افریقی عوام اور یورپ کی نسل پرستی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • افریقی عوام اور یورپ کی نسل پرستی

    اُس نے مجھے قتل کرنے کے بعد ظلم سے توبہ کر لی۔ہائے وہ جلد پشیمان ہوجانے والا کس قدر جلد پشیمان ہوا ہے! کاش اُس نے قتل کرنے سے پہلے توبہ کی ہوتی

    By نعمان باقر Published on May 04, 2020 Views 1751
    افریقی عوام اور یورپ کی نسل پرستی
    تحریر: پروفیسر نعمان باقر نقوی.  کراچی

    اردو شاعری میں اکثر ایک ہی مصرع ایک مکمل کیفیت کا اتنا بھرپور ترجمان ہوتا ہے کہ صرف وہ ہی مصرعہ مشہور اور زبان زد خاص وعام بن جاتا ہے اور دوسرا مصرعہ اکثر ذہنوں سے محو ہوجاتاہے . مذکورہ مصرعہ بھی اسی طرح کا ہے.  
    غالب کی اس غزل کے اور بھی مشہور اشعار ہیں لیکن یہ شعر اپنے اندر ایک خاص معنے رکھتا ہے . شعر کچھ اس طرح ہے,
     کی اس نے مرے قتل کے بعد جفا سے توبہ                            ہائے اس زود   پشیماں کا  پشیماں  ہونا.
    زود=  جلدی      زوُد  پشیماں=  جلدی  پچھتانے والا     
     تشریح:   اُس نے   مجھے  قتل  کرنے  کے  بعد  ظلم  سے  توبہ  کر  لی۔  ہائے  وہ  جلد  پشیمان  ہوجانے والا  کس  قدر  جلد  پشیمان  ہوا  ہے!  کاش  اُس نے  قتل  کرنے  سے  پہلے  ظلم  سے  توبہ  کی  ہوتی؛  اب  توبہ  کرنے  سے  کیا  فائدہ؟  یہاں  زود  پشیمان  کے  طنز  نے کیا خوب  لطف  پیدا  کیا  ہے۔
     آج کل سوشل میڈیا پر نسل پرست یورپ کی افریقی اقوام پر دہشت ناک مظالم کی معافی کا چرچا عام ہے. میری مراد ان وڈیوز  سے ہے جس میں کالوں سے معافی مانگی جارہی ہے. کہیں پوپ ان کے پاؤں دھلوارہے ہیں اور کہیں کینیڈا کے وزیر اعظم  نسلی امتیاز کے بجائے ایک قوم اور ملک کی بات کر رہے ہیں ۔اور سماجی تقریبات منعقد کرکے اس معافی یا شرمندگی کا اظہار  کیا جا رہا ہے۔
    ابھی حال ہی میں سیاہ کار و سیاہ رو سابق امریکی صدر اوباما نے بھی اپنے دور میں لیبیا پر انسانیت سوز حملے پر شرمندگی کا اظہار کیا ہے. 
    ' غالب 'کے اس مصرعے میں ان واقعات کی ترجمانی کے ساتھ ان سفاک نسل پرست یورپ اور امریکا کو شرمندگی کے احساس دلانے کا سامان موجود ہے جو شاید ان کی موجودگی تا دیر محال ہے. 
    شاید کچھ نیک نیت لوگ اسے قند مکرر بھی محسوس کررہے ہوں ۔میں بھی کسی کی نیت پر شبہ کا قائل نہیں لیکن انگریزی محاورہ ہے ۔            Action speaks louder then words” “        سو ہم بھی اسی کے تناظر میں بات کرتے ہیں  ۔
    یورپی نسل پرست بھیڑیوں کا یہ وطیرہ رہا یے کہ وہ ایشیا اور افریقا کے اقوام کو اپنی سفاکی ہلاکت خیز حملوں سے تباہ و برباد کرکے ان کے وسائل پر قبضہ اپنا حق قرار دیتے ہیں اور پھر مستقبل میں مزید مفادات ہڑپ کرنے کے پیش نظر جدید پلاننگ کے تحت اپنے ناقابل معافی جرائم پر معافی کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اسی طرح انہیں غلام بنانے کا نیا حربہ عمل میں لاکر پیش قدمی کی جاتی ہے. 
    دراصل معافی کی یہ ڈرامے بازی مظلوم انسانیت کےساتھ ایک بھونڈا مذاق اور حقارت آمیز تذلیل کے سوا کچھ نہیں. 
