آٹا چینی بحران اور سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • آٹا چینی بحران اور سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت

    گزشتہ کچھ ہفتوں سے پاکستانی میڈیا پر آٹا چینی بحران پر ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کی ایک بازگشت ہے۔ حکومت مخالف جماعتیں اور افراد حکومت

    By محمد نواز خاں Published on May 11, 2020 Views 1036

    آٹا چینی بحران  اور سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت

    تحریر: انجینئر محمد نواز خاں۔لاہور 


    گزشتہ کچھ ہفتوں سے پاکستانی میڈیا پر آٹا چینی بحران پر ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کی ایک بازگشت ہے۔ حکومت مخالف  جماعتیں اورافراد حکومت پر پی ٹی آئی   کی کورکمیٹی کےافراد کے اس میں ملوث ہونے پر ہنس رہےہیں اورطعنہ زنی کر رہے ہیں توحکومتی ارکان اور ہمنوا اس بات پراترا رہے ہیں اور بغلیں بجا رہے ہیں کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ انکوائری رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ وزیراعظم اور حکومتی وزرا اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور جو ملوث ہوا اس کو کٹہرے میں لائیں گے لیکن  اگر ماضی پر نظر دوڑائیں  تو یہ تلخ حقیقت سامنے آجائے گی کہ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں یہاں با اثر افراد کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔حکومت کو  یاتو مصالحت کی پالیسی اپنانی پڑے گی یا سرمایہ دار طبقہ اس رپورٹ کو قانونی موشگافیوں میں الجھا کر باآسانی اپنے آپ کو نیک ثابت کر لے گا۔

    سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی ہدف ہی سرمایہ  دار کا تحفظ اور اس کے سرمائے کی بڑھوتری ہے۔پوری دنیا میں جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے یہی کھیل جاری ہے۔کارپوریٹ    جمہوریت کے نام پر اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر اپنے من پسند افراد پر الیکشن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ ان کے جلسوں اور پارٹیوں کے اخراجات اٹھاتے ہیں ۔ ان کی میڈیا کمپین کرتے ہیں اور ان کے کامیاب ہونے کی صورت میں اپنے مفادات کی پالیسیاں بنواتے ہیں۔لیکن پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی اس سے بھی ذیادہ بھیانک شکل ہے کہ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقات خود ہی نام نہاد الیکشن کے ذریعے مقننہ کا حصہ بن کر پالیسی سازی کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھراپنے طبقے کے مفادات کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں۔

    پاکستان کی تاریخ کا ذرا جائزہ تو لیں کہ کیاکبھی سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سرمایہ داروں ،جاگیرداروں یا چند نام نہاد مذہبی بہروپیوں کے علاوہ یا پھر فوجی ڈکٹیٹر شپ میں کوئی عام آدمی قانون ساز اسمبلیوں کا حصہ بنا ہے؟ چند مخصوص خاندان دہائیوں سے مختلف انداز سےحکومت کرتے آئے ہیں۔ انہی خاندانوں میں سے ہی لوگ سول اور ملٹری بیوروکریسی اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔ گویا پورا نظام ہی چند خاندانوں کی کھتونی بن کر رہ گیا ہے۔ان جاگیرداروں  ،سرمایہ داروں اور اشرافیہ کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو ان کا سلسلہ نسب وہاں پہنچتا ہے جنہوں نے انگریز  کے جابرانہ تسلط کو ہندوستان میں طول دینے میں مدد کی۔ قوم کے ساتھ غداریاں کیں اور اس کے عوض انگریز سرکار سے بڑی بڑی جاگیریں اور جائیدادیں وصول کیں۔ ان ترینوں، دریشکوں، ٹوانوں،

    چوہدریوں اور مخدوموں کی ذرا تاریخ تو پڑھیں تو معلوم ہوگاکہ انگریز کے جانے کے بعد یہ کالے انگریز قوم پر مسلط کر دیے گئے۔ یہی خاندان مختلف پارٹیوں کے نام سے اب تک اس قوم پر مسلط ہیں ۔ایک طرف ان کی دولت ، جاگیریں ، ملیں اور فیکٹریاں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں تو دوسری طرف قوم کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔

    اگر جائزہ لیں کہ ان چند خاندانوں کی دولت  اتنی کیسے بڑھ گئی تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ  تمام کا تمام سسٹم ڈیزائن ہی ان کی دولت بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے۔ملک کے تمام وسائل ہی ان چند خاندانوں کے قبضے میں ہیں۔  ایک ایک خاندان کے پاس سینکڑوں مربعہ زمینیں ہیں۔ان علاقوں کی اکثریتی آبادی وسائل سے محروم ہونے کی بنا پر یا تو ان کی زمینوں پر مزارعت کرتی ہے یا ٹھیکے پر ان سے زمینیں لے کر سارا سال محنت  کرتے ہیں اور سارے سال کی محنت  کے نتیجہ میں کمائی ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور خود پیاز، لسی، چٹنی اور مرچوں سے روکھی سوکھی روٹی کھا کر زندگی کی سانسیں بحال رکھتے ہیں۔ان وڈیروں اور سرمایہ داروں کے بچے  ہاورڈ، آکسفورڈ، کیمرج ، ایچی سن میں پڑھ کر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنتے ہیں تو کاسبین کے بچے تعلیم سے محروم یا غیر معیاری سرکاری سکولوں سے پڑھ کر ان کے منشی(مینیجر ) بنتے ہیں۔دوسری طرف سرمایہ داروں کی فیکٹریاں مزدوروں کی محنت کے نتیجہ میں مہینوں میں دوگنی اور چوگنی ہوجاتی ہیں۔ کام کرنے والے مزدور کی حالت زار بد سے بد تر ہوتی جاتی ہے۔ اور اگر کبھی کسی وجہ سے فیکٹریاں بند ہو جائیں تو  بغیر کسی نوٹس کے ہزاروں ورکرز راتوں رات فارغ کر کے گھر بھیج دیے جاتے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے نشاط ملز، کمبائینڈ ٹیکسٹائل اور اس طرح کی کئی فیکٹریوں نے ہزاروں  ورکرز کو گھر بھیج دیا مگر ان بیچاروں کے حقوق کے تحفظ کا کوئی ادارہ نہیں۔

     سرمایہ دارانہ نظاموں میں ایشوز کی سیاست ہوتی ہے۔ ہر وقت ان سرمایہ داروں کے میڈیا سیلز کے ذریعے مختلف ایشوز ابھارے جاتے ہیں ۔ نام نہاد دانشور چیخ  چیخ کر قوم کے افراد کا فکری استحصال کرتے ہیں۔ ہر چند دن بعد ایک نیا تماشا شروع ہو جاتا ہے اور پہلا مسئلہ غائب ۔سینکروں انکوائری کمیٹیز بنیں لیکن آج تک کوئی ایک رپورٹ حتمی نتیجہ تکن نہیں پہنچی۔ نظام کے اندر اتنے چور دروازے ہیں کہ اگر کوئی اخلاص کے ساتھ کام کرے بھی تو کرپٹ مافیا آسانی سے  بچ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرف دور میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کو استحصالی قرار دے کر دوبارہ معاہدہ پر کوشش کی گئی لیکن عدالتی نظام کےذریعے حکومت چند سرمایہ داروں کے مقابلے میں ہار گئی ۔اب دوبارہ معاملہ اٹھا ہوا ہے۔ اربوں کھربوں روپے سبسڈی کے نام پر بے تحاشا منافع کے علاوہ ہڑپ کیے گئے ہیں۔

    حالات کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ آٹا چینی ،اور انرجی رپورٹس کچھ وقت کے بعد ردی کی ٹوکریوں کا حصہ بن جائیں گی۔ وزیراعظم اور چند حکومتی وزرا نے بڑے دعووں کے ساتھ کہا کہ 25 اپریل کو فرانزک آڈٹ کے ساتھ رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی لیکن اب اس کی ایک نئی تاریخ دےدی گئی ہے۔کچھ دنوں بعد کوئی نیا شوشہ کھڑا کر دیا جائے گا اور یہ معاملہ چند مہینوں کے بعد عوام کے ذہنوں سے محو ہو جائے گا۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد پر بحث  کرنے کے  بجائے نظام پر بحث کی جائے۔لیڈرز پر ڈسکشن کی بجائے جماعتوں پر بحث کی جائے۔ جماعتوں کےسٹرکچر، تربیتی نظام ،کارکنان کی تیاری اور سٹیٹس کو ختم کرنے پر بحث کی جائے۔ نظام کے ستونوں ، ان کے دائرہ کار ، ان کے کردار پر بحث کی جائے۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو یہ مروجہ نظام اسی طرح عوام کو لوٹنے والوں کا دفاع کرتا رہے گا، سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی دولتیں بڑھتی رہیں گی، غریبوں کی کمائیاں اور عصمتیں لٹتی رہیں گی۔ رپورٹیں آتی جاتی جاتی رہیں گی اور یہ تماشا لگا رہے گا۔

    Share via Whatsapp