نائن الیون، کرونا وبا اور عالمی سرمایہ داری نظام (حصہ دوم)
نائن الیون، کرونا وباء اور عالمی سرمایہ داری نظام کامختصر جائزہ
نائن
الیون، کرونا وبا اور عالمی سرمایہ داری نظام (حصہ دوم)
تحریر:
انجینئر محمد عثمان، فیصل آباد
کرونا
کے سلسلے میں حکومتی اقدامات کا جائزہ
دوسری
طرف کرونا کے نام پر کیے جانے والے حکومتی اقدامات بھی غیر منطقی معلوم ہورہے ہیں۔
چوں کہ ہر ملک کی صورتِ حال اور پالیسیاں مختلف اور پیچیدہ ہیں اور پاکستان میں
رہنے والے ایک عام شہری کے لیے دوسرے ممالک کی تفصیلات سو فی صد یقین سے
حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے دوسرے ملکوں کی پالیسیوں پر تبصرے کے بجائے
ہم اپنے تجزیے کو پاکستان تک محدود رکھیں گے۔
پاکستان
میں کرونا سے بچاؤ کے لیے جو اقدامات کیے گئے ، ان میں صنعت، کاروبار، ہوٹل اور
تعلیم سمیت زندگی کے دیگر شعبوں کی سرگرمیوں کو معطل کرنابھی شامل ہے۔
ابتدائی چند ماہ میں تو ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی بند یا انتہائی محدود کردی گئی
تھیں۔ اِن اقدامات کے نتیجے میں کتنے لوگ بے روزگار ہوئے، کتنے لوگ خط غربت سے
نیچے گرے، کتنے لوگوں کو اپنی سفید پوشی کا بَھرم توڑ کر دوسروں کے سامنے ہاتھ
پھیلانا پڑےاور کتنے سفید پوش اپنا بھرم برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ،کتنے لوگ
دوائی نہ خرید پانے یا ڈاکٹر کے دستیاب نہ ہونے سے ہلاک ہوئے اور کتنوں نےبیماری
کی اذیت میں وقت گزارا، اس حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے، لیکن اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ تعداد کروڑوں میں نہیں تو لاکھوں میں ضرور ہوگی۔
لاک
ڈاؤن کا حمایتی طبقہ
ایک
اَوربات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ کرونا کے نام پر لگائی جانے والی پابندیوں اور
لاک ڈاؤن کی وکالت کرنے والے لوگ یا تو کوئی پکی سرکاری نوکری کررہے ہیں جنھیں گھر
بیٹھے بٹھائے بھی پوری تنخواہ مل رہی ہے، یا پھر ایسی پرائیویٹ نوکری، صحافت یا آن
لائن کاروبارسے وابستہ افراد ہیں جنھیں یہ کرونا خصوصی طور پر راس آیا ہے۔
اس کے مقابلے میں انسانوں کی ایک بڑی اکثریت جن میں دیہاڑی دار مزدور طبقہ ،چھوٹا
کاروباری طبقہ اور نجی شعبے میں کام کرنے والے اساتذہ وغیرہ انتہائی تکلیف
دہ معاشی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں۔ جن پر بابا بلھے شاہ کا وہ شعر صادق آتا ہے
کہ’ جس تن لاگے، اوہی تن جانے‘۔ (مصیبت جس پر نازل ہوتی ہے وہی اس کی سختی کو
جانتا ہے) جب کہ باقیوں کے لیے تو وہ محض ایک خبرہوتی ہے۔
انسانی
قوتِ مدافعت اور خوف کا کاروبار
کرونا
وبا کے علاج سے متعلق ابتدائی دنوں میں تمام طبی ماہرین کا اتفاق تھا کہ چوں کہ
اِس وائرس کی کوئی دوا فی الوقت میسر نہیں ہے، اس لیے اِس کا بہترین علاج قوتِ
مدافعت کو مضبوط بنانا تجویز کیا گیا۔ لیکن حیران کن اَمریہ ہے کہ حکومتی پالیسیاں
ایسی بنائی گئیں، جس کے نتیجے میں قوت مدافعت مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوتی چلی
گئی۔ اور اس کی وَجہ یہ بنی کہ حکومتی اقدامات اور میڈیا نے ایک باقاعدہ منصوبہ
بندی کے تحت عوام پر اس بیماری کا خوف مسلط کردیا۔بڑھتے ہوئے کیسز اور اموات کے
تذکرے کو اس انداز سے پیش کیا گیا کہ سننے اور یکھنے والے غیر ارادی طور پر خوف
اور کرب کا شکار ہوتے چلے گئے۔یہ خوف اور کرب کی کیفیت انسانی قوت مدافعت کے لیے
زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس بات پرسوچ بچارکے بجائےکہ کرونا
