بائیولوجیکل وارفیئر(غیر روایتی جنگ) ایک مختلف نقطہ نظر سے :
دنیا اس وقت ایک عالمی وباء کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے جس نے پوری دنیا کی معیشت کو مفلوج کردیا ہے۔ سو اس کے پس منظر اور حقائق پر تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔
بائیولوجیکل وارفیئر(غیر روایتی جنگ) ایک مختلف نقطہ نظر سے :
تحریر: فرہاد علی عباسی ، راولپنڈی
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں حالیہ عرصے میں میں ایک نئی وباء (کرونا وائرس) دنیا میں پھیلی ہے جو کہ مبینہ طور پر چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت تک یہ وائرس چین اور ایران کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکا ہے اور کچھ ممالک میں بہت حد تک مہلک ثابت ہوا ہے، جن میں امریکہ، برطانیہ، اٹلی، جرمنی، فرانس، اسپین اور اس طرح کے کچھ ممالک سرفہرست ہیں۔
جہاں پر بھی اس وائرس کے مہلک اثرات اور اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کی بات ہوتی ہے وہیں پر اس کے پھیلاؤ کے اسباب پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں۔
ویسے تو اس کے پھیلنے کی بہت سی کہانیاں ہیں لیکن ابھی تک کی کچھ مستند معلومات کے مطابق اس کے پھیلنے کا سبب امریکہ سے آئے ہوئے وہ فوجی ہیں جو چین میں فوجی مشقوں کے لیے آئے تھے جو اس وائرس کو ساتھ لائے اور اس کے پھیلنے کا سبب بنے۔ اور یہ بات گزشتہ چھ مہینے کے دوران امریکہ کے اپنے نشریاتی اداروں (news channel) کی خبروں سے ثابت کی جا سکتی ہے جن کے مطابق اگست 2019 میں امریکی آرمی کی ایک بائیو لیب سے وائرس کے پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے اس بائیو لیب کو بند کر دیا گیا تھا، مگر اس وائرس کی وجہ سے پہلے ہی کچھ امریکی فوجی متأثر ہو چکے تھے۔ پھراکتوبر نومبر 2019 میں امریکہ کی طرف سے فوجی مشقوں کے لیے چین میں فوجی بھیجے گئے جس کے بعد دسمبر میں ہی کرونا کے کیس سامنے آنا شروع ہو گئے جن میں ڈاکٹر بھی شامل تھے۔
کچھ کیس امریکہ میں بھی اس دوران سامنے آئے مگر وہاں اس کی علامات کو معمولی فلو کے اثرات ہی بیان کیا گیا جو کہ وہاں پہلے سے ہی پھیلا ہوا تھا۔اب چونکہ نظر یہی آتا ہے کہ وائرس کے پھیلنے کا سبب امریکہ ہی بنا تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر امریکہ نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟
اب اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ امریکہ چونکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور اسے اس وقت سب سے بڑا خطرہ چین سے لاحق تھا جو ایک معاشی ریچھ بنتا جا رہا تھا اور بہت سی کوششوں اورپابندیوں کے باوجود امریکہ اس کو روکنے میں ناکام رہا۔ لہذا امریکہ کے پاس بائیو کیمیکل ویپن (وائرس) کا استعمال ہی بہترین منصوبہ تھا، جس کے استعمال سے وہ چین کو گھٹنوں کے بل لا سکتا تھا اور اس وائرس کو پوری دنیا میں پھیلا کر دنیا کی معیشت کو دوبارہ اپنے قابو میں کر سکتا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوا۔
لیکن پھر کچھ لوگ اس رائے سے اس لیےاختلاف کرتے ہیں کہ اگر امریکہ یہ کام کرتا تو یہ وائرس امریکا میں نہ پھیلتا، جب کہ اس وائرس نے امریکہ کی معیشت کو بھی بہت متأثر کیا ہے۔
