اِنسانیت : تختہٕ دار پر
ظالم نظام کا شعور حاصل کرنا ہی انسانی امتیاز ہے اور اسی شعور کو حاصل کر کے ہی انسانی سماج کو ترقی دی جا سکتی ہے
اِنسانیت : تختہٕ دار پر
تحریر ؛ اسامہ احمد ۔ اسلام آباد
جمہوریت کا رونا رونے والے حکمرانوں کے نعروں پر ماتم نہ کیا جاۓ تو اور کیا کیا جاۓ ۔
آمریت کی درندگی میں انسانی معاشروں کو نوچنے والوں کے مظالم پر نوحہ نہ کیا جاۓ تو اور کیا کیا جاۓ ۔
خلافت و نبوی سیاست کے نام پر تحریکات چلا کر اپنے حصّے کا کمیشن بٹورنے والوں پر آبدیدہ نہ ہوا جاۓ تو اور کیا کیا جاۓ۔
" آج کے انسان کی بے بسی "
اس دور کا انسان بے بسی و مجبوری کی حالت میں ہے۔ درندہ صِفت نظام میں گِھرا ہوا ہے اور مسلسل بے بسی میں ہے کیونکہ اسےاپنی نشونما کےلیے مواقع ہی فراہم نہیں کیے جارہے ۔* انسانوں کو ان کی ترقی کے وساٸل سے محروم کرنا ان کا اجتماعی قتل ہے ۔*
" ہمارے معاشرے کی صورتحال "
آج ہمارا معاشرہ ظالم و جابر نظام کی وجہ سے براۓ نام انسانوں کا معاشرہ ہے ۔
آج ہمارا معاشرہ نام کا اسلامی معاشرہ ہے۔یہ اسلام کے غلبہ کے دور کی صفات سے محروم ہے۔ عدل و انصاف ، مساوات اور محبت و احترام ناپید ہے۔
آج ہمارا معاشرہ ملکی و غیر ملکی NGO"S کے کردار کی وجہ سے نام کا فلاحی معاشرہ ہے کیونکہ وہ زیادہ تر امداد کو اپنے مقاصد و اغراض اور پروٹوکول کے لیے استعمال کرتی ہیں جبکہ ان میں سےبعض بیرونی مفادات کو بھی پورا کر رہی ہوتی ہیں۔ سابقہ سالوں میں ، حکومت کی طرف سے ، وطن عزیز میں کئی NGO"S پر پابندیاں اس پر شہادت ہے ۔
علاقہ " تَھر ؛ سندھ " کی تپتی ریت پر بھوک اور پیاس سے بِلک بِلک کر ، عوام میں سے مر جانے والے خاندانوں کی مُفلسی و زبوں حالی پر اٸرکنڈیشنڈ کمروں میں ، مِنرل واٹر پی کر غور کیا جاتا ہے لیکن کوٸی نتیجہ نہیں نکلتا ۔
جہاد کی آیات کو غلط اصطلاح میں استعمال کر کے انسانیت کے قتل کا ارتکاب کیا جاتا ہے لیکن کہیں کوٸی نتیجہ نہیں نکلتا ۔
کشمیر کے نام پر اسلام آباد کی وسیع و عریض سڑکوں پر اور پِھر انٹرنیشنل فورم پر تقریریں جھاڑی جاتی ہیں لیکن کہیں کوٸی نتیجہ نہیں نکلتا ۔
اس فاسد نظام میں 70 سال بعد ، فاٹا کی عوام کی ترقی کے لیے صوباٸی حکومت کو ذمہ داری دی جاتی ہے لیکن کوٸی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا ۔ سخت مقابلے کے امتحان سے گزرے ہوۓ افسران انتظامی بہتری کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں لیکن نظام کی خرابی اور بے جا مداخلت کے سبب کوٸی نتیجہ نہیں نکلتا ۔اسلام کے نام پہ حاصل کی ہوئی اس دھرتی کے باشندوں کو بھی دو حصوں میں منقسم کردیا گیا ۔ اس دھرتی نے دیکھا کہ مختلف بیماریوں کے نام پر بیرونی امداد کے عِوض انسانی لاشوں کا کوٹہ پورا کر کے وقت کے فرعونوں نے انسانیت کے مجسمے پاش پاش کر دیے ۔
گزشتہ 7 دہائیوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ عوام کے حالات تو وہیں کے وہیں ہیں ۔ کسی عام مزدور اور کسان کا بچہ اعلٰی تعلیم حاصل کر کے کسی اعلٰی عہدے پر فاٸز نہ ہو سکا لیکن حکمرانوں کے بچے بھی اپنے بچپن میں اربوں اثاثوں کے مالک بن گٸے۔موجود وبائی ماحول میں عالمی سرمایہ پرستوں کی دولت میں تو اضافے ہوئے لیکن مفلس و بے روزگار والدین کو بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر رزق کمانے سے محروم کر دیا گیا ۔
اُمراء کے اربوں کے قرضے معاف کر دیے جاتے ہیں لیکن غریبوں کے رکشے بھی قسط کی عدم اداٸیگی پر ضبط کر لیے جاتے ہیں اور انہیں قرض کی ادائیگی کے لیے مہلت نہیں دی جاتی ۔ 1947ء میں اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت کے عیاش و سرمایہ پرست حکام کو 7 دہائیوں بعد غور کرنا پڑتا ہے کہ ہم نے اس ریاست کو ریاستِ مدینہ بنانا ہے ۔
آج اگر ہم انسانیت کو تختۂ دار سے اُتار کر تختِ حکمرانی پر بٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں انسانیت کو ذِلّت کے طوق پہنانے والے اس فرعونی نظام ( System Imperial ) کا شعور حاصل کرنا ہو گا کیونکہ اصل طاغوت آج کا یہی سماج دشمن نظام ہے ۔ اس نظام کی مذکورہ بالا صورت حال ستر سالوں سے ہے ۔ لہذا اس سسٹم کا شعور حاصل کرنا ہی اصل انسانی ضرورت ہے ۔ جب تک اس ظالمانہ نظام کو نہ بدلا گیا تب تک انسانیت کا ایسے ہی قتلِ عام ہوتا رہے گا ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا