لیبیا؛ اوبامہ کا اعتراف اور ہمارے دانشوروں کی سیاسی بصیرت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • لیبیا؛ اوبامہ کا اعتراف اور ہمارے دانشوروں کی سیاسی بصیرت

    ابامہ کا اعتراف کہ لیبیا پر حملہ صدارتی کیریر کی بڑی غلطی تھی، ہمارے مذہبی اور سیاسی دانشوروں کی سیاسی بصیرت کا تجزیہ

    By سہیل قریشی Published on May 05, 2020 Views 1308
    لیبیا؛ اوبامہ کا اعتراف اور ہمارے دانشوروں کی سیاسی بصیرت  
    تحریر: سہیل قریشی، مانسہرہ 

    لیبیا میں مستحکم  سیاسی حکومت کو امریکہ نے نیست و نابود کر کے وہاں انارکی پیدا کی ہے۔ اوبامہ نے لیبیا پر حملہ اپنے صدارتی دور کی بڑی غلطی قرار دیا ہے۔ 
    مہذب دنیا کا یہ انتہائی مکروہ کام ہے، کہ وہ اسلحے اور دیگر کمپنیوں کے منافع کی خاطر غریب ممالک پر چڑھائی کرتے ہیں۔ وہاں تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ طالبان و دیگر متشدد گروپ پیدا کرتے، انہیں پالتے پوستے، پھر ان سے لڑائی کرتے اور آخر میں معاہدے کرتے ہیں۔ 
    مکر و فریب اور دجل کے اس پورے کاروبار کے لیے امریکہ میں صدر کو بطور سرکاری ملازم بھرتی کیا جاتا ہے اور آٹھ سال بعد وہ ریٹائر ہو کر تمام گناہوں سے توبہ تائب ہوجاتا ہے۔ ان کے صدور لیڈر نہیں بلکہ کمپنیوں کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں۔ 8 سال بعد بریف کیس اٹھا کر نجی زندگی کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اپنے فیصلوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ 
    لیبیا کے معاملے میں سب کے ساتھ ملامت کا مستحق پاکستان کا مذہبی طبقہ بھی ہے۔ ہماری نام نہاد مذہبی جماعتوں نے، اسی طرح کراچی کےعلما نے اس وقت  کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا۔ شام کے معاملے میں بھی وہ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں، اور منفی پروپیگنڈے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔  یہاں تک کہ ایک مشہور اسلامی جمیعت نے دیواروں پر لکھا کہ ہم لیبیا، مصر اور یمن کی طرز پر تبدیلی نظام چاہتے ہیں۔ 
    جب امریکہ صدام کے خلاف ہوا، تو کراچی کے ایک بڑے مدرسے کے مہتمم  نے صدام حسین سے پیسے لے کر بنائی گئی بلڈنگ کا نام "صدام منزل"  سے بدل کر "مدینہ منزل" رکھ لیا۔ 
    ہماری سیاسی قیادت اور مقتدرہ تو ہے ہی امریکہ کی زر خرید غلام، لیکن یہ مذہبی اشرافیہ بھی کوئی کمی نہیں چھوڑتی۔ 
    پھر مذہبی اشرافیہ کے خلاف رد عمل کی نفسیات کے حامل لبرل طبقات بھی مولویوں سے کم ہٹ دھرم نہیں۔ یورپ و امریکہ اور سرمایہ داروں کے وہ بھی دم چھلا ہیں۔ معاشی مسائل پر بات کرنے کے بجائے نان ایشوز کو بنیاد بنا کر ان پر واویلا کھڑا کرتے اور سرمایہ داریت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے لبرل طبقے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ عام انسانیت پر ہونے والے معاشی، سیاسی و سماجی ظلم پر بات کر سکے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ مسائل کی جڑ نفس مذہب کو سمجھ کر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ تاریخ حقائق کو مسخ کرنا، لایعنی مناظرے کرنا اور ذہنی عیاشی کرنا یہی ان کا مطمع نظر ہے۔ وہ تیسری دنیا اور خود مغرب کی عام انسانیت پر ہونے والے ظلم کو پروجیکٹ نہیں کرتے۔ بلکہ جانے انجانے میں عالمی اداروں کے دیے گئے ٹاسک کو ہی پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے چونکہ دو چار کتابیں پڑھی ہوتی ہیں، اور بات عالمی تناظر میں کرتے ہیں، اسی لیے مذہبی و تاریخی کتابوں سے غلط سلط حوالہ جات نکال نکال کر عام نوجوان پر اپنی دھونس جما رہے ہوتے ہیں۔ 
    جہاں مذہبی طبقہ چندوں کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے، وہاں لبرل طبقہ یورپ کی نیشنیلٹی کا متلاشی نظر آتا ہے۔
     ایک مشہور آن لائن دینی سکالر بھی عام انسانیت پر ہونے والے ظلم کے خلاف بات کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ سیاسی و معاشی مسائل کے حل پر بات کرنے کے بجائے دین کی عقلی تشریح پر پروگرام کر کے صلح جو قسم کے پڑھے لکھے مسلمانوں میں اپنی دھاک بٹھا رہے ہیں۔ ان کی نظر میں بھی سرمایہ داریت انسانیت کے لیے یورپ کا تحفہ ہے۔ وہ انسانیت پر امریکی و یورپی ظلم کے خلاف بات کر کے مغربی نیشنیلٹی نہیں کھونا چاہتے۔ ان کے کام میں اور مروجہ تبلیغی کام میں صرف اتنا فرق ہے کہ ایک کا حلیہ خالص مذہبی جبکہ دوسرے کا حلیہ لبرل ہے۔ وہ بھی لیبیا میں جمہوریت بحال کروانا چاہ رہے تھے۔  
    لیبیا اور شام کے ظلم پر کیا لبرل، کیا مولوی سبھی عالمی سرمایہ دار کی گود میں ہیں۔ مشرق وسطی میں انارکی پھیلانے کے عمل میں عام لوگوں کو گمراہ کرنے میں ان سب کا برابر کا کردار ہے۔ 

    تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
    امید لطف پہ ایوان کج کلاہ میں ہیں
    Share via Whatsapp