اب بظاہر تو یہ دو مختلف رائے ہیں اور دونوں ہی اپنی جگہ وزن رکھتی ہیں تو پھر آخر اس بائیولوجیکل وارفیئر (وائرس) کے پیچھے کون ہے اور کس کے مفادات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔۔؟؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے تو ہمیں اپنا "نقطہ نظر" بدلنا ہوگا اور پھر تاریخ کا سہارا لینا ہوگا۔
سب سے پہلی اور بنیادی بات ذہن نشین کرنے کی یہ ہے کہ یہ کوئی دو ملکوں کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ دو معاشی نظاموں (economic systems) کی جنگ ہے۔ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام (capitalism) اور چین کے اشتراکی نظام (socialism) کی جنگ ہے۔جس میں سرمایہ دارانہ نظام (capitalism) اپنے مدمقابل اشتراکی نظام (socialism) کو نیچا دکھانے کے لیے اور دنیا میں اس کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے غیر روایتی جنگ کا کھیل کھیل رہا ہے۔بیسویں صدی میں یہ سرد جنگ امریکہ کے capitalism اور روس کے communism کے درمیان تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کر رہا ہے تو پھر وہ ممالک اس کا شکار کیوں ہیں جن میں سرمایہ دارانہ معاشی نظام رائج ہے۔۔؟؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم سرمیادارانہ نظام کی بنیادی حقیقت پر اور اس کی تاریخ پر تھوڑی سی نظر ڈالیں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت:
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی بنیادی اکائی سرمایہ (دولت) ہے، اور اس نظام کے تمام اصول انسانیت سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف سرمایہ (دولت) میں اضافے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
یہ نظام ہمارے مقامی جاگیردارانہ نظام سے مشابہت رکھتا ہے۔ جاگیر دارانہ نظام میں جاگیر کو اور سرمایہ دارانہ نظام میں انڈسٹری اور کاروبار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
جس طرح جاگیردارانہ نظام میں ایک جاگیردار صرف اور صرف اپنی جاگیر اور اس سے حاصل ہونے والی دولت کے اضافے کی کوشش کرتا ہے، اور اسے اپنی زمین پر محنت کرنے والے مزارع کی زندگی اور اس کے معاشی حالات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، اور اس کے علاوہ یہی جاگیردار اپنی جاگیر کی بنیاد پر اس علاقے کی معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
بالکل اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں تمام تر معاشی اور سیاسی سرگرمیاں بالواسطہ یا بلاواسطہ سرمایہ دار (بڑی کمپنیوں اور انڈسٹریوں کا مالک) ہی کنٹرول کرتا ہے، اور اسے سوائے اپنی دولت اور سرمایہ میں اضافے کے عام انسان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
اس وقت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا رہنما ملک امریکہ ہی ہے، لہذا سرمایہ دارانہ نظام کے مفاد کے لیے کوئی بھی کھیل امریکہ ہی کھیلتا ہے۔
اور جیسا کہ امریکا کی تمام تر معاشی اور سیاسی سرگرمیاں بڑے سرمایہ داروں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کنٹرول میں ہیں، جس کی بہترین مثال خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو کہ امریکہ کے بہت بڑے بزنس مین تو پہلے سے ہی ہیں لیکن اب صدر بھی ہیں۔ سو اس سرمایہ دارانہ نظام کا دفاع بھی یہی لوگ کرتے ہیں جس سے ان کا مفاد وابستہ ہے۔
