نظام تعلیم کا فرق : غلبے اور غلامی کے عہد کے تناظر میں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نظام تعلیم کا فرق : غلبے اور غلامی کے عہد کے تناظر میں

    اس تحریر کا مقصد لوگوں کو تعلیمی نظام کی اہمیت اور مسلمانوں کے تعلیمی نظام سے آگاہ کرنا ہے۔

    By Hafiz Talha Akhtar Published on May 17, 2020 Views 2185
    نظام تعلیم کا فرق : غلبے اور غلامی کے عہد کے تناظر میں 
    تحریر : حافظ طلحہ اختر ، ایگریکلچر یونیورسٹی ،  فیصل آباد

    ہندوستانی گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون ” لارڈ میکالے” کے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں، 2 فروری 1835ء کے خطاب سے اقتباس :
    میں ( میکالے ) نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے ، مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا ۔ اس ملک میں ، میں نے بہت دولت دیکھی ہے ، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ 
    اس لیے میں تجویز کرتا ہوں :
     ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں ۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اپنی اشیا سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گےاور ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسی ہم بناناچاہتے ہیں ۔
     اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب کسی بھی قوم کو اس کی تاریخ سے کاٹ دیا جائے تو وہ ذہنی طور پر غلام ہو جاتی ہے ۔ 
    " ہندوستانی نظام تعلیم "
    انگریز کی آمد سے قبل برعظیم ہند کا تعلیمی نظام ، جامع اور یکساں تھا ، جہاں بیک وقت حکمران طبقے اور عوام کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے، کوئی تفریق نہ تھی ۔ جتنے بھی تعلیم یافتہ افراد تھے سب کے سب ایک سکول آف تھاٹ    کے زیر اثر تعلیم حاصل کرتے تھے ، بعد از تعلیم سوسائٹی کی مجموعی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے تھے ۔ 
    " غلط تصور کی اصلاح "
    پاکستانی معاشرے میں یہ غلط تصور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی علم نہیں تھا ، وہ تو تاج محل کی تعمیر میں مصروف تھے ! 
    آپ بتائیے کسی چیز کو بنانے کے لیے کیا کوئی علم درکار نہیں ہوتا ؟ جو تعمیرات مسلمانوں نے کئی سو سال پہلے کیں ، کیا آج ان کی پائیداری کا کوئی موازنہ ہے؟ آج تو آرکیٹیکچراورانجینئرنگ کی ڈگریاں بھی دی جارہی ہیں مگر کام کا معیار وہ نہیں ہے جو اس وقت مسلمانوں نے کیا ۔
     انگریز جب اس خطے میں آیا تو اس نے بنیادی کام اپنے مفاد میں یہ کیا کہ اس خطے کی زبان تبدیل کردی جس میں تعلیم دی جاتی ، جس کی وجہ سے نوجوان اپنی تاریخ سے کٹ گئے ۔
     " تعلیمی زبان کا اصول " 
     کوئی بھی قوم دنیا کے علوم  میں دسترس اپنی زبان میں حاصل کرتی ہے لیکن جب آپ اس بنیادی اصول ہی کو بدل دیں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی علم میں دسترس حاصل کرے ۔
    کسی بھی قوم کے اخلاق و کردار کی تربیت اس کے نظام تعلیم سے کی جاتی ہے لیکن اگر وہ خراب ، فرسودہ اور طبقاتیت پر ہو تو سوسائٹی مجموعی طور پر کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی ۔ 
    یہی وجہ ہے کہ آج انفرادی طور پر لوگوں کو اخلاقیات کے درس دیے جاتے ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ، کیونکہ آپ بیماری کی اصل وجہ کو ٹھیک نہیں کر سکتے ۔  آج دنیا کے اندر جتنی بھی آزاد قومیں ہیں ان سب کا نظام تعلیم ان کی اپنی قومی زبان میں ہے کیونکہ تعلیم سے تربیت مقصود ہے جو تبھی ممکن ہے جب آپ کا سامع آپ کی بات کو سمجھے جس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی اور اس کی بات چیت کی زبان ایک ہو ۔ آج کہنے کو تو ہم آزاد ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام وہی غلامی کے دور اور لارڈ میکالے کا ہے ، جس کا مقصد غلام پیدا کرنا تھا ۔
    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم اپنا نظام تعلیم بدلتے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارا نوجوان مغرب کی تعلیم سے مرعوب نظر آتا ہے ۔ انفرادی ترقی اس کا مطمح نظر ہے اور اس وجہ سے اس کی تمام صلاحیتیں سامراج کے لیے استعمال ہو رہی ہیں ۔ 
    آج ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد اعلیٰ نوکری کا حصول ، مغرب کی شہریت ہے اور انفرادی ترقی ہے ۔ آج تعلیم عمدہ اخلاق کےبجائے مرعوبیت اور طبقاتیت پیدا کر رہی ہے ۔
    بلکہ نظام تعلیم ہی گروہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج غریب کے بچے کے لیے الگ سکول ، امیر کے لیے الگ ، اسلام کے لیے الگ اور دنیا کی تعلیم کے لیے الگ ہے ۔ 
    " گروہی نظام تعلیم کا نقصان "
     یہی وجہ ہے کہ مسجد کا پڑھا ہوا سکول کے پڑھے کو قبول نہیں کرتا اور سکول کا پڑھا مسجد کے پڑھے کو قبول نہیں کرتا ۔ 
    " آج کی ضرورت " 
    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا نظام تعلیم وضع کیا جائے جس کا نظریہ یعنی میڈیم آف انسٹریکشن( medium of instruction ) وہ ہو جس سے اکثریت واقف ہو اور اس میں طبقاتیت کا تصور موجود نہ ہو ۔  
    اگر نظام تعلیم کو ان بنیادوں پر مرتب کیا جائے تو پھر اس تعلیمی نظام سے نکلنے والے افراد کی سوچ اجتماعی ترقی کی ہو گی ، ان کے اخلاق اعلیٰ ہوں گے ۔
     ہماری غلبے کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب ہمارا نظام تعلیم دنیا پر رائج تھا تو اس نے تمام لوگوں کو ایک ہی تعلیم دی اور اعلیٰ نظریے پر ان کی تربیت کی ۔
    Share via Whatsapp