کیسز کے اعداد وشمار کی تشہیر کرکے عوام الناس کو نفسیاتی مریض بنایا جارہا ہے یا
واقعی ان کی خدمت کی جارہی ہے۔ اِس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی کثیر تعداد
بغیر علاج کے ہی ٹھیک ہوجاتی ہے، لیکن جو لوگ خوف اور مایوسی کی کیفیت میں
چلے جائیں، اُن کی صحت میں بہتری کی امید کم ہونے لگتی ہے کیوں کہ بیماری کا حَد
سے بڑھا ہوا خوف قوت ِمدافعت کو کم کردیتا ہےاوراستعمال کردہ دوائی بھی
مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرپاتی۔ ایسے میں ڈاکٹر حضرات کا کردار بھی انتہائی اہم
ہوجاتا ہے کہ وہ مریض کو خوف میں مبتلا کرنے کے بجائے اُسے ہمت وحوصلہ دیں اور مرض
کے علاج پر توجہ مرکوز رکھیں۔
صحت
مند طرز زندگی کے اقدامات سے گریز کا سبب قوت مدافعت کی مضبوطی کے لیے صاف
غذا اور ورزش کی اہمیت بھی مسلّم ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ایک طرف تو
پارکس اور کھیلوں کی سہولیات کو بند کردیا گیا۔ جب کہ دوسری طرف بازار ، منڈیوں
اور کارخانوں میں لوگوں کی بھیڑ کی اجازت دے دی گئی ۔ اسی طرح لوگوں کو ماسک اور
سماجی فاصلہ اختیار کرنے کا وعظ تو بہت کیا گیا، لیکن صحت بخش گھریلو خوراک
کے فوائد، بازار وں میں دستیاب ناقص خوراک اور مضر صحت کولڈ ڈرنکس اور
تمباکو نوشی وغیرہ کے صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے کوئی مؤثر معلوماتی مہم نہیں
چلائی گئی اور نہ ہی کوئی عملی اقدامات کیے گئے۔کون نہیں جانتا کہ ٹھنڈی بوتلیں،
ٹھنڈا پانی اور بازاری تیل میں بنی خوراک کھانسی، زکام، بخار اور سانس کی بیماری
کی اہم وَجہ بنتی ہے۔ اَب کرونا کی ”سیکنڈ/تھرڈ/فورتھ ویو“کا شور تو ہر طرف
پھیلایا جارہا ہے،لیکن بیماری کی اہم وجوہات کا ذکر نہیں کیا جارہا ۔ شاید وَجہ
یہی ہے کہ کولڈ ڈرنکس اور جنک فوڈ کی ملٹی نیشنل انڈسٹری سے میڈیا کو
اشتہارات ملتے ہیں اور بیماری کی صورت میں دوائیاں بھی انھی کی شراکت دار ملٹی
نیشنل کمپنیوں کی بکتی ہیں۔
عالمی
امداد اور کرونا امدادکی بہتی گنگا
کرونا
کے نام پر پاکستانی حکومت کو اربوں ڈالر کی بین الاقوامی امداد ملی ہے، جس کا بڑا
حصہ ملک کے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ اِن سرمایہ
داروں نے ایک طرف لاکھوں ملازمین کو برطرف کیا۔ جب کہ دوسری طرف اِنھیں ملازمین کے
نام پر حکومت سے مراعات اور پرکشش قرضے حاصل کیے۔ حکومت کے پاس بھی اپنی نااہلی
اور اس کے نتیجے میں عوام کی مشکل تر ہوتی زندگی پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا کہ
اَب اگلے ایک دوسال تک ہر بحران کی وَجہ کرونا قرار دی جاسکے گی۔ یعنی اگرغورکیا
جائے تو کرونا کی اس بہتی گنگا میں حکومت، ریاستی اداروں، سرمایہ داروں،
میڈیاہاؤسز ، پرائیویٹ ہسپتالوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے خوب ہاتھ
دھوئے ہیں۔ جب کہ عوام سے خوراک کا آخری نوالہ اور پانی کا آخری قطرہ تک
بھی چھین لینے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔
یہاں
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کے لیے پانچ چھ بڑے
شہروں کو تو بند کردیا گیا، جب کہ بقیہ پورا ملک خصوصاً دیہات اور قصبات میں
معمول کے مطابق زندگی رواں دواں رہی اور وہاں کرونا کیسز کی تعداد بھی نہ ہونے کے
برابر رہی۔ اسی طریقے سے جن فیکٹریوں ، سرکاری ونجی کاروباری اداروں میں
مزدوروں کی ضرورت تھی، وہاں نام نہاد ایس او پیز کے نام پر بیش تر کاروباری
