تعلیمی اداروں میں علمی سرمایہ داری کی کارستانیاں اور جدید استحصالی طریقے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تعلیمی اداروں میں علمی سرمایہ داری کی کارستانیاں اور جدید استحصالی طریقے

    کس طرح استحصالی طبقات بتدریج اعلی تعلیمی اداروں کی مصروفیات پر اثر انداز ہوکر علمی پیش رفت کو اپنے مقاصد کیلیے استعمال کرتے ہیں

    By Bilal Ahmed Khan Published on Jun 06, 2020 Views 1505

    تعلیمی اداروں میں علمی سرمایہ داری کی کارستانیاں اور جدید استحصالی طریقے. 

    تحریر: بلال احمد خان لاہور


    *تصویر کا ایک رخ*

    ڈینیئل گولڈن، ایک مانے ہوئےامریکی صحافی ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۷ میں ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی جس کا عنوان "سپائی سکولز" تھا۔ 

    گولڈن نے صحافتی تحقیقات کے نتیجے میں اپنی کتاب میں یہ بات بڑے وثوق سے واضح کی کہ امریکی یونیورسٹیوں اور ریاست کے درمیان تفریق کرنے والی لکیر تقریبا ناپید ہے۔ دوسرے لفظوں میں مصنف کے مطابق امریکی تعلیمی ادارے اور ریاست ایک ہی صفحہ پر ہیں، بلکہ یہ بات گذشتہ کئی ادوار سے مسلم و موجود ہے اور پچاس ساٹھ کی دہائی سے ایسا ہی ایک اندرونی سیٹ اپ امریکہ میں چل رہا ہے۔

     یہاں گولڈن کے اپنے الفاظ بیان کرنا زیادہ اچھا ہوگا کہ "سی آئی اے اب پہلےکی نسبت ہائر ایجوکیشن میں بہت زیادہ گہرائی میں دخول کرچکی ہے"۔

     گولڈن نے اپنی کتاب میں بہت سے ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ جہاں اعلی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو مختلف نوعیت کے مقدمات میں بلیک میل کرکے اپنے (امریکی) مفادات اور جاسوسی کےلیے استعمال کیا گیا۔ اسی ضمن میں گولڈن نے یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کو امریکہ کی ان سو یونیورسٹیز میں چوبیسویں نمبر پر شمار کیا جہاں فوجی یا عسکری دباؤشدید ترین ہے۔

     گولڈن نے اپنی تصنیف میں اعلی تعلیمی اداروں کے ساتھ اس بات پر بھی بہت زور دیا کہ یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا نے بڑی مہارت سے عسکری صنعتی کمپلیکس (ملٹری۔انڈسٹریل کمپلیکس) کو پروان چڑھایا ہے۔ اسی کتاب میں گولڈن نے سی آئی اے کی امریکی یونیورسٹیز میں دخل اندازی کی پوری تصویر نمایاں کی ہے۔ مصنف لکھتا ہے کہ میک جارج بنڈی (جو دوسری جنگ عظیم کا ایک مانا ہوا امریکی سراغ رساں اور امریکی صدر کینیڈی اور جانسن کے ادوار میں قومی سلامتی کا مشیرخاص رہا)، آفس آف سٹریٹیجک سروسز (سی آئی اے کے بانی ادارہ) کو "آدھے پولیس مین، آدھے ڈاکو اور آدھے معلم" قرار دیتا تھا۔ 

    سی آئی اے کی اعلی تعلیمی اداروں میں دخل اندازی کے کئی طریقۂ کار رہے۔ مثلا کبھی "سکالرز ان ریزیڈنس" نامی پروگرام شروع کیے گئے، جس میں ماہر سائنسدانوں کو دعوت دی جاتی تاکہ وہ ادارے کو مختلف امورمیں مشاورت فراہم کریں۔اس دوران انہیں انتہائی حساس معلومات تک بھی رسائی دی جاتی۔ اسی پروگرام کے اگلے مرحلے میں "آفیسرز ان ریزیڈنس" کا پروگرام شروع کیا گیا جب سی آئی اے کے سبکدوش ہونے والے افسروں کو مختلف یونیورسٹیز میں تعینات کیا جانے لگا۔ اسی طرح یہاں ایف بی آئی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جس کے طرز پر سی آئی اے بھی یونیورسٹیز سے اعلی پائے کے اساتذہ اور طالبعلم عسکری، جاسوسی یا دیگر مقاصد کی بنیاد پر اپنے ساتھ وابستہ کرنے لگا۔ یہ اس حد تک ہوا کہ اب ان یونیورسٹیز میں بہت سے شعبہ جات میں یونیورسٹی یا سی آئی اے کے مابین تفریق کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ 

