حیاتیاتی دہشت گردی کی تاریخ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • حیاتیاتی دہشت گردی کی تاریخ

    حیاتیاتی دہشت گردی کا مقصد مختلف جراثیم، بیکٹیریا اور وائرس کے ذریعے معاشرے میں خوف وہراس پیدا کرنا ہے۔

    By سہیل مجاھد Published on Apr 20, 2020 Views 2425

    حیاتیاتی  دہشت گردی کی تاریخ

    تحریر: ملک محمد سہیل، فیصل آباد


    حیاتیاتی دہشت گردی کا مقصد مختلف جراثیم، بیکٹیریا اور وائرس کے ذریعے معاشرے میں خوف وہراس پیدا کرنا ہے۔ عوام، حکومت اور افواج کو حیاتیاتی ہتھیاروں سے نقصان پہنچانے  کی مختلف نظریاتی، سیاسی یا معاشی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ حیاتیاتی جنگ میڈیکل سائنس کا ایسا گھناؤنا استعمال ہے جس نے آج صحت عامہ، جرائم، دہشت گردی اور  بین الاقوامی  قوانین سے متعلق بہت اہم سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ دشمن کو کمزور کرنےکیلئے صحت کے مسائل پیدا کرنے کی تاریخ خاصی پرانی ہے،  تاہم  ایسے تاریخی واقعات جن سے حیاتیاتی دہشت گردی کا اشارہ ملتاہو، ان سے معنی خیز اور حتمی  نتائج اخذ کرنا قدرے مشکل کام ہے۔ جس کی وجوہات  میں  مبینہ حیاتیاتی دہشت گردی سے متعلق قابل اعتمادسائنسی اعدادوشمارکی کمی (خصوصا ً مائیکروبائیولوجی  کی آمدسے پہلے)اور حیاتیاتی دہشت گردی کے واقعات  کا غیرجانبدارانہ بیان نہ ہوناشامل ہیں۔  اسی طرح تاریخ دانوں کے لئے مبینہ حیاتیاتی حملوں اور قدرتی وبائی امراض میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    حیاتیاتی دہشت گردی کےاولین آثار چودھویں صدی  قبل مسیح کی  Hittites Civilization سے ملتے ہیں جو اناطولیہ (موجودہ ترکی) کی ایک طاقتور ریاست تھی، یہاں کی افواج نے  دشمن کے علاقوں میں اپنے طاعون زدہ جنگجو بھیجے تاکہ وہاں طاعون کی بیماری پھیلائی جا سکے۔ چوتھی صدی  قبل مسیح کا یونانی مورّخ ہیروڈٹس (Herodotus) بیان کرتا ہے کہ یونانی سپاہی اپنے تیر زہریلے سانپوں کے زہر اور انسانی خون ملے محلول میں  ڈبو کر استعمال کرتے تھے۔ موجودہ سائنسی تجربات یہ ثابت کرتے ہیں  کہ ایسا محلول انسانی جسم میں  زہر اور کئی خطرناک جراثیم پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ ماہرینِ بشریات نےزمانہ قدیم میں  تیروں پہ مختلف جانوروں اور پودوں سے نکالے گئے زہر کا استعمال  دریافت کیا ہے۔ 1437ء  کی ایک دستاویز میں میں اٹلی میں تیروں کے ذریعے طاعون پھیلانے کا ذکربھی ملتا ہے۔اسی طرح تیرھویں صدی میں منگول افواج نے یورپ پر حملے کے دوران منجنیق کے ذریعے انسانی آبادی میں طاعون زدہ فضلہ اور باقیات پھینکیں۔ یورپ کی تاریخ کے سب سے ہولناک طاعون جسے سیاہ موت (Black Death ) کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں( کہ وہ قدرتی تھا یا مصنوعی)۔طاعون کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے دیگر ثبوت  لتھوانیا، سویڈن اور روس سے بھی ملے ہیں۔ 

