برانڈڈ قیادت اور لوٹ مار
جب نظام قومی اور اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کی بجاے انفرادی اور گروہی مفادات کو پورا کرنے کی بنیادوں پر قائم ہو گا تو اس میں مخلص سے مخلص شخص بھی کبھ
برانڈڈ قیادت اور لوٹ مار
محمد مغیث۔لاہور
ایک شخص چندہ مانگ کر ہسپتال بناتا ہے۔پھر وہ وسائل سے مالا مال ملک کا وزیر بن اعظم بنتا ہے توکوئی ٹھوس پالیسی بنانے کے بجائے مشکلات میں گھری قوم سے چندہ ہی مانگتا ہے۔جب نظام قومی اور اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے انفرادی اور گروہی مفادات کو پورا کرنے کی بنیاد پر قائم ہوگا تو اسے ڈلیور کرنے کے لیے مخلص نہیں برانڈڈ شخصیات کا سہارا چاہیے ہوتا ہے تاکہ قوم کے سامنے ایک سافٹ قیادت پیش کرسکے ۔ایسی شخصیت خواہ کتنی مخلص ہو مگر وہ عملی اقدامات نہیں کرسکتی ۔جو لوگ پروفیشنل لائف سے وابستہ ہیں وہ اس بات کو بڑے بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
نظام کے بانجھ پن کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہےکہ سابق وزیراعظم کو نااہل ہوئے تین سال ہو چکے ہیں ۔ اس نااہل کے پاس کوئی عہدہ نہیں کوئی طاقت نہیں بلکہ وہ جیل میں رہا اوربارہا عدالتوں میں پیش ہوا مگر مجال ہےکہ اس سے ایک روپیہ بھی نکلوایا جا سکا ہو۔ برانڈڈ قیادت کا یہ دعویٰ کہ لوٹی ہوئ دولت قومی خزانہ میں واپس لائی جائے گی وہ بھی حصول اقتدار کے نعرے کے علاوہ کچھ نہیں ۔
اور اب یہ قومی مالیاتی ڈھانچے کی فرسودگی کا نتیجہ ہے کہ آئی پی پیز (Independent Power Producers )سے جتنے کی بجلی خریدی گئی اس سےسو ارب سے زیادہ کی ادائیگیاں قومی خزانہ سے کر دی گیئں ایک طرف تو قوم سے چندہ مانگ کر بمشکل 22 کروڑ اکٹھے کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف قومی خزانے سے عوام کے پیسوں سےسو ارب کا نقصان کر دیا جاتاہے۔اور اس سے بڑھ کر تماشہ کیا ہو گا کہ یہ بے رحم لوگ کرونا ریلیف فنڈ پر بریفنگ دے رہے ہوتے ہیں اور اگلی معاشی پالیسیاں بھی انہیں کے ہاتھوں پروان چڑھنی ہیں جو اس سب لوٹ مار کے ذمہ دار ہیں۔
اس لیے ملک کا تعلیم یافتہ نوجوان جو ملک کی فلاح و ترقی کا درد رکھتا ہے اسےعقیدت،جذبات اور نعروں کی سیاست سے باہر نکل کرحقیقی بنیادوں پر اپنے قومی مسائل کاتجزیہ کرنا چاہیے ۔یہ تجزیہ خواہشات اور تصورات کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر ہو جو قوم کو آگے بڑھنے کے لیے واضح راہ عمل دے۔