جدید ہسپتال کی اسلامی بنیادیں(حصہ دوم)
مسلم دور حکومت میں تمام انسانوں کو بل تقسیم رنگ، نسل، مذہب صحت کی سہولیات معاوضہ حاصل تھیں
جدید ہسپتال کی اسلامی بنیادیں(حصہ دوم)
ترجمہ: سہیل مجاہد، فیصل آباد
مریض کی نگہداشت
بیمارستان 24 گھنٹے ہر ایک کے لیے کھلا رہتا تھا۔ کچھ صرف مردوں کے لیے مخصوص تھے جبکہ دیگر کئی صرف خواتین کے لئے قائم کیے گئے تھے جن میں خواتین طبی عملہ(لیڈی ڈاکٹر اور نرسیں) موجود ہوتا تھا۔ دیگر ہسپتالوں میں ایسی ہی سہولیات اور وسائل خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ حصوں میں دستیاب تھے جہاں مردوخواتین دونوں کی الگ الگ حُجروں میں دیکھ بھال کی جاتی۔ نسبتاً کم سنگین مریضوں کےلیے معالجین نے بیرونی مریضوں کے مطب (Outdoor patient Clinics) پر عملہ لگایا ہوتا تھاجہاں انہیں ایسی دوائیں دی جاتی تھیں جو وہ اپنے گھروں میں استعمال کرکے صحت یاب ہو سکتے تھے۔
ان ہسپتالوں میں انفیکشن کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کئے جاتے تھے۔ہسپتال کے مرکزی رسد (دروازے)سےداخل ہوتے وقت مریضوں کو ہسپتال میں پہننے کےلیے مخصوص لباس دیے جاتے جبکہ ان کے اپنے کپڑے ہسپتال کے اسٹور میں رکھے جاتے تھے۔جب ہسپتال کے وارڈ میں مریضوں کو لے جایا جاتا تو انہیں صاف چادروں والے بستر اور نرم گدے ملتے۔ ہسپتال کے کمرے اور وارڈ صاف ستھرے ہوتے جہاں تازہ پانی اور سورج کی روشنی دستیاب ہوتی۔
نگران عملہ روزانہ کی بنیاد پر ہسپتال اور کمروں کی صفائی کا معائنہ کرتا۔ مقامی حکمران اکثر ہسپتالوں میں مریضوں کی بہترین نگہداشت کو یقینی بنانے کےلیے خود معائنہ کرتے۔ڈاکٹروں کی طرف سے بتائے گئے علاج معالجے کا آغاز فوری طور پر مریض کے ہسپتال داخل ہوتے ہی ہو جاتا تھا۔ مریضوں کو ان کی جسمانی حالت اور بیماری کے لحاظ سے مقررہ غذا دی جاتی۔ کھانا اعلیٰ معیار کا ہوتا جس میں مرغ (یا بطخ کا گوشت)، گائے اور بھیڑ کا گوشت اور تازہ پھل اور سبزیاں شامل تھیں۔
صحت کی بحالی کا سب سے بڑا معیار یہ تھا کہ مریض ایک وقت میں ایک صحت مند شخص جتنی روٹی، سالم پرندے کے بھنے ہوئے گوشت کےساتھ کھا سکے۔اگر مریض آسانی سے یہ خوراک ہضم کرپاتا تو اسے صحت یاب قراردے کر ہسپتال سے رخصت کر دیا جاتا تھا۔ جو مریض ٹھیک ہوجاتے لیکن جسمانی نقاہت باقی ہوتی، ان کو شعبہ روبصحت (Convalescent Ward) میں منتقل کردیا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ گھر جانے کے قابل ہوجاتے۔ ضرورت مند مریضوں کو روزگار کی بحالی میں ان کی مدد کے لیے ایک معقول رقم کے ساتھ نئے کپڑے بھی دیے جاتے تھے۔