    اسی طور اس کتاب میں امریکہ میں نیشنل سیکیورٹی ہائر ایجوکیشن ایڈوائزری بورڈ نامی ایک ادارے کا بھی ذکر ہے جو ۲۰۰۵ میں قائم ہوا، جس کا کام جاسوس اداروں اور یونیورسٹیز میں باہمی رابطوں کی مضبوطی اور اوپن ڈور پالیسی کو فروغ دینا ہے۔ اسی ادارے کے توسط سے امریکہ کے سب سے مشہور تعلیمی ادارے ایم آئی ٹی کے منتظمین کو ایف بی آئی کے سپانسرڈ سیمینارز ملے۔ اس ادارے کا بانی گراہم سپانیئر، بعد ازاں امریکی یونیورسٹیز کی انجمن کا صدر بھی رہا۔اسی طرح اس شخص نے پین سٹیٹ یونیورسٹی کی صدارت کی جو بعد میں امریکہ میں عسکری یونیورسٹیز کی لسٹ میں پندرہویں مقام پر براجمان ہوئی۔ یہ یونیورسٹی قومی سلامتی ترسیلات کے استعمال میں تیسرے درجے پر ہے جبکہ امریکہ کی قومی نیوکلیائی سلامتی کے ادارے کےلیے نیوکلیائی سیکیورٹی کا پروگرام اور امریکی میرین کورکے لیے اپنے کیمپس میں مخصوص سہولت فراہم کررہی ہے۔

     مصنف لکھتا ہے کہ سی آئی اے ان مقاصد کے حصول کےلیے اپنے فرنٹ مین "سنٹرا" نامی ایک کمپنی کو استعمال کرتی ہے، جو ۱۹۹۷ میں قائم ہوئی اور ۲۰۰ ملین ڈالر کے سرکاری معاہدوں کے علاوہ سی آئی اے سے ۴۰ ملین ڈالر وصول کرچکی ہے۔ اس ضمن میں سی آئی اے اپنا دائرہ کار امریکی اعلی تعلیمی اداروں سے بڑھا کر عالمی کانفرنسز اوردیگر تعلیمی اداروں تک لےجا چکی ہے۔ مصنف لکھتا ہے،

    "مجھے ایک سابقہ جاسوسی ادارے کے افسر نے بتلایا کہ چونکہ ایرانی سائنسدانوں تک رسائی مشکل تھی، اس لیے سی آئی اے نے انہیں دوست یا غیرجانبدار ملکوں میں منعقدہ علمی کانفرنسز میں بلانے کا جھانسہ دیا۔ ان اجلاسوں میں سی آئی اے، اسرائیل کی مشاورت سے اپنے لیے کوئی ٹارگٹ طے کرتی۔ پھر کسی مشہور اور معتبر تعلیمی ادارے میں فرنٹ مین (جو کوئی مشہور بزنس مین ہوتا) کے ذریعے ایجنسی فنڈز میں پانچ لاکھ سے بیس لاکھ ڈالر تک کوئی سمپوزیم منعقد کرواتی۔ یہ فرنٹ مین کاروباری شخصیت کوئی ٹیکنالوجی کمپنی کا مالک بھی ہوسکتا تھا، یا پھر اس کے لیے کوئی ڈمی کمپنی بھی بنالی جاتی، تاکہ اس شخص کی تعلیمی ادارے اور مقصد کی سہولت کاری کے بارے میں مثبت تأثر پیدا کیا جاسکے، اور عموما وہ شخص اس کارگزاری سے کلی طور پر ناواقف ہوتا تھا"

    اس کے نتیجے میں ایرانی سائنسدانوں کو خاندان سمیت گرین کارڈ کا لالچ دیا جاتا، اور اگر وہ انکار کرتے تو ان کو دھمکیاں دی جاتیں۔ بہت سے سائنسدانوں کو ۲۰۱۰ سے لے کر ۲۰۱۲ تک مروایا گیا۔ گو کہ مصنف نے اپنی کتاب میں بہت سی تفصیلات کو شاید جان بوجھ کر نہیں لکھا مگر جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ان سے قرین قیاس یہی ہے کہ یونیورسٹیز اور اعلی تعلیمی اداروں کے بہت سے ذیلی شعبے جاسوس اداروں کے اقدامات کے نہ صرف حامی بن گئے بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ مکمل طور پر شریک جرم رہے، اور ان جرائم کی فہرست میں جنگی جرائم بھی شامل ہیں، جو امریکی استعمار پچھلی کئی دہائیوں سے کرتا آیا ہے۔

