا کے انسان اُس پر بِلا سوچے سمجھے
ناچنے لگیں۔
اِس
وبا سے متعلق تفصیلات اور حقائق پر شکوک وشبہات اور تضادات کی ایک گہری چادر تَنی
ہوئی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ بیماری قدرتی ہےیا پھر اسے مصنوعی طور
پر پھیلایا گیا ہےاور اگربیماری مصنوعی ہے تو اسے پھیلانے کا ذمہ دار کونسا ملک
ہے۔ دنیا کی دو بڑی طاقتیں ، یعنی امریکہ اور چین ایک دوسرے پر اس بیماری کو
پھیلانے کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔اگر حیاتیاتی جنگوں کی سامراجی تاریخ کا
مطالعہ کیا جائے تو اس وائرس کا کسی لیب میں بننا اور اسے جان بوجھ کر
انسانی معاشروں میں پھیلا کر استحصالی مقاصد حاصل کرنا بَعیداَزقیاس
قرار نہیں دیا جاسکتا1۔
دوسری
طرف اِس بیماری سے ہونے والی اموات کا معاملہ بھی واضح نہیں ہے کیوں کہ مختلف
ممالک میں اِس کی شرح اموات مختلف ہے۔ ایک طرف امریکا جیسے ملک میں لاکھوں
افراد (مبینہ طور پر) اِس بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ دوسری
طرف پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں اِس کے نتیجے میں ہونے والی اموات
کی شرح انتہائی کم ہے۔ اس صورت ِحال کی ایک وضاحت تو یہ ہو سکتی ہے کہ زیادہ شرح
اموات رکھنے والے ممالک میں طبی شعبے کو یہ گائید لائن ملی ہوئی ہے کہ سانس کے
مسئلے کی وَجہ سے ہونے والی تمام اموات کی ممکنہ وَجہ کرونا قرار دی جائے چاہے
مریض کینسر جیسے دیگر موذی امراض میں مبتلا ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک مریض جو پہلے سے شوگر، بلڈ پریشر، امراض قلب ، کینسر یا
ہیپٹائٹس جیسے جان لیوا امراض کی آخری سٹیج پر ہے اور وفات کے وقت اس میں
کرونا وائرس کی بھی تصدیق ہوجاتی ہے، تو کیا اس کی موت کی بنیادی اور واحد وجہ
کرونا کو قرار دینا کیا طبی اور عقلی طور پر درست عمل ہے؟
کرونا
کیسز کے اعداد و شمار کی حقیقت
کرونا
کے نام پر حد سے زیادہ خوف کو پوری دنیا پر مسلط کیا جارہا ہے کہ جیسے یہ
دنیا کی سب سے خطرناک اور جان لیوا بیماری ہے، لیکن اگر اعداد و شمار کی
روشنی میں دیکھا جائے تو ایک مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ عالمی سطح پر دنیا میں
سالانہ تقریبا چھ کروڑ اموات ہوتی ہیں۔ اَب تک کے اعداد و شمار کے مطابق
دنیا بھر میں اٹھائیس لاکھ افراد اس مرض سے ہلاک ہوئے ہیں (حقیقت میں ہلاک
ہونے والوں کی بڑی تعداد ساٹھ سال سے زائد عمر کی اور دیگر بیماریوں میں مبتلا
تھی)۔کرونا سے مبینہ طور پر ہلاک ہونے والوں کی شرح نکالی جائے تو وہ کل اموات کا
صرف چار فی صد بنتی ہے۔
اگر
پاکستان کے حوالے سے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق
پاکستان میں روزانہ 4400 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں کرونا سے
اَب تک تقریباً 14 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں جو کہ قومی سالانہ شرح اموات کے
مطابق صفر اعشاریہ آٹھ فی صد بنتے ہیں۔
اس
کے مقابلے میں پاکستان میں صحت کی ناقص سہولیات اور صاف پانی و خوراک
کی عدم فراہمی کی وَجہ سے
·
ہیپٹائیٹس سے 400 افراد 2،
·
پانچ سال سے کم عمر 700بچے3،
·
ذچگی کے عمل کے دوران
140 خواتین4 اور
·
سگریٹ نوشی کی وجہ سے 300 افراد5
روزانہ
موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کرونا کی وَجہ سے ایک دن میں
زیادہ سے زیادہ اموات کی تعداد 20 جون 2020ء کو ریکارڈ کی گئی۔ اس دن 153
افراد مبینہ طور پر کرونا کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔ جب کہ پچھلے ایک سال (مارچ
2020ء سے مارچ 2021ء) کے دوران کرونا کےنتیجے میں ہونے والی اموات کا اوسط
صرف 38 افراد روزانہ بنتا ہے6۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 50
افراد کوروزانہ بچانے کے لیے پورے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی جاسکتی ہے، تعلیمی
ادارے اور کاروبار زبردستی بند کروائے جائے سکتے ہیں ، لاکھوں افراد کو بے روزگار
کیا جاسکتا ہے اور ملکی معیشت کو تباہ کیا جاسکتا ہے، تو سینکڑوں افراد روزانہ
مارنے والے سگریٹ کے خاتمے، صاف پانی کی فراہمی، حاملہ ماؤں اور معصوم بچوں کو
بچانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاسکتے؟ دیگر امراض اور اسباب کی وَجہ سے مرنے
والوں شہریوں کے حوالے سے انتہائی بے حِس ریاست، ایک نسبتاً کم جان لیوا
بیماری کے بارےمیں اتنی حساس کیوں ہے؟
اِسی
طرح یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک فی صد سے بھی کم شرح اموات کی حامل بیماری کو
ہرخبر نامے میں ہیڈلائن کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جب کہ بقیہ نناوے فی صدمرنے
والو ں کا تذکرہ اتنے زور و شور سے کیوں نہیں کیا جارہا؟ کیا ہیپٹائٹس،
کینسر یا ہیضہ سے مرنے والے انسان کمتردرجے کے ہیں جن کی موت کوئی
قابلِ ذکر واقعہ نہیں ہے؟
درج
بالا اعداد و شمار پیش کرنے کا مقصد کرونا سے ہونے والی اموات کو غیر اہم ظاہر
کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف یہ بات واضح کرنا ہے کہ کرونا کے نام پر جس خوف وہراس کی
فضا کو عالمی ذرائع ابلاغ، عالمی سامراجی اداروں اور مقامی حکومتوں کے ذریعے مسلط
کیا جارہا ہے، وہ کسی طور پربھی مناسب نہیں ہے۔ (جاری ہے)