    یہاں ہم نسل پرست امریکا و یورپ کا خصوصاً  افریقی اقوام کو غلام بنانے ان کے ممالک پرحملے کرنے کی وجوہات  جاننے کی کوشش کریں گے نیز نسل پرستی اور غلامی کے خلاف  افریقی عوام کی جدوجہد ،  یورپی اقوام کی لوٹ مار اور بیسویں صدی میں بننے والے امتیازی قوانین کا بھی سرسری تذکرہ  کریں گے۔جس سے آج تک ہونے والے استحصال اور  ایشیا  و افریقا کی پسماندگی کے اصل اسباب کا جائزہ لینے میں  مدد ملے گی اور اس کے علاوہ یورپی اقوام کی جمہوریت کے نعرے  مساوات اورانسانی حقوق کے تصورات  عمل کے آئینے میں نمایاں ہوں گے، اوریہ بھی کہ کس طرح نفع کی لالچ میں غلامی کو مستقل قائم رکھنے کے لیے جسمانی تشدد اور ظلم کا ہر حربہ اپنا کر فتح و شکست کو تارِیخ کا خلاصہ بتاکر ان اقوام کے ذہنوں میں غلامی پیوست کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اور پھر تشدد کو انہی پرامن اور سادہ لوح عوام کا  شعار بنایا گیا.
    یہ بات یاد رہے کہ بر اعظم  افریقا قدرتی وسائل  سے مالامال ہے جن میں دنیا کے بہترین  اورقیمتی معدنی وسائل شامل ہیں ۔ لیکن آج افریقہ کا نام آتے ہی  کانگو وائرس ،ڈینگو مچھر ،بیماریاں ،غربت قحط سالی اور خانہ جنگی جیسی خوف ناک شکلیں ذہن میں آتی ہیں ۔ طرفہ تماشا یہ کہ پوری دنیا میں مختلف  بیماریاں اور ان کے وائرس پھیلانے کے لیے ان ہی غریب افریقی عوام کا انتخاب آج بھی جاری ہے ۔
    حالانکہ افریقا کے صحرا دریا  پہاڑ قدرتی مناظر جنگلی حیات نباتات دنیا بھر میں فوٹو گرافروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں.
     افریقا دنیا کا دوسرا بڑا براعظم ہے جو معدنیات سے مالا مال ہے ، یہاں وسیع تر پائی جانے والی معدنیات میں تیل، سونا، تانبا اور ہیرا خصوصاً قابل ذکر ہیں ۔  علاوہ ازیں پلاٹینم، کرومیم، ویناڈیم اور کوبالٹ کے علاوہ یورینیم، ، ٹیٹانیم،  اور لوہے کے بھی دنیا بھر کے سب سے وسیع ذخائر یہاں پائے جاتے ہیں۔
    کسی زمانے میں مالی سے دنیا کا نصف سے زائد سونا نکالا جاتا تھا۔  کئی ممالک میں کان کنی اب بھی اہم ترین صنعت شمار ہوتی ہے۔ 
    یہاں  تانبے کے سب سے زیادہ ذخائر جمہوریہ کانگو اور زیمبیا میں پائے جاتے ہیں۔ تیل الجزائر، انگولا، مصر، لیبیا اور نائجیریا میں نکلتا ہے۔ افریقا میں مختلف اقسام کے ماحول میں مختلف فصلیں بھی ہوتی ہیں۔ منطقہ حارہ کے علاقوں میں ربڑ اور کیلا اہم کاشت ہے جبکہ مشرقی افریقا چائے اور کافی کی کاشت کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے جن میں کینیا قابل ذکر ہے۔ پھل، کھجور اور زیتون برآمد کیے جاتے ہیں۔
    مغربی افریقا میں مونگ پھلی، کوکواور کافی کاشت ہوتی ہے۔ جنوبی حصے میں جنوبی افریقا میں مختلف اقسام کی کاشت ہوتی ہے جن میں پھل برآمد کیے جاتے ہیں
    ان قدرتی وسائل پر یورپی اقوام کی حریصانہ قبضے کی سوچ نے ان سادہ لوح اقوام کو غلامی کے طویل دور میں دھکیل دیا.
    1960ء کی دہائی تک افریقا کا بیشتر حصہ یورپی ممالک کے قبضے میں تھا اور عرصہ دراز غلامی کے بعد طویل ترین جدوجہد آزادی کے نتیجے میں  1980ء کی دہائی تک  تقریباً تمام ممالک کو آزادی تو مل گئی لیکن ان کے وسائل نو آبادیاتی دور میں غصب کر لیے گئے . اس لیے وہ اقتصادی و معاشی طور پرنہ سنبھل سکے اور آج تک غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 
      ہمارے ہاں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کی بہت شہرت ہے ،لیکن بہت کم کرکٹ کے شائقین کو یہ حقیقت معلوم ہوگی کہ اس ملک کی اکثریتی آبادی کے بنیادی حقوق معطل ہیں اور انہیں کالا ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے .
     نیلسن منڈیلا اپنی کتاب ’’آزادی کا طویل سفر‘‘ (A Long Walk to Freedom ) میں کالوں پر کالے قوانین کچھ یوں تحریر کرتے ہیں کہ:
     قانونِ زمین ۱۹۱۳ء ( Land Act 1913 ) :  جِس کے تحت جنوبی افریقہ کی نوے فیصد (%۹۰)زمین کی ملکیت سفید فام لوگوں کو دے دی گئی-
    قانونِ شہری علاقہ جات ۱۹۲۳ء( 1923 The Urban Area Act) : جِس کے تحت شہروں میں سفید فام اور سیاہ فام لوگوں کی الگ الگ رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ جس کے تحت   ۳۰ لاکھ افریقی آبادی کو جبری بے دخل کیا گیا۔
    قانونِ مقامی انتظامی امور۱۹۲۷ء (Native Administrative Act 1927 )جِس کے تحت مقامی افراد کو حکومت کے انتظامی امور سے فارغ کر دیا گیا-
    قانونِ مقامی نمائندگیِ ۱۹۳۶ء (Representation of Native Act) :جِس کے تحت سیاہ فام لوگوں کو حکومت نہ کرنے حتیٰ کہ ووٹ کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیا- 
    افریقن نیشنل کانگریس (نیلسن منڈیلا) کی جدوجہد رنگ لائی اور آخر اکثریتی عوام نے اپنے حقوق حاصل کیے ۔
    پرتگالی واسکو ڈی گاما ایک جہازراں اور سیاح کے طور پر تو مشہور ہے ، لیکن وہ بھی ایک نسل پرست سفاک بحری قذاق کا ہیبت ناک وجود تھا.
    آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دوسری بار جب واسکو ڈی گاما نےپرتگال سے  ہندوستان کا سفر اختیار کیا تو اس کے تیور کچھ اور تھے۔ اس نے غیر پرتگالی جہازوں کو سمندر میں سفر کرنے سے روک دیا. سمندری سفر کے جرم میں "میری" نامی حجاج کرام کا جہاز جن میں بچے بوڑھے اور عورتیں سوار تھیں ان سب کو  باندھ کر زندہ جلا دیا. اس نے افریقا کے مشرقی ساحلی شہروں کو بلاوجہ اور بلاامتیاز بمباری کا نشانہ بنایا اور خراج وصول کیے بغیر اور یہ وعدہ لیے بغیر کہ وہ آئندہ مسلمان تاجروں(مسالوں کے بین الاقوامی تاجر) سے تجارت نہیں کریں گے، وہاں سے نہیں ٹلا۔'
    گن بوٹ ڈپلومیسی' بلکہ گن بوٹ تجارت کی اس سے عمدہ نسل پرستانہ مثال ملنا مشکل ہے۔
     آج بھی اکیسویں صدی میں برطانیہ میں جولائی ۲۰۰۷  کے نسلی فسادات ہوں یا امریکہ میں کالوں کے قتل کے واقعات ان کے پیچھے نسلی غرور اور امتازی سلوک اور کالے قوانین ہیں جن سے کالوں کو مجرم بناکر پیش کرنا  آسان  بنایا گیا ہے ۔اور  آج کے نوجوان کو اس کا ادراک ہی نہیں کہ ترقی کے اس سفر میں کروڑوں مظلوم رنگ دار انسانوں سے ان کی زندگیوں کا خراج لینے کے باوجود آج بھی امریکہ اور  یورپی ممالک میں غربت کا ریشو تیزی سے بڑھ رہا ہے , جو ۔ان کے زوال کا پیش خیمہ ہے. 
     اسی نفرت  اور نسلی تعصب کےنظریات اور پروپیگنڈے کے خلاف رنگ دار قوموں نے کیسا مہذب جواب دیا  کہ جس کا جواب سفید فام دنیا کے پاس نہیں ہے ،
     رنگ دار قوموں نے دو محاورے  اپنائے ہیں ایک      
     "" خون کا سفید ہونا  ""    اور دوسرا  ""سفید جھوٹ "".
    (جاری ہے)
    Share via Whatsapp