     یہ بڑا منطقی سوال ہوگا کہ یہ سب کیونکر اور کیسے ہوا؟ سرد جنگ کا پورا منظر اپنے سامنے رکھیے، ویتنام، کیوبا اور پھر بہت سے محاذوں پر سرمایہ داریت اور اشتراکیت کے عالمی ٹکراؤ کو سامنے رکھیں تو تصویر واضح ہونا شروع ہو جائےگی۔ اب اس تصویر میں دھیرے دھیرے  سرمایہ دار سامراج قوی تر ہوتا نظر آئےگا اور اب اس سرمایہ دار سامراجی عفریت کو علمی اجارہ داری کا جو خون لگ چکا ہے، وہ کیا نیا منظرنامہ تخلیق کرنے کی کوشش کرےگا؟ یاد رہے کہ ۱۹۷۷ میں کولمبیا یونیورسٹی میں اساتذہ اور طالبعلموں کی جانب سے ایک مشہور زمانہ جنگی مجرم "ہنری کسنجر" کی یونیورسٹی میں تقرری پر شدید احتجاج کیا گیا، اور ایسا ہی ایک احتجاج ایک اور امریکی یونیورسٹی میں ۱۹۸۶ میں بھی ہوا۔ یہ سلسلہ ستمبر ۲۰۱۱ کے بعد مزید تیز تر ہو چکا ہے۔ اب کئی یہ جاسوس ادارے بین الاقوامی طالبعلموں کو بھی اپنی ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرچکے ہیں۔

     ان تمام باتوں کے بعد گولڈن اپنی کتاب میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والےاثرات کو بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اعلی تعلیمی اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں سرمایہ پرست کاروباری مافیا اور ریاست دونوں کا تعلیمی ڈھانچے میں اثرورسوخ کئی گناہ بڑھ گیا ہے۔ اسی کے نتیجے میں بہت سی قابل ذکر امریکی یونیورسٹیز نے این ایس اے سے منظورشدہ سائبر سیکیورٹی پروگرام لگایا  جس کا اطلاق گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ درجے پر ہے۔ گولڈن اپنی کتاب میں عندیہ دیتے ہیں کہ امریکی ماڈل سے ملے جلے ماڈل بہت سے ممالک میں کارفرما ہیں۔

    *تصویر کا دوسرا رخ*

    اجائی سنگھ اور شکنتلا سنگھ، ۲۰۰۵ میں لکھے گئے تحقیقاتی مقالے (ریسرچ پیپر) میں لکھتے ہیں کہ علمی تحقیق (اکیڈمک ریسرچ) کی سوداگری کی بدولت بہت سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے جن میں محقیقین کا اخلاقی طرز عمل، سائنس کی ترقی میں ابہام اور انسانوں کی فلاح پر اٹھتے سوالات سب سے اہم مسائل ہیں۔ 

    وہ لکھتے ہیں کہ جوں جوں علمی تحقیق، خاص طور پر بائیومیڈیکل تحقیق کا انحصار انڈسٹری۔اکیڈمی گٹھ جوڑ پر بڑھتا جارہا ہے، اوپر دیے گئے مسائل بہت شدید ہوتے جارہے ہیں۔ 

    اسی تناظر میں بہت سے ماہرین اس نئے منظرنامے میں محسوس کرتے ہیں کہ اس علمی سوداگری کا لازمی نتیجہ شدید درجے کی بےضابطگیاں، ہلاکت خیزی، بداندیشی، علمی تحقیق سے اعتبار کے ختم ہوجانے کے ساتھ ساتھ مریضوں، محققین، عوامی اعتماد، تجارت اور تحقیقی اور پیشہ ورانہ اعتبار کی تباہی عین ممکن ہے۔ یہ اس لیے بھی بہت قابل فکر بات ہے کہ انڈسٹری منافع کی بڑھوتری کے اصول پر کاربند ہے، جسے بڑی چالاکی کے ساتھ مریضوں کی بھلائی کے خوبصورت وعدوں میں لپیٹ دیا جاتا ہے، جبکہ محققین کا پورا دارومدار انڈسٹری کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز اور جدید آلات پر ہوتا ہے اور جبکہ محققین ہی انڈسٹری کی جانب سے مسلط کردہ تحقیقاتی ایجنڈے، پروٹوکول، ڈیزائن، کام یا دائرے سے ہرچند انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

     یہ صورتحال مفاداتی کشمکش پیدا کرتی ہے جہاں ایک طرف محاسبہ مشکل ترین ہو جاتا ہے، تو دوسری طرف علمی تحقیقات کی غیرجانبداری پر بڑا سوال اٹھ جاتا ہے۔ 

