تحریک آزادی:ایک مختصر تعارف
زندہ قومیں اپنی تاریخ کو فراموش نہیں کرتیں بلکہ اس سے سبق سیکھ کر مستقبل کالائحہ عمل متعین کرتی ہیں ۔تحریک آزادی ہندوستان کی قوم کا ایک سنہری باب ہے۔
تحریک آزادی : ایک مختصر تعارف
اسد علی خان۔ مانسہرہ ۔
ہندوستان کی تحریک آزادی اس خطے کی تاریخ کا سنہری باب ہے جوہمیں جدوجہد کی حقیقت اور حریت کی اہمیت سکھاتا ہے ۔
اس مضمون میں تحریک آزادی پر ایک تعارفی پس منظر کے ساتھ چند نکات زیر بحث لائے جائیں گے ۔
" ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد "
ہندوستان کی سرزمین سے مسلمانوں کا بہت قدیم تعلق ہے، جنوبی ھندستان میں قدیم ترین مسجد کا وجود اس کا ایک ثبوت ہے۔ 712 ء میں اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے عہد کے دوران محمد بن قاسم کی قیادت میں ایک لشکر، شمالی سندھ میں دیبل کے ساحل سے داخل ہوا اور یوں ملتان تک پورا سندھ مسلم قلمرو میں شامل ہوگیا جبکہ شمال مغرب سے مسلمانوں کی آمد 1001ء میں سلطان محمود غزنوی ؒ کے عہد سے ہوئی۔اس نے اس سال میں ہندوستان کا قلعہ"ہنڈ " فتح کیا چناں چہ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں :
" ہم ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ 1001 ء سے شروع کرتے ہیں " کہ مسلمان یہاں آباد ہو کر اسے اپنا وطن بنا لیتے ہیں،اس کی ترقی و خوشخالی میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس دوران کئی عظیم الشان سلطنتیں قائم ہوتی ہیں جیسے خاندانِ غلاماں ، خلجی سلطنت ، تغلق سلطنت ، لودھی سلطنت اور مغل سلطنت وغیرہ ۔
" مسلمانوں کا ہندوستان میں اجتماعی کردار "
مسلمانوں نےاس عرصے میں ہندوستان کواپنا وطن بنالیا اور اسے زراعت ، تجارت اورصنعت وحرفت میں نہ صرف خود
کفیل بنایا بلکہ اسی بنیاد پر ہندوستان، بیرونِ دنیا میں " سونے کی چڑیا " کہلانے لگا جبکہ سیاسی حوالے سے ہندوستان کثیر القومی اور کثیرالمذاہب خطہ ہونے کے باوجود ایک وحدت بنا جس کے نتیجے میں معاشرے میں اخلاقی قدریں بلند ہوئیں ۔
پندرہویں صدی عیسوی میں یورپ میں مشین کی ایجاد اور مال کی پیداوار نے سرمایہ کاروں کو نئی منڈیوں کی تلاش کی طرف مائل کیا اور انہوں نے ہندوستان کا رخ کیا ۔
" غلامی کی شروعات "
بقول سید طفیل احمد منگلوری، 1601ء میں برطانوی کمپنی " ایسٹ انڈیا کمپنی " کے نام سے ہندوستان میں تجارت کا آغاز کرتی ہے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اثرورسوخ بڑھتا ہے یہاں تک کہ یہ سلوگن دہلی کی گلیوں میں گونجنے لگا "خلق، خداکی، ملک، بادشاہ کا اور حکم، کمپنی بہادر کا" اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے امام شاہ عبد العزیز نے ھندستان کو مقبوضہ علاقہ قرار دے کر حصول آزادی کی اہمیت کو اجاگر کیا، اور ان کی نگرانی میں سید احمد شہید کی تحریک منظم ہوئی، جس کی بعد ازاں امام شاہ محمد اسحاق نے سرپرستی کی، اس تحریک کا ایک دور بالا کوٹ میں اختتام پذیر ہوا۔ بعد ازاں انگریز کمپنی کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں کے خلاف ھندستان کے مسلمہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں 1857ء میں ملک بھر میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا جس کو تاریخ میں انگریز حکومت کی طرف سے "غدر" کہا اور کہلوایا گیا حالانکہ انگریزوں نے ایک جائز قومی حکومت کے مقابلے پر "غدر" کا ارتکاب کیا حتیٰ کہ بادشاہ وقت کو گرفتارکر کے برما بھیج دیا۔ آزادی حاصل کرنےکی اس اجتماعی قومی جدوجہد میں ہندوستان کی تمام اقوام نے بلا تفریق مذہب مل کر حصہ لیا تھا۔حریت پسند علماء ربانیین کی ایک جماعت، مرد مجاہد حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃاللہ علیہ کی قیادت میں شاملی کے میدان میں انگریز کے خلاف پیش پیش رہی، اس میں حضرت حافظ محمد ضامن سمیت کئی افراد شہید ہوئے، کئی افراد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، حتی کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کو سزائے موت تک سنادی گئی(جو بعد ازاں ایک عمومی اعلان کے ضمن میں ختم ہوئی) حضرت حاجی صاحب، اگلی حکمت عملی کے لیے خفیہ طور پر حجاز تشریف لے گئے بقول حضرت مولانا عبیداللہ سندھی، آپ نے مکہ معظمہ میں فیصلہ کیا کہ " امام عبد العزیز کے مدرسہ کی طرح دہلی سے باہر مدرسہ بنایا جائے اور امام شاہ محمد اسحاق کے طریقہ پر نئی جماعت تیار کی جائے " چنانچہ ان کے خاص تربیت یافتہ اور خلیفہ اجل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے اسے شیخ کا حکم سمجھتے ہوئے چند سال کی محنت سے 1866ء کو دیوبند میں مدرسہ قائم کر دیا ۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ساتھ اس عمل میں حضرت حاجی امداداللہ کے ایک اہم خلیفہ (بعد میں جانشین) مولانا رشید احمد گنگوہیؒ بھی پیش پیش رہے ۔ اسی سے انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کے ایک نئے دورکا آغاز ہو جاتا ہے ۔
تحریک آزادی، دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعدمختلف مراحل سے گزرتی ہے اور کئی ایک عظیم الشان ہستیاں اس تحریک میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں .
" تحریک آزادی میں حضرت شیخ الہند کا کردار "
تحریک آزادی کے اگلے دور میں ایک عظیم انسان "شیخ الہندؒ " کے خطاب سے موسوم ہوئے جن کا اسم گرامی مولانا محمود حسن ؒ ہےجو دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد، حضرات ثلاثہ (حضرت حاجی صاحب،حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی) کے فیض یافتہ اور اس کے قیام کے مقصد کے نگہبان تھے۔انہوں نےاس تحریک کو مزید تقویت فراہم کی اور ساتھ ہی ساتھ آ زادی کے متوالوں کی تربیت کا ذمہ بھی لیا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کئی ادارے بھی قائم کیے گئے : مثلا انجمن ثمرۃ التربیت ، جمعیۃ الانصار اور نظارۃ المعارف القرآنیہ وغیرہ ۔
شیخ الہندؒ کمال صلاحیتوں کے مالک تھے انہوں نے تحریک ِ آزادی کو کامیاب بنانے کے لیے افراد سازی کی اور انہیں منظم کرنے کے لیے پورے ہندوستان میں اہم جگہوں پر کئی مراکز بنائے۔ اس تحریک کو انگریز حکومت نے ریشمی رومال کا نام دیا۔
" تحریک آزادی کے مراکز اور مختصر تفصیل "