تیرہویں صدی کے ڈاکٹر اور سیاح عبد اللطیف البغدادی ایک مشہور معالج، مؤرخ، مصری ماہر اور سیاح تھےجو اپنے دور میں مشرق وسطیٰ کے سب سے زیادہ لکھنے والے مصنفین میں شامل تھے ۔ آپ دمشق میں بھی تدریس کی ذمہ داریوں سے منسلک رہے۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک ہوشیار ایرانی نوجوان کی مزاحیہ کہانی سنائی جو نوری ہسپتال کے بہترین کھانے پینے اور خدمات کی وجہ سے اس قدر لالچ میں آیا کہ وہ ہسپتال میں رہنے کے لیے بیماری کا بہانہ کرنے لگا۔ جس ڈاکٹر نے اس کی جانچ کی اس نے معلوم کرلیا کہ اس نوجوان کا کیا مسئلہ ہے۔ اس نے اس کے باوجود اسے ہسپتال میں داخل کروایا۔ نوجوان کو تین دن تک عمدہ کھانا مہیا کیا گیا۔چوتھے دن ڈاکٹر اپنے مریض کے پاس گیا اور پرمزاح مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ”روایتی عرب مہمان نوازی تین دن تک جاری رہتی ہے، براہ کرم اب گھرچلےجاؤ “۔
ہسپتال میں دیکھ بھال کے معیار کاتعین کسی ثالث کے جائزہ لینے کے تابع تھا جیسا کہ ابن الاخوة نے اپنی کتاب 'معالم القربة في طلب الحسبة' (The Features of Relations in al-Hisba) میں اس سے متعلق تذکرہ کیا گیاہے:
”اگر مریض صحت یاب ہوجاتا ہے تو معالج کو معاوضہ ملتا ہے۔ اگر مریض مر جاتا ہے تو اس کے والدین چیف ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور معالج کے لکھے ہوئے نسخے پیش کرتے ہیں۔اگر چیف ڈاکٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ معالج نے اپنی ذمہ داری کو بالکل بنا کسی غفلت ادا کیا ہے تو وہ والدین کو بتا دیتاہے کہ اس مریض کی موت فطری تھی۔دوسری صورت میں (اگر وہ ڈاکٹرکوقصور وار پاتا) تو وہ ان سے کہتا ہے:
ڈاکٹر سے اپنے رشتہ دار کا خون بہا لیں کیونکہ مریض ڈاکٹر کی بری کارکردگی اور غفلت سے مرا ہے۔اس شفاف انداز میں لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا جاتا کہ ان کا علاج تجربہ کاراور تربیت یافتہ ماہرین کرتے ہیں۔“
مستقل ہسپتالوں کے علاوہ قصبوں اور بڑے شہروں میں ابتدائی طبی امداد اور شدید نگہداشت کے مراکزبھی موجود تھے۔ یہ عام طور پر مصروف عوامی مقامات جیسے بڑی مساجد وغیرہ میں واقع تھے۔ مقریزی (مملوک عہد کے دوران قرونِ وسطی کا ایک ممتاز مؤرخ، مصنف اور حکومتی عہدیدار) نے قاہرہ میں ایک بیان میں کہا:
”ابن طولون نے جب مصر میں اپنی عالمی شہرت یافتہ مسجد بنائی تو اس کے ایک سرے پر وضوخانہ تھا جس سے منسلک ایک ڈسپنسری بھی قائم تھی جو ادویات اور عملے سے اچھی طرح لیس تھی۔ جمعہ کے دن وہاں پر ایک ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہوتی تھی تاکہ اس مجمع کے موقع پر کسی بھی جانی نقصان پر فوراً حاضرہوکر اپنی طبی خدمات پیش کرسکے۔“
میڈیکل اسکول اور لائبریریاں
چونکہ ہسپتالوں کا ایک اہم کردار معالجین کی تربیت تھا لہٰذا ہر ہسپتال میں بڑے لیکچر تھیٹر موجود تھےجہاں طلباء، سینئر ڈاکٹرزاور میڈیکل آفیسرز کے ساتھ مل کرعلمی مذاکرے (Seminar) کے انداز میں طبی مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ جب تربیت آگے بڑھتی تو میڈیکل کے طلباء بالکل جدید میڈیکل کی تعلیم کی طرح سینئر ڈاکٹروں کے ساتھ میڈیکل وارڈ میں جاتے اور مریضوں کی دیکھ بھال میں حصہ لیتے ۔