سرگرمیوں کو بحال کردیا گيا۔ شادی ہال اور ہوٹلوں کو بند کرنے کا نمائشی اقدام بھی
کسی قسم کی ٹھوس حکمت عملی سے عاری نظر آیا۔
کرونا
کے نام پر شعبہ تعلیم کی تباہی
شعبہ
تعلیم کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ
کرونا کے نام پر ایس او پیز کی سب سے زیادہ پابندی تعلیمی اداروں میں کی گئی۔ لیکن
اِس کے باوجود تعلیمی شعبے کو عارضی طور پر بند کرکے اسے آن لائن ذریعہ تعلیم پر
منتقل کر کے طلبہ کی ذہنی استعداد اورپہلے سے گئے گزرے تعلیمی معیار کا بیڑہ
غرق کردیا گیا ہے۔نہ استاد ٹھیک سے اپنی بات سمجھا پارہا ہے اور نہ شاگرد سبق کو
سمجھ پارہا ہے۔ اِس حکمت عملی کے نتیجے میں بڑے تعلیمی برینڈز اداروں اور
یونیورسٹیوں کی تو چاندی ہوگئی ہے کہ انہیں بیٹھے بٹھائے پوری فیسیں مل رہی ہیں۔
جب کہ ان کے اخراجات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔لیکن اس کےنتیجے میں چھوٹے
تعلیمی ادارے، اکیڈمیاں، ٹیوشن سینٹرز کے مالکان اور ان میں پڑھانے والے
اساتذہ کی معاشی صورت حال انتہائی قابل رحم ہوچکی ہے۔
انسانی
نفسیات اور اخلاقی اقدار پر حملہ
کرونا
کے نام پر پیدا کردہ خوف کی اِس فضا کے انسانی نفسیات پر بھی انتہائی منفی اثرات
مرتب ہورہے ہیں۔ اس وبا کے نتیجے میں پیداکردہ صورتِ حال کا سب سے خطرناک حملہ
انسانی اقدار اور اجتماعی رویوں پر ہوا ہے۔ لوگوں کو حَد سے زیادہ خوف زدہ کرکے
اُن میں سے انسانیت، ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات ختم کیے جارہے ہیں ۔حتیٰ
کہ خاندان جیسے بنیادی اجتماعی ادارے میں خودغرضی اور انفرادیت کو پروان چڑھایا
جارہا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ کےوالدین، بہن بھائی اور شریک حیات بیماری میں
مبتلا ہوں، اور آپ بیماری سے ڈر کر انھیں اپنے آپ سے الگ کردیں۔ جدید
تحقیق بھی اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ بیماری کی صورت میں سماجی میل جول (سوشل
سپورٹ) اور جذباتی وابستگی کے مریض کی صحت یابی پر مثبت اثرات مرتب
ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ کرونا کا شکار ہونے
والے افراد کی اکثریت نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہورہی ہے اور کرونا کے مرض سے زیادہ
محنت مریض کو مایوسی اور ڈپریشن سے نکالنے میں لگ رہی ہے۔ خود غرضی، انفرادیت، خوف
، لاتعلقی اور بے حِسی کے نتیجے میں پیداہونے والے اِن نفسیاتی رویوں کا مستقبل
میں کیا نتیجہ نکلے گا، اور اس کے نتیجے میں سماج بیزاری کے کون کون سے منفی رویے
پروان چڑھیں گے اِس بات کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
ویکسین ، فیس ماسک اوردیگر طبی اشیاکا کاروبار
ایک
مشہور مقولہ ہے کہ سرمایہ پرست ذہنیت کے لوگوں کو اگر پھانسی دی جائے، تو یہ لوگ
منافع کے حصول کے لیے اپنی پھانسی کے لیے استعمال ہونے والی رسی بیچنے کا کاروبار
شروع کردیں گے۔ یہی معاملہ کرونا وبا کے دوران بھی جاری ہے کہ ایک طرف انسانیت
بیماری اور اُس کے نام پر کیے جانے والے بے تکے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے تکلیف اور
پریشانی میں مبتلا ہے، جب کہ دوسری طرف سرمایہ پرست ذہنیت کے لوگ اس موقع سے فائدہ
اٹھانے کےلیے میدان میں متحرک ہیں۔ لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منہ
مانگی قیمت پر چہرے پر لگانے والے ماسک، سینیٹائزر ، جان بچانے والے انجکشن اور
دیگر طبی اشیا بیچنےمیں مصروف ہیں۔ حال آں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ پہنا
جانے جانےوالا فیس ماسک وائرس کو انسان کے اندر جانے سے روک بھی سکتا ہے یا نہیں
یا بکنے والا سینیٹائزر وائرس کو انسانی ہاتھوں سے ختم کربھی سکتا ہے یا
نہیں۔لیکن شاید ماسک اور سینیٹائزر سے وائرس کے خاتمے کے بجائے صرف اِس بات کا
اِظہار مقصود ہے کہ ماسک لگانے والا خود بھی خوف زدہ رہے اور دوسروں کو بھی ایک
انجانے خطرے سے خوف زدہ رکھے۔
حال
ہی میں دنیا کے مختلف ممالک اور دوا ساز ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کرونا وائرس
کے لیے حفاظتی ویکسین بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ویکسین وبا کے تدارک کے لیے کس حد
تک اور کتنے عرصے کے لیے مؤثر ہے اور انسانوں پر اِس کے کیا
مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوں گے ، اس حوالے سے کوئی یقینی معلومات فی الحال
میسر نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اِس ویکسین کے ذریعے دوا ساز ملٹی
نیشنل کمپنیوں کے وَارے نِیارے ہوجائیں گے اور ویکسین کے نام پر ہر سال وہ اربوں
ڈالر عوام سے نکلواتی رہیں گی۔ یہاں پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کا ذکر
دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے اور
مقامی مافیا بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے آجاتے ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ روس کی تیار
کردہ سپٹنک وی نامی ویکسین بھارت میں 20ڈالر جب کہ پاکستان میں 80 ڈالر میں بک رہی
ہے۔
بقیہ
تمام امور کی طرح ، ویکسین کے گرد تخلیق کردہ کرونا کہانی بھی تضادات کا مجموعہ
ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر کرونا وائرس کی تیسری لہر آچکی ہے، تو پہلی لہر کے لیے بنائی
جانے والی ویکسین تیسری لہر والے وائرس کے لیے کیسے کارگرثابت ہوگی؟ عین
ممکن ہے کہ مستقبل میں کرونا وبا کی آڑ میں شخصی آزادیوں مثلاً سفر اور تعلیم حاصل
کرنے کی آزادی کو کرونا ویکسین کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور جو لوگ یہ ویکسین لگانے
کی استطاعت نہ رکھتے ہوں، انھیں اُن کےاِن بنیادی حقوق سے ہی محروم کردیا جائے۔
حاصلِ
بحث
درج
بالا نکات سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ کرونا وبا محض ایک طبی معاملہ نہیں ہے جسے
ڈاکٹروں ، صحافیوں اور حکمرانوں کی منشا پر چھوڑ دیا جائے، بلکہ یہ ایک سیاسی ،
سماجی، معاشی، نفسیاتی اور بین الاقوامی مضمرات رکھنے والا معاملہ ہے،
جس کے تمام انسانیت پر انتہائی گہرے اور دور رَس اثرات مرتب ہوں گے۔
ایسے میں باشعور افرادکو آنکھیں اور دماغ بند کر کے کسی بھی بات کو قبول
کرنے سے انکار کرنا ہوگا، چاہے وہ بات کتنے ہی بڑے عالمی یا بین اقوامی ادارے کی
طرف سےہی کیوں نہ کی جائے۔ خاص طورپر میڈيا کے موضوعات کا تنقیدی جائزہ لیا
جائے کہ یہ کن جزوی موضوعات میں ہمیں اُلجھا کر اصل اور بنیادی مسائل سے ہماری
توجہ ہٹا رہے ہیں۔
فطرت
نے کائنات میں ہر چیز کی بقا اور نشوونما اعتدال و توازن میں رکھی ہے۔ یہی حال
انسانی جذبات کا بھی ہے کہ یہ اگر ایک حَد کے اندر رہیں تو انسانی فائدے اور ترقی
کا باعث بنتے ہیں۔ مثلا ًخوف اور دلیری کے جذبات، عقل کے ساتھ مل کر انسانیت کو
خطرات سے بچاتے ہیں۔ لیکن خوف اگر اِس حد تک بڑھ جائے کہ وہ انسان کی سوچنے
سمجھنے اور خطرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کردے تو انسان ایک ایسی کٹھ پُتلی
بن جاتا ہے جس کا ریموٹ کنٹرول خوف پھیلانے والی طاقت کے ہاتھ میں ہوتاہے۔
عین
ممکن ہے کہ وبا سے تحفظ کے نام پر موجودہ سرگرمیاں مستقبل کے نئے
عالمی بندوبست کےحوالے سے ایک تجرباتی مشق کے طور پر کی جارہی ہوں، جس میں
دنیا کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں تعلیم، کاروبار اور انسانی روابط کاموجودہ
نظام مکمل طور پرتبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ انسانیت دشمن عناصر انسانیت کو
اپنا تابعِ فرمان رکھنے کے لیے ایک پراسرار اور انجانے دشمن کا خوف طاری کیےرکھتے
ہیں۔آج یہ خوف ایک ایسی بیماری کے نام پر مسلط کیا جارہا ہے جس کے حوالے سے
تفصیلات، طریقہ کار اور اعداد وشمار انتہائی غیر واضح اور مبہم ہیں۔ پورے
منظر نامے پر غیر یقینی کی دھند چھائی ہوئی ہے۔اس سلسلے میں اس بات کی پرواہ نہیں
ہونی چاہیے کہ غالب بیانیے سے معمولی سا اختلاف آپ کو ایڈیٹ(احمق)، گمراہ
کن، غیر سائنسی اور کانسپائریسی تھیورسٹ جیسے القابات کا حقدار بنا سکتا ہے۔جیساکہ
مشہور اسرائیلی صحافی جوناتھن کک کے مضمون ” انسانیت کے لیے تباہ کن نظام:
ہم لاعلم کیوں؟“ میں لکھتے ہیں ۔
” اگرآپ اپنی سیاسی بصیرت اور دنیا کو دیکھنے کے انداز کو واضع
سچائیوں پر قائم کریں گے اور طاقتور ترین طبقات کو مشکوک نگاہوں سے دیکھیں گے
(کیونکہ یہی طبقات طاقت کے بدترین استعمال کا اختیار اور خواہش رکھتے ہیں)، تو آپ
کو حقارت آمیز تمسخر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کو سازشی نظریات اور خیالی دنیا
میں رہنے والا کہا جائے گا۔ آپ کو انگور کھٹے ہونے، احساس کمتری کا شکار، امریکا
کا مخالف، ایک جھگڑالو، ماضی پرست، اسرائیل مخالف، مغربی تہذیب کا مخالف، روسی صدر
پیوٹن اور بشار الاسد کا حامی یا مارکسسٹ ہونے کا طعنہ دیا جائے گا۔
اور
اِس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ طاقت کا نظام اور اُس سے فائدہ
اٹھانے والے افراد اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
جب میڈیا، سیاستدان اور تعلیمی نظام آپ کے ماتحت ہوں تو مخالفین کے دلائل کا
منطقی جواب دینے کی بجائےانہیں حقارت سے ”مخبوط الحَواس“ قرار دلوادینا زیادہ
آسان اور فائدہ مند کام ہوتا ہے۔
درحقیقت، یہ بہت اہم ہے کہ
کسی بھی تبادلہ خیال یا حقیقی بحث کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جائے، کیونکہ جس لمحے
ہم مختلف دلائل کو شعوری اور تنقیدی انداز میں تولنا شروع کرتے ہیں، عین اُس لمحے
یہ امکان پیدا ہونے لگتا ہے کہ ہماری آنکھوں کے آگے موجود پردے غائب ہونے لگیں
گے۔ ایسے میں یہ خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ ہم سکرین سے پیچھے ہٹ کر مکمل تصویر دیکھنے
کے قابل ہوجائیں گے۔7 “
موجودہ حالات میں ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم مثبت اور تعمیری مکالمے کو فروغ دیں ،نِیز یہ ک حد سے بڑھے
ہوئےخوف کی اس فضا سے خود بھی نکلیں اور دوسروں کو بھی نکالیں۔ کیوں کہ انسانیت نے
آج تک کا ارتقائی سفر ہمت، حوصلے، سوال اور عقل و شعور کی بنیاد پر ہی کیا ہےاور
ابھی انسانیت نے اپنی فطری تقاضوں کی تکمیل کے لیے مزید آگے بڑھنا ہے۔ (ختم شد)
حوالہ
جات:
.1 https://baseeratafroz.pk/article/268
.2 https://www.thenews.com.pk/print/348089-400-people-losing-life-to-hepatitis-in-pakistan-daily
.3 https://data.worldbank.org/indicator/SH.DYN.MORT?locations=PK
.4 https://www.dawn.com/news/1595085
.5http://tcc.gov.pk/activities.php#:~:text=Tobacco%20use%20is%20single%20largest,is%20298%20deaths%20per%20day.
.6https://covid.gov.pk
.7http://daanish.pk/32305