لہذا جاگیر داروں کی طرح ان سرمایہ داروں کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اس کھیل (بائیولوجیکل وارفیئر) کا شکار بےشک امریکہ کی اپنی عوام ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس سے ملٹی نیشنل میڈیکل (pharmaceutical) کمپنیوں کو اپنی ویکسین بیچنے سے مزید فائدہ ہی ہوگا۔
اب چونکہ جب ایک نئی بیماری دنیا میں جنم پذیر ہوتی ہے تو اس کی کوئی ویکسین ( vaccine ) دستیاب نہیں ہوتی، ایسی صورت میں جو بھی کمپنی سب سے پہلے ایسی ویکسین کو بڑے پیمانے پر تیار کرکے دنیا کو فروخت کرے گی جس سے بیماری کا مکمل علاج ہوجائے تو پوری دنیا میں اسی کمپنی کی ویکسین فروخت ہوگی۔ لہذا اس کھیل میں فائدہ اسی کمپنی یا سرمایہ دار کو ہوگا جو بیماری پھیلانے سے پہلے ہی ویکسین اپنے پاس تیار رکھے۔ لیکن ایک بات کا دھیان رہے کہ اس ویکسین کی قیمت اور ڈیمانڈ اتنی ہی زیادہ بڑھے گی جتنا زیادہ اس بیماری کے دنیا میں پھیلنے اور تباہی پھیلانے کا انتظام کیا جائےگا۔
ان حقائق کا ثبوت تاریخ کی نظر سے:
چلیں اب اس نقطہ نظر کی حقیقت کا ثبوت تاریخ سے دیکھتے ہیں۔
جنگ عظیم اول( 1914 -1918) کی سازش کی ابتدا کرنے والے کچھ "خفیہ" لوگ تھے, جن کا مقصد دنیا کے ممالک کو قابل رحم حالت میں دھکیل کر ان کی دولت کو اکٹھا کرنا تھا، جس مقصد کے لیے پہلے سے ہی اسلحہ اور میڈیسن کی انڈسٹریوں نے مکمل تیاری کر رکھی تھی، جن کے کاروبار کو جنگ عظیم میں بے انتہا وسعت ملی اور انہوں نےخوب دولت اکٹھی کی، انہیں کمپنیوں کے مالکان ان بینکوں کے بھی مالک تھے جو جنگ کے شکار ممالک کو سودی قرضے فراہم کر رہے تھے۔
جنگ عظیم اول کے ختم ہونے کے بعد کے اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ سود مند ملک امریکہ تھا جو سمندر پار ہونے کی وجہ سے جنگ میں تو نہیں کودا لیکن تمام جنگ زدہ ممالک کو اشیاء فراہم کرتا رہا تھا۔
امریکہ کی اس منفرد خصوصیت کی بنیاد پر یورپ کے بڑے سرمایہ دار جنہوں نے جنگ عظیم سے پورا فائدہ اٹھایا انہوں نے امریکہ کو اپنا نیا مرکز بنایا۔
جنگ عظیم کے ختم ہونے کے بعد جب دوسرے ممالک کی طرف سے اشیاء کی طلب میں کمی واقع ہوئی تو امریکا نے اپنا خسارہ deficit اپنی پیپر کرنسی کی کی قدر value کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کرکے پورا کرنا شروع کردیا، جس کی وجہ سے امریکہ کو
The Great Depression (1934)
جیسے تلخ دور کا سامنا کرنا پڑا۔
اب چونکہ تمام بڑے سرمایہ دار تقریبا اپنا تمام سرمایہ امریکہ میں منتقل کر چکے تھے اور ادھر انڈسٹریاں لگا چکے تھے، لہذا ان سے ایسا سخت دور برداشت نہیں ہو رہا تھا اور وہ پھر سے جنگ عظیم جیسے کسی دور کی تلاش میں تھے جس سے وہ دنیا کے ممالک کو پھر سے اپنی اشیاء فروخت کر سکیں اور ان کی نازک حالت کی بنیاد پر ان کو سودی قرضے فراہم کر کے ان پر اپنا تسلط قائم کر سکیں۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔
1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی جو چھ سال تک برقرار رہی، دنیا کی اس حالت سے امریکہ نے خوب فائدہ اٹھایا اور پھر اس کے نتیجے میں امریکا معاشی اور دفاعی لحاظ سے دنیا کی سپر پاور بن کر ابھرا۔ تب تک امریکہ کا معاشی نظام ان سرمایہ داروں کے کنٹرول میں آچکا تھا۔
جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد بہت سے ملکوں نے آزادی حاصل کی اور دنیا کے بیشترممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ایک نئے معاشی نظام کی صورت میں نافذ ہوا۔ اس عالمی معاشی نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے وجود میں آئے، جو کہ امریکی حکومت کے نہیں بلکہ انہی سرمایہ داروں کے پرائیویٹ ادارے ہیں۔ ان اداروں کا واحد مقصد دنیا کے معاشی نظام کو سودی قرضوں اور سودی معیشت کے ذریعے اسے قابو میں کرنا اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط قائم رکھنا تھا۔