افتادِ زمانہ سے بچ جانے والی کچھ عبارتیں اور کاغذات جیسے ابن ابی اصیبعہ (نامور عرب معالج و مؤرخ) کی 'عُيون الأنباء فِي طبقات الأطباء' (Sources of Information on Classes of Physicians) نیز طالب علموں کے ذاتی نوٹس ان ابتدائی طبی دوروں کی تفصیلات سامنے لاتے ہیں۔ ان میں جِلد کے امراض، رسولیوں (Tumors) اور بخارکے علاج کے لیے مخصوص غذاوں اور تراکیب بارے ہدایات شامل ہیں۔میڈیکل وارڈ کےان دوروں کے دوران طلبا کو بتایاجاتا کہ وہ مریضوں کے افعال، بول و براز (Faeces and Urine)، سوجن اور درد کی نوعیت اور مقام کی جانچ کریں۔طلباء کو جِلد کی رنگت اور حالت کا مشاہدہ کرنے کی ہدایت کی جاتی کہ آیا جلد گرم، ٹھنڈی، نم، خشک یا ڈھیلی ہے۔ تربیت کے اختتام پر میڈیسن پریکٹس کا لائسنس حاصل کرنے کا امتحان ہوتا۔امیدواروں کو اس علاقے میں حکومت کے مقرر کردہ چیف میڈیکل آفیسر کے سامنے حاضر ہونا ہوتاتھا۔ پہلے مرحلے میں اس خاص موضوع پر ایک مقالہ لکھناہوتا تھا جس میں امیدوار سند حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ مقالہ کسی اصلی تحقیق یا قدیم ماہرین جیسے Hippocrates (یونانی طبیب)، Galen (رومی معالج، سرجن اور فلاسفر) یا گیار ہویں صدی کے بعد ابن سینا کے کام کی تفسیر ہوسکتا تھا۔
امیدواروں کو نہ صرف ان تحقیقی کاموں کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی جاتی بلکہ ممکنہ غلطیوں کی جانچ پڑتال کابھی کہا جاتاتھا۔ قرونِ وسطیٰ کے اسلامی دانشورانہ رواج کے کلیدی اصولوں میں سے ایک اہم اصول روائتی علمی حاکمیت کی غلامی کے بجائےاصولِ تجربی (Empiricism) اور مشاہدے (Observation) پر زور دینا تھا۔اس مقالے کی تکمیل کے بعد چیف میڈیکل آفیسر کے ذریعے امیدواروں کا ایک طویل انٹرویو ہوتا جس میں ان سے منتخب شدہ طبی علم کے وسائل سے متعلق سوالات پوچھےجاتے اور تسلی بخش جوابات امیدواروں کو لائسنس کے حصول کا مستحق بناتے۔
ہسپتال کا ایک اور اہم پہلو جو طلباء اور اساتذہ دونوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل تھا وہ وسیع طبی کتب خانوں یعنی لائبریریوں کی موجودگی تھی۔ چودہویں صدی میں مصر کے ابنِ طولون ہسپتال میں ایک لائبریری تھی جس میں میڈیکل سائنس کی مختلف شاخوں پر ایک لاکھ کتابیں موجود تھیں، جبکہ اس وقت پیرس یونیورسٹی میں یورپ کی سب سے بڑی لائبریری میں صرف 400 جلدیں موجود تھیں۔
اسلامی طب کا گہوارہ اور آج کےہسپتالوں کا ابتدائی نمونہ، بیمارستان کا شمار قرونِ وسطیٰ کی اسلامی دنیا کی بے شمار سائنسی اور فکری کامیابیوں میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم اصول یہ تھا کہ جب کوئی بیماری یا حادثاتی چوٹ کا سامنا ہو تو ہسپتال سے زیادہ اہم اور ضروری کوئی چیز نہیں ہے۔
ذیل میں دسویں صدی میں قرطبہ کے ایک ہسپتال سے ایک فرانسیسی نوجوان کے خط کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