    پندرھویں صدی کے دوران مغربی اقوام کی باہمی جنگوں اور اسکے بعد نوآبادیاتی جنگوں میں  چیچک کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا گیا۔مثال کے طور پر یورپی لوگوں کی طرف سے قدیم امریکی مقامی باشندوں (Native Americans)  میں  ایسے کمبل  تقسیم کئے گئے جو یورپ کے ہسپتالوں میں چیچک کے مریضوں کے  زیرِاستعمال تھے  اورجس کا مقصد چیچک کی بیماری  کو تندرست آبادی میں پھیلانا تھا۔  اس غیر انسانی  اور وحشیانہ عمل کے نتیجے میں کروڑوں مقامی لوگ ہلاک ہوئے حتی کہ آج کچھ ممالک کےمقامی قبائل اورقدیم  آبادیاں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں جدید مائیکروبائیولوجی کی ابتداء  بلاشبہ  حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کو سمجھنے میں اہم موڑ ہے۔ لوئی پاسچر (Louis Pasteur)اور رابرٹ کوچ (Robert Koch)  کے سائنسی نظریات اور تجربات نے سائنسدانوں کیلئے خوردبینی جرثوموں کی ساخت کو سمجھنے اور انکی کثیر تعداد میں افزائش کی راہ ہموار کی۔ ان سائنسی تجربات کے بعد بیسویں صدی میں ہونے والی جنگوں نے خوردبینی جرثوموں کے حیاتیاتی حملوں میں استعمال کے مواقع فراہم کیے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد حیاتیاتی دہشت گردی کے خدشات اس وقت  بڑھنے لگے  جب مختلف گروہوں کے پاس  حیاتیاتی حملوں کی استعداد پیدا ہوئی۔ 

     لوئی پاسچر (Louis Pasteur)اور رابرٹ کوچ (Robert Koch) کے سائنسی تجربات سے جہاں بیماریوں کی روک تھام میں مدد ملی،  وہیں خوردبینی جرثوموں کی بڑے پیمانے پہ افزائش کے ذریعے  ممکنہ حیاتیاتی دہشت گردی کی راہ  بھی کھل گئی۔ تاریخی دستاویزات اس  حقیقت کی نشاندہی کر چکی ہیں کہ جنگِ عظیم اول کے دوران جرمنی اور فرانس نے  حیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات شروع کئے۔ ان تجربات کے نتیجے میں ہونے والے مبینہ نقصانات سے بچنے کے لئے 1925ء میں جنیوا معاہدہ  طے پایا جس کے تحت  (جنگ یا امن کی حالت میں)حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ، مگر ان پہ تحقیق اور انکی پیداوار کی اجازت دے دی گئی۔ فرانس، برطانیہ، اٹلی، کینیڈا، بیلجئیم، پولینڈ اور روس نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تحقیق اور پیداوارجاری رکھی جبکہ امریکہ نے 1975ء تک اس معاہدے کی توثیق ہی نہیں کی۔

    جنگِ عظیم اول میں جرمن فوج کے زہریلی گیسوں کے استعمال سے متاثر ہو کر جاپان نے 1932ء میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا پروگرام قائم کیا  اور جنگی قیدیوں  پر بے شمار تجربات کئے جن میں زندہ انسانوں کا آپریشن اور انسانی جسم میں مختلف  جراثیم داخل کر کے انکے اثرات دیکھنا شامل ہیں۔ ان تجربات میں قیدیوں کے جسم میں ہیضہ، چیچک، طاعون، انتھراکس اور Tularaemia جیسی بیماریوں کے جرثومے داخل کئے گئے اور ان کو بغیر علاج کے شدید جسمانی اذیت میں رکھا گیا تاکہ  ان بیماریوں کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔ جاپانی فوج کی سائنسی تحقیق کے یونٹ نمبر 731 نے چین کے ساتھ جنگ کے دوران خوراک، پانی اور کپڑوں کے ذریعے حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ جاپانی فوج نے ایسے ہتھیار منگولیا اور روس کیخلاف بھی استعمال کئے تاکہ دشمن افواج اور شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ جرمن نازیوں نے بھی قیدیوں پر  ہیپاٹائٹس-اے اور دیگر جراثیموں کے تجربات کئے  مگر دوسری جنگ عظیم میں جرمن افواج  کی طرف سے حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے شواہد نہیں ملے۔ 

    امریکہ نے 1942ء میں میری لینڈ(Maryland) کے مقام پر حیاتیاتی ہتھیاروں کی تجربہ گاہ تعمیر کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے جاپانی فوج کی سائنسی تحقیق کے یونٹ نمبر 731 کے ذمہ داران کو  حیاتیاتی ہتھیاروں کی تحقیق کا مواد فراہم کرنے کے بدلے میں جنگی جرائم پر معافی دے  دی۔ اسی دوران حیاتیاتی ہتھیاروں کے کچھ نمونے روسی جاسوسوں  کے ہاتھ لگ گئے جس نے روس کو بھی اس میدان میں اتار دیا۔سرد جنگ کے دور میں کوریا، ویتنام اور افغانستان کی جنگوں میں روس اور امریکہ ایک دوسرے پر حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات لگاتے رہے،  جن کو محض پراپیگنڈا سمجھا گیا۔ جنیوا معاہدہ  (1925ء) کے  غیرموثر ہونے کے بعد عالمی ادارہ صحت WHO  کے دباؤ کے تحت 1972ء میں امریکہ، برطانیہ اور روس سمیت دنیا کے سو سے زائدممالک  نے حیاتیاتی ہتھیاروں کے پھیلا‎ؤ کو روکنے کے معاہدے پر دستخط کئے۔ 

    عراقی صدرصدام حسین کے دور میں عراق میں حیاتیاتی ہتھیاروں کوبنانے کے پروگرام کا آغازہوا مگر عراق نے خلیج کی  جنگ(1990ء-1991ء) کے دوران ایسے ہتھیار استعمال کرنے سے گریز کیا۔ اپریل 1979ء میں روس کے ایک قصبے  Ekatarinburg میں انتھراکس کی وباء پھیلی ۔ 1992ء میں روسی صدر بورس ییلسن  (Boris Yelstin) نےتسلیم کیا کہ اس وباءکی وجہ روس کی حیاتیاتی ہتھیاروں کی لیبارٹری سے نکلنے والا مواد تھا۔ 1984ء میں گرو  رجنیش کے  پیروکاروں نے امریکی ریاست آریگان ( Oregon) میں کئی ریستورانوں کے سلاد میں کچھ حیاتیاتی جرثوموں والا مواد شامل کیا جس سے 751 افراد متاثر ہوئے۔ مارچ  1995ء میں ایک جاپانی مذہبی گروہ   Aum Shinrikyo کے کارندوں نے ٹوکیو میٹرو  پہ سارین گیس سے حملہ کیا جس سے سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے۔ نائن الیون کے ایک ہفتے بعد 18 ستمبر 2001ء کو  کئی امریکی  سینیٹرز اور میڈیا کی اہم شخصیات کو انتھراکس کے جرثوموں والے موادلگے خطوط موصول ہوئے جن سے 5 افراد ہلاک اور 17 افراد بیمار ہوئے۔ تحقیقات سے ان خطوط میں موجود حیاتیاتی مواد کا  سراغ امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک (Fort Detrick)  میں موجود  حیاتیاتی ہتھیاروں کی لیبارٹری  سے ملا مگر اصل ذمہ داران کی نشاندہی نہ ہو سکی۔

    درج بالا تمام حقائق اور واقعات کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حیاتیاتی ہتھیار دنیا کے تمام ممالک اور ان میں موجود اربوں انسانوں کی بقاء کے لئے  شدید خطرہ ہیں۔ اِسی طرح دنیا میں پیدا ہونے والی آفات اور طبی بحرانوں میں حیاتیاتی حملے کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور حیاتیاتی حملوں کے امکانات کو ختم کرنے کےلئے مشترکہ اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ 

    یہ مضمون    Vincent Barras اور  Gilbert Greub کے  ریسرچ پپر   " History of Biological Warfare and Bioterrorism" سے ماخوذ  ہے۔ Vincent Barras سوئٹزرلنڈوکی University of Lausanne مںr  Institute of the History of Medicine and Public Health مںر محقق ہںu ۔جبکہ Gilbert Greub اسی یونوdرسٹی مںر پروفسرںکے عہدے پراپنے فرائض سرانجام دے رہے  ہںک۔ 

    Share via Whatsapp