یہ اسی سرمایہ دارانہ نظام کی ہی کارستانیاں ہیں کہ بیسویں صدی کے آخر تک تمام ایشیا افریقہ اور مشرق وسطی کے تقریبا تمام ممالک پسماندہ ہی رہے ہیں، اور ابھی اکیسویں صدی میں بھی صرف چین نے ہی اس قدر ترقی کی ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ کے مدمقابل آ سکے۔ اور وہ بھی ایک نئے معاشی نظام (socialism) کی بدولت۔
اور اگر ہم امریکہ میں دولت کی تقسیم پر نظر ڈالیں تو Wikipedia پر موجود 2013 کے اعداد و شمار کے مطابق 76٪ دولت امیر ترین 10٪ خاندانوں کے ہاتھ میں ہے، اور نیچے کے 50٪ غریب لوگوں کے پاس پورے امریکہ کی صرف 1٪ دولت ہے۔
اسی طرح BBC کے مطابق دنیا کی 82٪ دولت صرف 1٪ امیر طبقہ کے پاس ہے، جو کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی غیر منصفانہ حقیقت کو واضح بیان کر رہی ہے۔
یہ تاریخ انتہائی مختصر انداز میں پیش کی گئی ہےاس مقصد کو واضح کرنےکےلیے کہ کیسے سرمایہ دار عالمی معاشی نظام کو اور پھر سیاسی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں، اور ابھی تک کر رہے ہیں۔
اب اگر ہم اپنے اصلی موضوع "بائیولوجیکل وار فیئر" (وائرس) پر بات کریں تو افریقہ اور یورپ اور حتی کہ امریکا میں پھیلنے والے وائرس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ ان سب کے پیچھے سرمایہ دارانہ نظام ( ملٹی نیشنل کمپنیوں) کا ہی ہاتھ تھا جو پہلے وائرس پھیلاتی ہیں اور پھر اس کی ویکسین کو مارکیٹ میں مہیا کر کے بڑے پیمانے پر پوری دنیا سے دولت اکٹھی کرتی ہیں۔
اور یقینا اس دولت میں تمام ممالک کے مقامی بڑے سرمایہ داروں اور کمپنیوں کا بھی حصہ ہوتا ہے جو کہ اپنے ملک میں اس نظام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم ملٹی نیشنل اسلحہ ساز کمپنیوں کے کردار پر نظر ڈالیں تو وہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی طرح جنگ عظیم اول میں اور جنگ عظیم دوم میں بے انتہا دولت اکٹھی کرنے کے بعد ابھی تک دنیا کے مختلف ممالک کو آپس میں لڑا کر اور ان میں جنگ کا ڈر اور خوف پیدا کرکے اپنا اسلحہ فروخت کر رہی ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا مقصد ہی دنیا میں وباء، جنگ اور خوف کی سیاست کھیل کر دنیا کے ممالک کو اپنا غلام بنانا اور ان پر اپنا معاشی اور سیاسی تسلط قائم رکھنا ہے۔
یہ صرف قوموں کی جنگ نہیں بلکہ عالمی سرمایہ داروں کی بھی جنگ ہے۔ اس بات کو صرف وہی تھوڑے سے لوگ سمجھتے ہیں جو عالمی سیاست (international politics) اور عالمی معاشی نظاموں
( economic systems) .پر عبور رکھتے ہیں
کچھ لوگوں کے نزدیک یہ صرف ایک conspiracy ہے، لیکن جو اس کو سمجھتے ہیں وہ ان تمام حقائق سے بخوبی آشنا ہیں۔
ایک انگلش کامقولہ ہے
"detective follow the money"
یعنی بہترین سراغرساں ہمیشہ یہ کھوج لگاتا ہےکہ دولت کس رخ جا رہی ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم عالمی سیاست کو قوموں اور ملکوں کے نقطہ نظر سے سمجھنے کے ساتھ ساتھ عالمی نظام اور ان کے مفادات کے نقطہ نظر سے سمجھیں ۔ تب ہی ہم کسی ایسے نکتے پر پہنچ سکتے ہیں جو عالمی حقائق کی نشاندہی بہترین طریقے سے کر سکے۔