حالیہ صدارتی الیکشن اور تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ
ہماری سیاست کی اس ریت کو آپ حالیہ صدارتی الیکشن میں دیکھیں تو آپ کو بہت سی ان کہی کہانیاں سمجھ آجائیں گی کہ کس طرح متفقہ اپوزیشن کے دو امیدوار سامنے آ
حالیہ صدارتی الیکشن اور تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ
تحریر : محمد عباس شاد ،لاھور
متحدہ ہندوستان میں 1937 کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات آئے تو سردار سکندر حیات جو یونیونسٹ پارٹی کے صدر، متحدہ پنجاب کے گورنر اور ریزرو بنک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر رہ چکے تھے اور 1937 کے الیکشن کے بعد وہ متحدہ پنجاب کے وزیر اعظم بھی بنے. انہوں نے چاہا کہ کسی نہ کسی طرح مولوی غلام محی الدین قصوری ایڈووکیٹ کو بھی اس صوبائی الیکشن میں ممبر چن لیا جائے . مولوی صاحب بڑے اعلٰی درجے کے مقرر تھے. اور قومی سرگرمیوں میں حصہ لیتے چلے آ ئے تھے لیکن ووٹ لینا ان کے بس کا روگ نہیں تھا. سردار سکندر حیات نے شیخوپورہ کی ایک دیہاتی نشست سے ان کے کاغذات نامزدگی داخل کرادیئے. اور اس کے ساتھ ہی علامہ عبداللہ یوسف علی( جو ایک علمی مزاج کے آدمی تھے وہ زندگی کے آخری ایام میں اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اس کے حواشی بھی لکھے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف میں انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ، مصنوعات ریشم، یوگوسلاویہ اور سربیاکا فن سنگ تراشی، ازمنہ وسطیٰ کا ہندوستان، تشکیل ہنداور ہندوستانی مسلمان کے نام سرفہرست ہیں۔) سے بھی کہا کہ آپ بھی کاغذات نامزدگی جمع کروادیں. کیونکہ آپ جیسے لائق فائق آدمی اسمبلی میں آجائیں تو وزارت میں مسلمانوں کی مؤثر نمائندگی ممکن ہوسکتی ہے. علامہ عبداللہ یوسف علی ان کی باتوں میں آ گئے اور امیدوار بن بیٹھے. ان کے علاوہ علاقے کے ایک بڑے زمیندار کو بھی امید وار بنا کر کھڑا کردیا گیا. سردار سکندر حیات نے ووٹنگ سے چند ہفتے پہلے اس زمین دار سے کہا کہ تمہارے علاقے کی خوش نصیبی ہے کہ علامہ عبداللہ یوسف علی جیسی علمی شہرت کی حامل علمی شخصیت آپ کے علاقے سے الیکشن لڑرہی ہے اگر یہ یہاں سے ہار گئے تو آپ کے علاقے کے معززین کی بہت سبکی ہوگی اور وہ آپ کے علاقے کے لیے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا آپ اپنا نام واپس لے لیں سکندر حیات نے ان کو کاغذ واپس لینے پر آمادہ کرلیا اور اس کے ساتھ ہی علامہ عبداللہ یوسف علی سے بھی بات چیت شروع کردی کہ ہماری تو بہت خواہش تھی کہ آپ جیسا لائق آدمی اسمبلی میں موجود ہو لیکن آپ کے مقابلے میں علاقے کا یہ جو بڑا زمیندار آگیا ہے اس کو ہرانا بہت مشکل ہے. ہمیں خدشہ ہے آپ ہار جائیں گے اس سے آپ ہی نہیں بلکہ علمی وقار کو بہت بڑا دھچکا لگے گا. لھذا ہمارا خیال ہے آپ اپنا نام واپس لے کر اپنی عزت بچالیں. علامہ عبداللہ یوسف علی اپنی عزت بچانے کے خیال سے اپنا نام واپس لینے پر راضی ہوگئے.
اب جب کاغذات نامزدگی واپس لینے کا وقت آیا تو زمیندار بھی بیٹھ گیا اور علامہ عبداللہ یوسف علی بھی. اس طرح مولوی غلام محی الدین قصوری ایڈووکیٹ بلا مقابلہ منتخب ہوگئے. اس لطیفے کا تذکرہ مدتوں لاھور کی سیاسی زندگی میں بہت ہی مزاحیہ انداز سے ہوتا رہا.
ہماری سیاست کی اس ریت کو آپ حالیہ صدارتی الیکشن میں دیکھیں تو آپ کو بہت سی ان کہی کہانیاں سمجھ آجائیں گی کہ کس طرح متفقہ اپوزیشن کے دو امیدوار سامنے آجاتے ہیں اور پھر وہ حق اور اصول کے نام پر آخر تک ڈٹے رہتے ہیں. نہ جانے اس سیاست کے پس پردہ کہاں کہاں کو ن کون سا سردار سکندر حیات موجود تھا اور یہ امیدوار بچارے اپنے مفوضہ کردار ادا کررہے تھے لیکن کارکن اس معرکے کو اسلام اور لبرازم کے درمیان جنگ اور نہ جانے کیا کیا عنوان دے رہے تھے اور اب ہارنے کے بعد یہ جماعتیں اپنی اپنی جماعتوں کی تاریخ میں اسے ملک اور قوم کی بہت بڑی خدمت کے طور پر پیش کرتی رہیں گی.