پاکستان میں تبدیلی کی نام نہاد تحریکیں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان میں تبدیلی کی نام نہاد تحریکیں

    پاکستان میں تبدیلی کی نام نہاد تحریکیں ہمیشہ شخصیات کے خلاف رہی ہیں، مجموعی سسٹم کے خلاف کوئی تحریک پیدا نہیں ہوئی۔ پھر تحریک کسی جامع نظریہ کی حامل ن

    By سہیل قریشی Published on May 04, 2020 Views 1858
    پاکستان میں تبدیلی کی نام نہاد تحریکیں
    تحریر: سہیل قریشی، مانسہرہ

    امام شاہ ولی اللہ ہندوستان میں مسلم اقتدار کے دور عروج اور زوال کے سنگم پر پیدا ہونے والے مفکر اور امام ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے انسانی سوسائٹی کو جسم انسانی سے تشبیہ دی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ جیسے انسانی جسم کبھی حالت صحت میں ہوتا ہے اور کبھی بیمار، اسی طرح انسانی معاشرے بھی ان دو حالتوں کا شکار ہوتےرہتے ہیں ۔اگر یہ بیماری معمولی نوعیت کی ہو تو بآسانی رفع کی جا سکتی ہے، بصورت دیگر انسانی معاشرے کو حالت بیماری سے نکالنے کے لیے وہاں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا عمل ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ کے نزدیک صحت مند سماج کی نشانی یہ ہےکہ وہاں رفاہیت متوسطہ، یعنی  Average class  ہوگی۔  رفاہیت بالغہ (پرتعیش طرززندگی) اوررفاہیت ناقصہ (معاشی بدحالی کا شکار طرز معاشرت) دونوں سماج کے لیے تباہ کن ہیں۔ بدقسمتی سےہمارامعاشرہ رفاہیت متوسطہ پر قائم نہیں۔اصل میں جس معاشرے میں طبقاتیت پیدا ہوجائے، وہاں اعلیٰ اخلاق اور سماجی روایات ایک ایک کر کے رخصت 
    ہو تی جاتی ہیں۔عدم برداشت، ذہنی پستی،غلامانہ طرز فکر،  لالچ اور حرص وغیرہ غرض ہر طرح کے اخلاقی امراض بھی در آتے ہیں۔اس تناظر میں جب وطن عزیز کی مجموعی حالت کا تجزیہ کیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی یہ معاشرہ طبقاتیت کے اسی موذی مرض میں مبتلا ہے کہ جو تباہ حال معاشرےکی علامت ہواکرتی ہے۔
    ہمارے معاشرے کی یہ حالت انگریز کی غلامی کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد  قومیں غلامی کی فرسودہ روایات ،غلامانہ سیاسی، معاشی اور سماجی نظام  سے جان چھڑاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سےہمارے ہاں یہ خواب ہنوز تشنہ تکمیل ہے کیونکہ آزادی کی تہتر بہاریں دیکھنے کے باوجود ہم انگریز کے قائم کردہ اس غاصبانہ نظام سے آج تک جان نہیں چھڑا سکے اور ہمارا سماج آج بھی غلامی کی اس بدترین یادرگار نظام کاحامل ہےاور یہاں دورغلامی کاطبقاتی سیاسی ، معاشی اور سماجی، تعلیمی نظام جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے ۔یوں توقیام پاکستان کے موقع پر عوام کو  بڑےسبز باغ دکھائے گئے تھے لیکن وہ سب  کچھ ہی عرصے میں بری طرح چکنا چور ہوگئے اور جوں جوں وقت گزرتا گیا عوام کو اندازہ ہوا کہ ان کی امیدوں کا خون کر دیا گیا  ہے۔ اپنی امیدیں بار آور نہ آتے دیکھ کر  عوام میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہو گئی ( جو کہ اب تک موجود ہے) اسلیے ہمارے معاشرے میں جب بھی تبدیلی کا نعرہ کسی بھی عنوان سے لگا، عوام دیوانہ وار اس کی طرف لپکے یہ اور بات ہے کہ ہم آج بھی من حیث القوم اس تبدیلی کو ڈھونڈ رہے ہیں کہ جو ہمیں برطانوی غلامی کی یادگار اس مسلط نظام سے نجات دلا سکے۔
     یہی وجہ ہے کہ  اس وقت سے لےکر آج تک تبدیلی کی نمائندہ  کئی تحریکیں پیدا ہوئیں لیکن مطلوبہ نتائج پیدا کیے بغیر اپنی موت آپ مر گئیں۔ ان تحریکوں کا تعارف اور تجزیہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ان تحریکوں کی اختیار کردہ حکمت عملی کے نقائص بھی سامنے آسکیں اور ایک جامع اور حقیقی تبدیلی لانے کے عمل کی ایک شعوری داغ بیل بھی ڈالی جاسکے۔
    وطن عزیز کی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد ہی جب سیاسی ٹولے میں مفاداتی کشمکش شروع ہوئی تو نااہل سیاست دانوں نے فوج کو دعوت اقتدار دی۔  ملٹری بیوروکریسی نے نظام میں واضح تبدیلی پیدا کرنے کے  بجائے رائج نظام  میں کچھ جزوی تبدیلیاں پیدا کیں۔ طرز حکومت کوصدارتی کر دیا گیا لیکن جب نظام یکسانیت کا شکار ہونے لگا تو عوامی حقوق کے نام سے "عوام کی جماعت" وجود میں آئی اور ظاہر ہے عوام نے اسے خوش آمدید کہنا تھا، سو کہا گیا لیکن مسائل نے موجود فرسودہ نظام کی وجہ سے حل نہ ہونا تھا سونہ ہوئے۔اس کے بعد تو مسلسل یہی عمل دہرایا جانے لگا اور نظام کے اپنے اور سامراجی تقاضے سے فوجی اور جمہوری حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، لیکن کوئی بھی تحریک یا جماعت عوامی دکھوں کا مداوا ثابت نہ ہوسکی۔ اگر جائزہ لیا جائے تو ان تمام تحریکوں یا جماعتوں میں درج ذیل وہ امور تھے جس کی وجہ سے  معاشرے میں تبدیلی کا عمل حقیقی بنیادوں پر قائم نہ ہو سکا۔
    1- یہ تمام تحریکیں  بغیر کسی ٹھوس اور جامع سیاسی، معاشی اور سماجی نظریے کےچلائی گئیں۔ تحریک چلانے والی قیادت کے سامنے کچھ جزوی اہداف مثلاً اقتدار یامفادات  کے حصول سے زیادہ کچھ نہ تھا۔
    2- ان تحریکوں کے پاس کارکنوں کی  سیاسی ، معاشی اور اخلاقی تربیت کااہتمام سرے سے مفقود تھا جس کی وجہ سے عوام میں سے لیڈرشپ ابھر کر اوپر نہ آسکی اور اسی وجہ سے آج تک کسی بھی جماعت کے پاس جماعتی وابستگی میں تیار ہونے والے ماہرین کی تعداد صفر کے برابر ہے۔
    3- ان تحریکوں کی باگ ڈور ہر دور میں مفاداتی سرمایہ دارو جاگیردار طبقے  کے ہاتھ میں رہی ہےاور وقت پڑنے پر عوام کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے جبکہ اس مشکل وقت میں پارٹی قیادتوں نے  مقتدر قوتوں اور عالمی سامراج  مفاہمت یا فرار کا راستہ اختیار کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔
      4- یہ تحریکات اپنے زور بازو کے بجائے اندورنی و بیرونی منصوبہ سازوں کی ہدایات پر چلتی رہیں جس کی وجہ سے یہ معاشرے میں اپنا کوئی بھی مثبت تأثر چھوڑنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔
    5- ان پارٹیوں کے اقتدار میں آنے کے باوجود عوامی مسائل کے حل اور فرسودہ نظام کی تبدیلی کا کوئی جامع پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے یہ ارض وطن مسلسل مسائل کی گرداب میں دھنستی جارہی ہے اور آئے روز عوامی مایوسی میں اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔

    اسلیے حقیقی تبدیلی کا راستہ ہماری سوسائٹی پر مسلط نوآبادیاتی دور کی یادگار نظام کی صحیح معنوں میں تبدیلی سے ہو کر گزرے گا ۔جس کے لیے معاشرے میں انسانی بنیادوں پر ایک عادلانہ نطام کے لیے بیدارئی شعور کے ساتھ ساتھ ایک منظم اورصاحب بصیرت قیادت کی تیاری ناگزیر ہے تاکہ معاشرے پر مسلط ظلم کی یہ سیاہ رات مزید طوالت اختیار نہ کرسکے۔
    Share via Whatsapp