یہ تحریک آزادی ایک عالمی حکمت عملی رکھتی تھی جس میں عثمانی خلافت کے کردار کو اساسی حیثیت حاصل تھی، اسی ضمن میں کابل حکومت کا تعاون حاصل کرنا بھی اہمیت کا حامل تھا، اس تحریک کے برصغیر اور اس سے باہر پھیلے نیٹ ورک کی مکمل معلومات صرف تحریک کے اساسی ارکان کے پاس راز رہیں، انگریز کی خفیہ ایجنسیوں نے بہت زور لگاکر کچھ معلومات حاصل کیں۔ اس تحریک کے جو چند مراکز تاحال علم میں آسکےوہ درج ذیل ہیں۔
1 -دیوبند 2 -دہلی 3 -گوٹھ پیر جھنڈو 4 -دین پور 5 -امروٹ 6- کراچی 7- چکوال 8- ترنگ زئی 9- یاغستان 10- کابل 11- رائے پور 12 - پانی پت 13 -راجھستان 14 -مدینہ منورہ
دیوبند
دیوبند کو تحریک ِآزادی کا ہیڈ کوارٹر ہونے کا شرف حاصل ہے اور یہ مرکز براہ راست حضرت شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن کی زیر سرپرستی تھا ۔
دہلی
دہلی ہندوستان کی سیاست کا مرکز تھا ، اس لیے تحریک آزادی کا یہ مرکز بہت اہم تھا اور یہ ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ کی زیر نگرانی تھا ۔
گوٹھ پیر جھنڈو
سندھ کی سرزمین پر آزادی کی شمع جلانے والے عظیم انقلابی رہنما مولانا عبید اللہ سندھی ؒ نے یہ مرکز قائم کیا تھا ۔
دین پور
یہ مرکز دین پور (تحصیل خان پورضلع رحیم یار خان) میں تھا اور سلسلہ قادریہ راشدیہ کے عظیم بزرگ حضرت حافظ محمد صدیق ؒ کے خلیفہ حضرت غلام محمد دین پوریؒ کی زیرِ نگرانی تھا ۔
امروٹ شریف
یہ مرکز ضلع شکار پور میں تھااور مولانا تاج محمود امروٹی ؒ کی زیر نگرانی تھا ۔
کراچی
یہ مرکز کراچی کے علاقہ کھڈہ میں تھا اور مولانا محمد صادق کراچویؒ کی زیرِ نگرانی تھا ۔
چکوال
یہ مرکز پنجاب کے علاقہ چکوال میں تھا اور مولانا محمد احمد چکوالیؒ کی زیرِ نگرانی تھا جو مولانا احمد علی لاہوری کے سسر تھے ۔
یاغستان ( باجوڑ )
یہ مرکز جنگِ عظیم اول کے دوران قائم ہوا اور حضرت حاجی فضل واحد صاحب ترنگ زئیؒ اس کے سرپرست تھے ۔ خان عبد الغفار خان بھی اس میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔
کابل
یہ مرکز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تھا اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے کابل جانے کے بعد منظم ہوا ۔
رائے پور
یہ مرکز تحریک ِآزادی کے اہم ترین مراکز میں شامل تھا جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے جانشین مولانا شاہ عبدالرحیم ؒ رائے پوری کی زیرِ سر پرستی تھا۔ حضرت رائے پوری، حضرت شیخ الھند کے حجاز سفر کے بعد تاحیات ھندستان میں اس پوری تحریک کے نگران اعلی تھے ۔
پانی پت
یہ مرکز ہندوستان کے ضلع کرنال کےعلاقہ پانی پت میں تھا اور اس کے روحِ رواں مولانا احمداللہ پانی پتیؒ تھے ۔ اس کے علاوہ ایک مرکز ہندوستان کے علاقہ راجھستان میں بھی تھا۔
مدینہ منورہ
یہ مرکزحضرت شیخ الہندؒ کےحجاز جانے اور مدینہ منورہ میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے پاس قیام سے معروف ہوا۔
" مراکز حریت کا کردار "
مراکز حریت کے ذریعے نہ صرف پورے ہندوستان میں آزادی اور حریت پسندوں کو منظم کیا گیا بلکہ انگریز سامراج کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے بھرپور کوشش کی گئی ۔
ان مراکز کا آپس میں کمال درجے کا ربط تھا اور تمام اہم رہنما وقتا فوقتا رہنمائی کے لیے دیوبند اور رائے پور تشریف لاتے۔اسی تحریک کے دوران آپس میں خط و کتابت اور پیغام رسانی کے لیے ریشمی رومال کا استعمال بھی کیا گیا جو انگریز حکومت کے ہاتھ لگ گئے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حریت پسندوں پر ہندوستان کی سرزمین تنگ کر دی گئی اور پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ اسی دوران گورنر مکہ نے خلافت عثمانیہ سے بغاوت کردی اور برطانیہ کا ایجنٹ بن گیا، اس نے حضرت شیخ الھند سے عثمانی خلافت کے خلاف فتویٰ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ کو مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عزیر گل اور دیگر رفقاء سمیت گرفتارکرکے مالٹا جزیرہ کی جیل بھیج دیا گیا (انگریز جنہیں اپنا سب سے بڑے درجے کا دشمن سمجھتا تھا، انہیں یہاں قید رکھا جاتا تھا)
انگریز حکومت نے تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے1919ء رولٹ ایکٹ کا نفاذ کیا جس کی رو سےچار یا اس سے زائد آدمیوں کے اجتماع پر پابندی لگا دی گئی اور پولیس کسی بھی شخص کو شبہ کی بنا پر گرفتار کر سکتی تھی ۔ اس ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا، اسی طرح کا ایک اجتماع امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہوا، جس کے خلاف انگریز سرکار نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور سینکڑوں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی مگر ہندوستانی عوام کی تحریک، بھرپور جذبات کے ساتھ جاری رہی۔
1920ء میں حضرت شیخ الھند اور ان کے رفقاء مالٹا سے رہا کردیے گئے، شیخ الھند نے بیماری کی شدت کے باوجود آزادی کی جد و جہد جاری رکھی اور آئندہ کے لیے قومی اساس پر عدم تشدد کی حکمت عملی وضع کی مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور رہائی کے پانج ماہ بعد وہ قید حیات سے بھی آزاد ہوگئے، تاہم ان کے تربیت یافتہ شاگردوں کی زیر قیادت تحریک ِخلافت اور تحریک عدم تعاون کی صورت میں تحریک آزادی جاری رہی چنانچہ علماء حق اور مجاہدین آزادی کی قیادت میں نوجوانوں اور دیگر طبقات زندگی نے بھاری تعداد میں گرفتاریاں دیں ۔عوام بلاخوف و خطر تسلسل کے ساتھ ان میں شریک ہوتے رہے، حتی کہ سول نافرمانی کے ذریعے انگریزی نظام کو بے دست و پا کردیا گیا۔
تحریک ِآزادی کی اس عظیم جدوجہد، علماءِ حق کی اس شاندار اور منظم کوشش اور جنگ عظیم دوم کے بعد کے حالات نے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا، اس نے ردعمل میں یہاں فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ھندو مسلم تفریق کو ہوا دےکر اپنا انسان دشمن ایجنڈا پورا کیا۔
تحریک آزادی نے ہندوستان کی قوم میں آزادی و حریت کا جو جذبہ بیدار کیا اس کی مثال اس عہد کی عالمی تاریخ میں نہیں ملتی۔اسی نے نہ صرف انگریز کو بادل ناخواستہ برصغیر چھوڑنے پر مجبور کیا بلکہ اس نے کئی ممالک کی آزادی کا راستہ بھی ہموار کیا، جس کا آزادی پسند بین الاقوامی رہنماؤں نے برملا اعتراف بھی کیا۔
" آج کی ضرورت "
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو آزادی کی حقیقی جدوجہد کرنے والےان عظیم رہنماؤں کا تعارف کروانا چاہیے اور انہیں بتاناچاہیے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ایشیا و افریقہ کے کئی ممالک کی نو آبادیاتی نظام سے آزادی ان علماءِ حق اور عظیم رہنماؤں کی مرہون منت ہے ۔