    اس پورے منظرنامے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ پرست طبقات کی ایماء پر کی جانی والی تحقیق میں اسی چیز پر توجہ دی جائےگی جو تجارتی فائدے کی حامل ہو، یعنی کہ کم نفع والے آپشن کو چھوڑ کر زیادہ منافع والا آپشن اختیار کیا جائےگا۔ چونکہ ایسے ماڈل میں تحقیق کا ایجنڈا سائنسدان نہیں بلکہ کاروباری و تجارتی مفاداتی طبقہ طے کرتا ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بائیومیڈیکل سمیت ہر شعبے میں اسی رخ پر کام ہوگا، جو سرمایہ دار چاہے گا۔

     اس المیے کو سرمایہ دار پیشنٹ لائلٹی، پیشینٹ ویلفیئر کے خوش نما نعروں میں چھپاتے ہیں۔

     اس تحقیقی مکالے کے ریسرچر لکھتے ہیں کہ اس منظرنامے کی واضح مثال کلینیکل سائیکوفارماکولوجی کے مناسبت سے سمجھ آسکتی ہے کہ فارما انڈسٹری کے دباؤ تلے بہت سے ایسے مرکبات پر تجربات کیے جاتے ہیں جو پراڈکٹ ڈیولپمنٹ سیکواینس کے ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں مونیہان کی ۲۰۰۳ میں کی گئی تحقیق بہت اہم ہے جہاں مصنف نے ثابت کیا کہ کم از کم امریکہ میں ہونے والی بائیومیڈیکل ریسرچ کا آدھے سے زیادہ فنڈ نجی کمپنیوں کے کھاتوں سے آتا ہے، جو اپنے سپانسرز کے ساتھ مل کر اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ ریسرچ کا ایجنڈا طے کرسکیں۔ یہاں ایک بنیادی قاعدہ سامنے رہے کہ پیشنٹ ویلفیئر (مریض کی بہتری) اور منافع کا زیادہ سے زیادہ حصول (جو بالترتیب محققین اور فارما انڈسٹری کا منشاء ہے) دو متضاد اورالٹ مفادات ہیں۔ اس پورے منظرنامے میں جیت منافع کی ہوس کی ہوتی ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس پورے منظرنامے میں ادویہ ساز کمپنیز کی جانب سے ادویہ کی مارکیٹنگ کے طریقہ کار کا معالجوں کی جانب سے ادویہ کی تجویز پر بہت گہرا اثر ہے۔ ڈاکٹر ایک جانب ادویہ ساز کمپنیز کی جانب سے کی گئی مارکیٹنگ سے شدید متأثر ہوتے ہیں، اور کئی ممالک میں اس مارکیٹنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، مگر شواہد بتلاتے ہیں عموما یہ اور بہت سے اور ہتھکنڈے اپنا کام پورا کرجاتے ہیں۔ 

    اسی طرح ڈاکٹروں کی جانب سے ادویہ ساز کمپنیوں کی سپانسرڈ کانفرنسز میں شمولیت کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ان کمپنیز کی دوائیاں زیادہ تجویز کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ادویہ ساز کمپنیاں فی ڈاکٹر بہت خرچ کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔

     یہ سب کچھ ہمارے اردگرد ہورہا ہے اور یہ بات سامنے آتی ہے کہ بائیومیڈیکل انڈسٹری میں اب توجہ عوامی بہبود سے منافع خوری کی جانب ہوچکی ہے۔ جب نظریہ ہی انسانی خدمت کے بجائے منافع خوری اور سرمائے کی بڑھوتری ہو، تو نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟یہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

    قارئین ان دو زاویوں کو سامنے رکھیں اور تجزیہ کریں کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ریاستی یا طبقاتی مفادات کے تحت اعلی تعلیمی اداروں کو بھی اپنے سیف ہاؤس کی طرح استعمال کیاجاسکے۔ دوسری طرف یہ بھی قرین قیاس ہے کہ سرمایہ دار طبقات ایسی تحقیق کو مکمل طور پر مسخ اور تباہ کرنے کی کوشش کریں جو کہ ہو تو انسانیت کے عین فائدے میں، مگر اس میں منافع خوری کا امکان نہ ہو۔ اس وجہ سے موجودہ حالات میں غیر جانبدار علمی تحقیق کے نعرے کی کوئی زمینی حیثیت نہیں رہ جاتی، ماسوائے اس کے، کہ یہ پسے ہوئے طبقات اور ممالک کو دھوکے اور کذب کی اس فضا میں مزید قید رکھا جا سکے۔

    Share via Whatsapp