آپ نے اپنے پچھلے خط میں بتایا کہ آپ میری دوائیوں کے اخراجات کے لیے مجھے کچھ رقم بھیجیں گے۔ میں کہتا ہوں مجھے اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس اسلامی ہسپتال میں علاج مفت ہے۔ اس ہسپتال کے بارے میں کچھ اور بھی ہے جو قابل ذکر ہے۔ یہ ہسپتال ہر اس مریض کو جو صحت یاب ہوچکا ہو، ایک نیا سوٹ اور پانچ دینار دیتا ہے تاکہ اسے آرام اور صحت یابی کی مدت میں خود کام نہ کرنا پڑے۔
پیارے والد! اگر آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو آپ مجھے سرجری کے شعبہ اور جوڑوں کے علاج کے شعبہ میں پائیں گے۔ جب آپ مرکزی گیٹ میں داخل ہوں گے تو جنوبی ہال میں جائیں جہاں آپ کو محکمہ ابتدائی طبی امداد اور بیماریوں کی تشخیص کا شعبہ ملے گا، اس کے بعد آپ کو گنٹھیا (Arthritis) کا شعبہ ملے گا۔ میرے کمرے سے بالکل سامنے آپ کو ایک لائبریری اور ایک ہال ملے گا جہاں پروفیسروں کے لیکچرز سننے کے لیے ڈاکٹرز اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس ہال کو مطالعہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ شعبہ امراضِ نسواں ہسپتال کی عمارت کے دوسری طرف ہے۔ مردوں کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ ہسپتال کی عمارت کے دائیں طرف صحت یاب ہونے والوں کے لیے ایک بہت بڑا ہال ہے۔ اس جگہ وہ کچھ دن آرام اور راحت کی مدت گزارتے ہیں۔ اس ہال میں ایک خاص لائبریری اور کچھ آلاتِ موسیقی بھی موجود ہیں۔
پیارے والد! اس ہسپتال میں ہر جگہ انتہائی صاف ستھری ہے۔ بستر اور تکیے دمشق کے نہایت عمدہ سفید کپڑے سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ بستر کی چادریں نرم مخمل سے بنی ہیں۔ اس ہسپتال کے تمام کمروں کو صاف پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس پانی کو پائپوں کے ذریعے کمروں تک پہنچایا جاتا ہے جو ایک وسیع پانی کے چشمے سے جڑے ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ تمام کمرے حرارتی چولہے (Heater) سے بھی لیس ہیں۔ کھانے میں مرغی اور سبزیوں کو ہمیشہ اس حد تک عمدہ پکا کے پیش کیا جاتا ہے کہ کچھ مریض ان لذیز کھانوں کی خواہش اور شوق کی وجہ سے ہسپتال چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔
(اسلامی سائنسی بالادستی۔ امیر غفار الارشدی۔ 1990، بیروت، الرسالہ اسٹیبلشمنٹ)
یہ مضمون David W. Tschanz کے AramcoWorld میگزین میں چھپنے والے مضمون ‘The Islamic Roots of the Modern Hospital’ کا ترجمہ ہے۔ David Tschanz تاریخ اور وبائیات (History and Epidemiology) میں اعلی درجے کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور 950سے زائد سائنسی وتحقیقی مضامین اور آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں۔
https://www.aramcoworld.com/Articles/March-2017/The-Islamic-Roots-of-the-Modern-Hospital